Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

سود

  • سود کی تعریف

      سود کو عربی میں ربا کہتے ہیں۔ ربا سے مراد لین دین اور قرض میں وہ بڑھوتری ہے جو جانبین کی مرضی سے ہو اور اس کو شریعت نے منع کیا ہو۔
      جب بھی دو فریقین کے مابین تعلق قرض خواہ اور مقروض کا ہوگا تو قرض دینے والا اگر قرض دینے کو اس شرط سے مشروط کر دے کہ وہ ایک معین اضافہ ایک معینہ مدت کے لیے اپنے قرض پر وصول کر ے گا تو اس اضافے کو سود یا ربا کہا جائے گا۔اس طرح لین دین میں بعض صورتوں میں معاملہ ہاتھ در ہاتھ اور برابر سر برابر کا کرنا ہوتا ہے اس کے فوت ہونے سے سود ہوجاتا ہے جس کی تفصیل درج ذیل ہے۔
      ہندو پاکستان کے رواج سے سب چيزيں چار قسم کى ہيں جو درج ذیل ہیں ۔

  • سونے چاندى اور ان کى چيزوں کا حکم

      (ان میں دونوں شرطیں پوری کرنی لازم ہیں ورنہ سود ہوگا)

    • مسئلہ۔ چاندى سونے کے خريدنے کى کئى صورتيں ہيں۔ ايک تو يہ کہ چاندى کو چاندى سے اور سونے کو سونے سے خريدا۔ جيسے ايک روپيہ کى چاندى خريدنا منظور ہے يا آٹھ آنے کى چاندى خريدى اور دام ميں اٹھنى دى يا اشرفى سے سونا خريدا۔ غرض کہ دونوں طرف ايک ہى قسم کى چيز ہے تو ايسے وقت دو باتيں واجب ہيں ايک تو يہ کہ دونوں طرف کى چاندى يا دونوں طرف کا سونا برابر ہو۔ دوسرے يہ کہ جدا ہونے سے پہلے ہى پہلے دونوں طرف سے لين دين ہو جائے کچھ ادھار باقى نہ رہے اگر ان دونوں باتوں ميں سے کسى بات کے خلاف کيا تو سود ہو گيا مثلا ايک روپے کى چاندى تم نے لى تو وزن ميں ايک روپے کے برابر لينا چاہيے اگر روپے بھر سے کم لى يا اس سے زيادہ لى تو يہ سود ہو گيا۔ اسى طرح اگر تم نے روپيہ تو دے ديا ليکن اس نے چاندى ابھى نہيں دى تھوڑى دير ميں تم سے الگ ہو کر دينے کا وعدہ کيا يا اسى طرح تم نے ابھى روپيہ نہيں ديا چاندى ادھار لے لى تو يہ بھى سود ہے۔
    • مسئلہ۔ دوسرى صورت يہ ہے کہ دونوں طرف ايک قسم کى چيز نہيں بلکہ ايک طرف چاندى اور ايک طرف سونا ہے اس کا حکم يہ ہے کہ وزن کا برابر ہونا ضرورى نہيں ايک روپے کا چاہے جتنا سونا ملے جائز ہے اسى طرح ايک اشرفى کى چاہے جتنى چاندى ملے جائز ہے ليکن جدا ہونے سے پہلے ہى لين دين ہو جانا کچھ ادھار نہ رہنا يہاں بھى واجب ہے جيسا کہ ابھى بيان ہوا۔
    • مسئلہ۔ بازار ميں چاندى کا بھاؤ بہت تيز ہے يعنى اٹھارہ آنے کى روپيہ بھر چاندى ملتى ہے روپے کى روپے بھر کوئى نہيں ديتا يا چاندى کا زیور بہت عمدہ بنا ہوا ہے اور دس روپے بھر اس کا وزن ہے مگر بارہ سے کم ميں نہيں ملتا تو سود سے بچنے کى ترکيب يہ ہے کہ روپے سے نہ خريدو بلکہ پيسوں سے خريدو اور اگر زيادہ لينا ہو تو اشرفيوں سے خريدو يعنى اٹھارہ آنے پيسوں کى عوض ميں روپيہ بھر چاندى لے لو يا کچھ ريزگارى يعنى ايک روپے سے کم اور کچھ پيسے دے کر خريد لو تو گناہ نہ ہوگا ليکن ايک روپيہ نقد اور دو نے پيسے نہ دينا چاہيے نہيں تو سود ہو جائے گا اسى طرح اگر آٹھ روپے بھر چاندى نو روپے ميں لينا منظور ہے تو سات روپے اور دو روپے کے پيسے دے دو تو سات روپے کے عوض ميں سات روپے بھر چاندى ہو گئى باقى سب چاندى ان پيسوں کى عوض ميں گئى۔ اگر دو روپے کے پيسے نہ دو تو کم سے کم اٹھارہ آنے کے پيسے ضرور دينا چاہيے يعنى سات روپے اور چودہ آنے کى ريزگارى اور اٹھارہ آنے کے پيسے ديئے تو چاندى کے مقابلہ ميں تو اسى کے برابر چاندى آئى جو کچھ بچى وہ سب پيسوں کى عوض ميں ہو گئى اگر آٹھ روپے اور ايک روپے کے پيسے دو گے تو گناہ سے نہ بچ سکو گے کيونکہ آٹھ روپے کى عوض ميں آٹھ روپے بھر چاندى ہونى چاہيے پھر يہ پيسے کيسے اس ليے سود ہو گيا۔ غرضيکہ اتنى بات ہميشہ خيال ميں رکھو کہ جتنى چاندى لى ہے تم اس سے کم چاندى دو اور باقى پيسے شامل کر دو تو سود نہ ہوگا اور يہ بھى ياد رکھو کہ اس طرح ہرگز سود نہ طے کرو کہ نو روپے کى اتنى چاندى دے دو بلکہ يوں کہو کہ سات روپے اور دو۔ روپے کے پيسوں کے عوض ميں يہ چاندى دے دو۔ اور اگر اس طرح کہا تو پھر سود ہو گيا خوب سمجھ لو۔
    • مسئلہ۔ اور اگر دونوں لينے دينے والے رضا مند ہو جائيں تو ايک آسان بات يہ ہے کہ جس طرف چاندى وزن ميں کم ہو اس طرف پيسے شامل ہونے چائيں۔
    • مسئلہ۔ اگر چاندى سستى ہے اور ايک روپے کى ڈيڑھ روپيہ بھر ملتی ہے روپے کى روپيہ بھر لينے ميں اپنا نقصان ہے تو اس کے لينے اور سود سے بچنے کى يہ صورت ہے کہ داموں ميں کچھ نہ کچھ پيسے ضرور ملا دو۔ کم سے کم دو ہى آنے يا ايک آ نہ يا ايک پيسہ ہى سہى۔ مثلا دس روپے کى چاندى پندرہ روپے بھر خريدى تو نو روپے اور ايک روپے کے پيسے دے دو يا دو ہى آنے کے پيسے دے دو۔ باقى روپے اور ريزگارى دے دو تو ايسا سسمجھيں گے کہ چاندى کے عوض ميں اس کے برابر چاندى لى باقى سب چاندى ان پيسوں کى عوض ميں ہے اس طرح گناہ نہ ہوگا اور وہ بات يہاں بھى ضرور خيال رکھو کہ يوں نہ کہو کہ اس روپے کى چاندى دے دو بلکہ يوں کہو کہ نو روپے اور ايک روپے کے پيسوں کے عوض ميں يہ چاندى ديدو۔ غرض جتنے پيسے شامل کرنا منظور ہيں معاملہ کرتے وقت ان کو صاف کہہ بھى دو ورنہ سود سے بچاؤ نہ ہوگا۔
    • مسئلہ ۔ عورتيں اکثر بازار سے سچا گوٹہ ٹھپہ لچکہ خريدتى ہيں اس ميں ان مسئلوں کا خيال رکھو کيونکہ وہ بھى چاندى ہے اور روپيہ چاندى کا اس کے عوض ديا جاتا ہے يہاں بھى آسان بات وہى ہے کہ دونوں طرف ايک ايک پيسہ ملا ليا جائے۔
    • مسئلہ۔ اگر چاندى يا سونے کى بنى ہوئى کوئى ايسى چيز خريدى جس ميں فقط چاندى ہى چاندى ہے يا فقط سونا ہے کوئى اور چيز نہيں ہے تو اس کا بھى يہى حکم ہے کہ اگر سونے کى چيز چاندى يا روپوں سے خريدے يا چاندى کى چيز اشرفى سے خريدے تو وزن ميں چاہے جتنى ہو جائز ہے فقط اتنا خيال رکھے کہ اسى وقت لين دين ہو جائے کسى کے ذمہ کچھ باقى نہ رہے۔ اور اگر چاندى کى چيز روپوں سے اور سونے کى چيز اشرفيوں سے خريدے تو وزن ميں برابر ہونا واجب ہے اگر کسى طرف کچھ کمى بيشى ہو تو اسى ترکيب سے خريدو جو اوپر بيان ہوئى۔
    • مسئلہ۔ اور اگر کوئى ايسى چيز ہے کہ چاندى کے علاوہ اس ميں کچھ اور بھى لگا ہوا ہے مثلا جو شن کے اندر لاکھ بھرى ہوئى ہے اور نو رنگوں پر رنگ جڑے ہيں انگوٹھيوں پر نگينے رکھے ہيں يا جوشنوں ميں لاکھ تو نہيں ہے ليکن تاگوں ميں گندھے ہوئے ہيں۔ ان چيزوں کو روپوں سے خريدا تو ديکھو اس چيز ميں کتنى چاندى ہے وزن ميں اتنے ہى روپوں کے برابر ہے جتنے کو تم نے خريدا ہے۔ يا اس سے کم ہے يا اس سے زيادہ اگر روپوں کى چاندى سے اس چيز کى چاندى يقينا کم ہو تو يہ معاملہ جائز ہے اور اگر برابر يا زيادہ ہو تو سود ہو گيا اور اس سے بچنے کى وہى ترکيب ہے جو اوپر بيان ہوئى کہ دام کى چاندى اس زيور کى چاندى سے کم رکھو اور باقى پيسے شامل کر دو اور اسى وقت لين دين کا ہو جانا ان سب مسئلوں ميں بھى شرط ہے۔
    • مسئلہ۔ اپنى انگوٹھى سے کسى کى انگھوٹى بدل لى تو ديکھو اگر دونوں پر نگ لگا ہو تب تو بہرحال يہ بدل لينا جائز ہے چاہے دونوں کى چاندى برابر ہو يا کم زيادہ سب درست ہے البتہ ہاتھ در ہاتھ ہونا ضرورى ہے اور اگر دونوں سادى یعنى بے رنگ کى ہوں تو برابر ہونا شرط ہے اگر ذرا بھى کمى بيشى ہو گئى تو سود ہو جائے گا اگر ايک پر رنگ ہے اور دوسرى سادى تو اگر سادى ميں زيادہ چاندى ہو تو يہ بدلنا جائز ہے ورنہ حرام اور سود ہے۔ اسى طرح اگر اسى وقت دونوں طرف سے لين دين نہ ہو ايک نے تو ابھى دے دى دوسرى نے کہا بہن ميں ذرا دير ميں دے دوں گى تو يہاں بھى سود ہو گيا۔
    • مسئلہ۔ جن مسئلوں ميں اسى وقت لين دين ہونا شرط ہے اس کا مطلب يہ ہے کہ دونوں کے جدا اور عليحدہ ہونے سے پہلے ہى پہلے لين دين ہو جائے اگر ايک آدمى دوسرے سے الگ ہو گيا اس کے بعد لين دين ہوا تو اس کا اعتبار نہيں يہ بھى سود ميں داخل ہے مثلا تم نے دس روپے کى چاندى يا سونا يا چاندى سونے کى کوئى چيز سنار سے خريدى تو تم کو چاہيے کہ روپے اسى وقت دے دو اور اس کو چاہيے کہ وہ چيز اس وقت ديدے۔ اگر سنار چاندى اپنے ساتھ نہيں لايا اور يوں کہا کہ ميں گھر جا کر ابھى بھيج دوں گا تو يہ جائز نہيں بلکہ اس کو چاہيے کہ يہيں منگوا دے اور اس کے منگوانے تک لينے والا بھى وہاں سے نہ ہلے اور نہ اس کو اپنے سے الگ ہونے دے اگر اس نے کہا تم ميرے ساتھ چلو ميں گھر پہنچ کر دے دوں گا تو جہاں جہاں وہ جائے برابر اس کے ساتھ ساتھ رہنا چاہيے اگر وہ اندر چلا گيا يا اور کسى طرح الگ ہو گيا تو گناہ ہوا اور وہ بيع ناجائز ہو گئى اب پھر سے معاملہ کريں۔
    • مسئلہ۔ خريدنے کے بعد تم گھر ميں روپيہ لينےآئيں يا وہ کہيں پيشاب وغيرہ کے ليے چلا گيا يا اپنى دوکان کے اندر ہى کسى کام کو گيا اور ايک دوسرے سے الگ ہو گيا تو يہ ناجائز اور سودى معاملہ ہو گيا۔
    • مسئلہ۔ اگر تمہارے پاس اس وقت روپيہ نہ ہو اور ادھار لينا چاہو تو اس کى تدبير يہ ہے کہ جتنے دام تم کو دينا چاہئيں اتنے روپے اس سے قرض لے کر اس خريدى ہوئى چيز کے دام بيباق کر دو قرض کى ادائيگى تمہارے ذمہ رہ جائے گى اس کو جب چاہے دے دينا۔ مسئلہ۔ ايک کا مدار دوپٹہ يا ٹوپى وغيرہ دس روپے کو خريدا تو ديکھو اس ميں کے روپے بھر چاندى نکلے گى جتنے روپے کی چاندى اس ميں ہو اتنے روپے اسى وقت پاس رہتے رہتے دے دينا واجب ہيں باقى روپے جب چاہو دو۔ يہى حکم جڑاؤ زيوروں وغيرہ کى خريد کا ہے مثلا پانچ روپے کا زيور خريدا اور اس ميں دو روپے بھر چاندى ہے تو دو روپے اسى وقت دے دو باقى جب چاہے دينا۔
    • مسئلہ۔ ايک روپيہ يا کئى روپے کے پيسے ليے يا پيسے دے کر روپيہ ليا تو اس کا حکم يہ ہے کہ دونوں طرف سے لين دين ہونا ضرورى نہيں ہے بلکہ ايک طرف سے ہو جانا کافى ہے مثلا تم نے روپيہ تو اسى وقت دے ديا ليکن اس نے پيسے ذرا دير بعد ديئے يا اس نے پيسے اسى وقت دے ديئے تم نے روپيہ عليحدہ ہونے کے بعد ديا يہ درست ہے البتہ اگر پيسوں کے ساتھ کچھ ريزگارى بھى لى ہو تو ان کا لين دين دونوں طرف سے اسى وقت ہو جانا چاہيے کہ يہ روپيہ ديدے اور وہ ريزگارى ديدے ليکن ياد رکھو کہ پيسوں کا يہ حکم اسى وقت ہے جب دوکاندار کے پاس پيسے ہيں تو سہى ليکن کسى وجہ سے دے نہيں سکتا يا گھر پر تھے وہاں جا کر لا دے گا تب دے گا۔ اور اگر پيسے نہيں تھے يوں کہا جب سودا بکے اور پيسےآئيں تو لے لينا يا کچھ پيسے ابھى دے ديئے اور باقى سبت کہا جب بکرى ہو اور پيسےآئيں تو لے لينا يہ درست نہيں اور چونکہ اکثر پيسوں کے موجود نہ ہونے ہى سے يہ ادھار ہوتا ہے۔ اس ليے مناسب يہى ہے کہ بالکل پيسے ادھار کے نہ چھوڑے۔ اور اگر کبھى ايسى ضرورت پڑے تو يوں کرو کہ جتنے يہ پيسے موجود ہيں وہ قرض لے لو اور روپيہ امانت رکھا دو جب سب پيسے دے اس وقت بيع کر لينا۔
    • مسئلہ۔ اگر اشرفى دے کر روپے ليے تو دونوں طرف سے لين دين سامنے رہتے رہتے ہو جانا واجب ہے۔
    • مسئلہ۔ چاندى سونے کى چيز روپے يا اشرفيوں سے خريدى اور شرط کر لى کہ ايک دن تک يا تين دن تک ہم کو لينے نہ لينے کا اختيار ہے تو يہ جائز نہيں ايسے معاملہ ميں يہ اقرار نہ کرنا چاہيے۔
  • جو چيزيں تل کر بکتى ہيں ان کا حکم

      (ان میں بھی دونوں شرطیں پوری کرنی لازم ہیں ورنہ سود ہوگا)

    • مسئلہ۔ اب ان چيزوں کا حکم سنیں جو تول کر بکتى ہيں جيسے اناج گوشت لوہا تانبا ترکارى نمک وغيرہ اس قسم کى چيزوں ميں سے اگر اک چيز کو اسى قسم کى چيز سے بيچنا اور بدلنا چاہو مثلا ايک گيہوں دے کر دوسرے گيہوں ليے يا ايک دھان دے کر دوسرے دھان ليے يا آٹے کے عوض آٹا يا اسى طرح کوئى اور چيز غرضيکہ دونوںطرف ايک ہى قسم کى چيز ہے تو اس ميں بھى ان دونوں باتوں کا خيال رکھنا واجب ہے ايک تو يہ کہ دونوں طرف بالکل برابر ہو ذرا بھى کسى طرف کمى بيشى نہ ہو ورنہ سود ہو جائے گا۔ دوسرى يہ کہ اسى وقت ہاتھ درہاتھ دونوں طرف سے لين دين اور قبضہ ہو جائے۔ اگر قبضہ نہ ہو تو کم سے کم اتنا ضرور ہو کہ دونوں گيہوں الگ کر کے رکھ ديئے جائيں تم اپنے گيہوں تول کر الگ رکھ دو کہ ديکھو يہ رکھے ہيں جب تمہارا جى چاہے لے جانا۔ اسى طرح وہ بھى اپنے گيہوں تول کر الگ کر دے اور کہہ دے کہ يہ تمہارے الگ رکھے ہيں جب چاہو لے جانا۔ اگر يہ بھى نہ کيا اور ايک دوسرے سے الگ ہو گئے تو سود کا گناہ ہوا۔
    • مسئلہ۔ خراب گيہوں دے کر اچھے گيہوں لينا منظور ہے يا برا آٹا دے کر اچھا آٹا لينا ہے اس ليے اس کے برابر کوئى نہيں ديتا تو سود سے بچنے کى ترکيب يہ ہے کہ اس گيہوں يا آٹے وغيرہ کو پيسوں سے بيچ دو کہ ہم نے اتنا آٹا دو آنے کو بيچا۔ پھر اسى دو نے کے عوض اس سے وہ اچھے گيہوں يا آٹا لے لو يہ جائز ہے۔
    • مسئلہ۔ اور اگر ايسى چيزوں ميں جو تول کر بکتى ہيں ايک طرح کى چيز نہ ہو جيسے گہوں دے کر دھان ليے يا جو۔ چنا۔ جوار۔ نمک۔ گوشت۔ترکارى وغيرہ کوئى اور چيز لى غرضيکہ ادھر اور چيز ہے اور ادھر اور چيز دونوں طرف ايک چيز نہيں تو اس صورت ميں دونوں کا وزن برابر ہونا واجب نہيں۔ سير بھر گيہوں دے کر چاہے دس سير دھان وغيرہ لے لو يا چھٹانک ہى بھر لو تو سب جائز ہے۔ البتہ وہ دوسرى بات يہاں بھى واجب ہے کہ سامنے رہتے رہتے دونوں طرف سے لين دين ہو جائے يا کم سے کم اتنا ہو کہ دونوں کى چيزيں الگ کر کے رکھ دى جائيں اگر ايسا نہ کيا تو سود کا گناہ ہو گيا۔
    • مسئلہ۔ سير بھر چنے کے عوض ميں ریڑے والے سے کوئى ترکارى لى پھر گيہوں نکالنے کے ليے اندر کوٹھڑى ميں گیاوہاں سے الگ ہو گیا تو يہ ناجائز اور حرام ہے اب پھر سے معاملہ کرے۔
    • مسئلہ۔ اگر اس قسم کى چيز جو تول کر بکتى ہے روپے پيسے سے خريدى يا کپڑے وغيرہ کسى ايسى چيز سے بدلى ہے جو تول کر نہيں بکتى بلکہ گز سے ناپ کر بکتى ہے يا گنتى سے بکتى ہے مثلا ايک تھان کپڑا دے کر گيہوں وغيرہ لے يا گيہوں چنے دے کر امرود نارنگى ناشپاتى انڈے ايسى چيزيں ليں جو گن کر بکتى ہيں غرضيکہ ايک طرف ايسى چيز ہے جو تول کر بکتى ہے اور دوسرى طرف گنتى سے يا گز سے ناپ کر بکنے والى چيز ہے تو اس صورت ميں ان دونوں باتوں ميں سے کوئى بات بھى واجب نہيں۔ ايک پيسہ کے چاہے جتنے گہوں آٹا ترکارى خريدے اسى طرح کپڑا دے کر چاہے جتنا اناج ليوے گيہوں چنے وغيرہ دے کر چاہے جتنے امرود نارنگى وغيرہ ليوے اور چاہے اسى وقت اس جگہ رہتے رہتے لين دين ہو جائے اور چاہے الگ ہو نے کے بعد ہر طرح يہ معاملہ درست ہے۔
    • مسئلہ۔ ايک طرف چھنا ہوا آٹا ہے دوسرى طرف بے چھنا يا ايک طرف موٹا ہے دوسرى طرف باريک۔ تو بدلتے وقت ان دونوں کا برابرہونا واجب ہے کمى زيادتى جائز نہيں اگر ضرورت پڑے تو اس کى وہى ترکيب ہے جو بيان ہوئى۔ اور اگر ايک طرف گيہوں کا آٹا ہے دوسرى طرف چنے کا يا جوار وغيرہ کا تو اب وزن ميں دونوں کا برابرہونا واجب نہيں مگر وہ دوسرى بات بہرحال واجب ہے کہ ہاتھ در ہاتھ لين دين ہو جائے۔
    • مسئلہ۔ گہوں کو آٹے سے بدلنا کسى طرح درست نہيں چاہے سير بھر گيہوں دے کر سير ہى بھر آٹا لو چاہے کچھ کم زيادہ لو۔ بہرحال ناجائز ہے البتہ اگر گيہوں دے کر گہوں کا آٹا نہيں ليا بلکہ چنے وغيرہ کسى اور چيز کا آٹا ليا تو جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔
    • مسئلہ۔ سرسوں دے کر سرسوں کا تيل ليا يا تل دے کر تلى کا تيل ليا تو ديکھو اگر يہ تيل جو تم نے ليا ہے يقينا اس تيل سے زيادہ ہے جو اس سرسوں اور تل ميں نکلے گا تو يہ بدلنا ہاتھ درہاتھ صحيح ہے اور اگر اس کے برابر يا کم ہو يا شبہ ہو کہ شايد اس سے زيادہ نہ ہو تو درست نہيں بلکہ سود ہے۔
    • مسئلہ۔ گائے کا گوشت دے کر بکرى کا گوشت ليا تو دونوں کا برابر ہونا واجب نہيں کمى بيشى جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔
    • مسئلہ۔ اپنا تانبے کالوٹا دے کر دوسرے کا تانبے لوٹا ليا يا لوٹے کو تانبے کی پتيلى وغرطہ کسى اور برتن سے بدلا تو وزن ميں دونوں کا برابر ہونا اور ہاتھ در ہاتھ ہونا شرط ہے اگر ذرا بھى کمى بيشى ہوئى تو سود ہو گيا کيونکہ دونوں چيزيں تانبے کى ہيں اس ليے وہ ايک ہى قسم کى سمجھى جائيں گى۔ اسى طرح اگر وزن ميں برابر ہو مگر ہاتھ در ہاتھ نہ ہوئى تب بھى سود ہوا۔ البتہ اگر ايک طرف تانبے کا برتن ہو دوسرى طرف لوہے کا يا پيتل وغيرہ کا تو وزن کى کمى بيشى جائز ہے مگر ہاتھ در ہاتھ ہو۔
    • مسئلہ۔ کسى سے سير بھر گيہوں قرض ليے اور يوں کہا ہمارے پاس گيہوں تو ہيں نہيں ہم اس کے عوض دو سير چنے دے ديں گے تو جائز نہيں کيونکہ اس کا مطلب تو يہ ہوا کہ گہوں کو چنے سے بدلتاہے اور بدلتے وقت ايسى دونوں چيزوں کا اسى وقت لين دين ہو جانا چاہيے کچھ ادھار نہ رہنا چاہيے۔ اگر کبھى ايسى ضرورت پڑے تو يوں کرے کہ گيہوں ادھار لے جائے اس وقت يہ نہ کہے کہ اس کے بدلے ہم چنے ديں گے بلکہ کسى دوسرے وقت چنے لا کر کہے۔ بہن اس گيہوں کے بدلے تم يہ چنے لے لو يہ جائز ہے۔
    • مسئلہ۔ يہ جتنے مسئلے بيان ہوئے سب ميں اسى وقت رہتے رہتے سامنے لين دين ہو جانا يا کم سے کم اسى وقت سامنے دونوں چيزيں الگ کرکے رکھ دينا شرط ہے۔ اگر ايسا نہ کيا تو سودى معاملہ ہوا۔
  • جو چيزيں تول کر نہيں بکتيں بلکہ گز سے ناپ کر يا گن کر بکتى ہيں ان کا حکم
    • (ان میں اگر ایک ہی جنس کا تبادلہ ہے تو ان میں برابری تو شرط نہیں البتہ ہاتھ در ہاتھ کا شرط باقی ہے۔اگر جنس مختلف ہو تو پھر ہاتھ در ہاتھ کا شرط بھی لازم نہیں۔)

    • مسئلہ۔ جو چيزيں تول کر نہيں بکتيں بلکہ گز سے ناپ کر يا گن کر بکتى ہيں ان کا حکم يہ ہے کہ اگر ايک ہى قسم کى چيز دے کر اسى قسم کى چيز لو جيسے امرود دے کر دوسرے امرود لے يا نارنگى دے کر نارنگى يا کپڑا دے کر دوسرا ويسا کپڑا ليا۔ تو برابر ہونا شرط نہيں کمى بيشى جائز ہے ليکن اسى وقت لين دين ہو جانا واجب ہے اور اگر ادھر اور چيز ہے اور اس طرف اور چيز مثلا امرود دے کر نارنگى لى يا گيہوں دے کر امرود ليے يا تنزيب دے کر لٹھا يا گاڑھا ليا تو بہرحال جائز ہے نہ تو دونوں کا برابر ہونا واجب ہے اور نہ اسى وقت لين دين ہونا واجب ہے۔
    • مسئلہ۔ سب کا خلاصہ يہ ہوا کہ علاوہ چاندى سونے کے اگر دونوں طرف ايک ہى چيز ہو اور وہ چيز تول کر بکتى ہو جيسے گيہوں کے عوض گيہوں چنے کے عوض چنا وغيرہ تب تو وزن ميں برابر ہونا بھى واجب ہے اور اسى وقت سامنے رہتے رہتے لين دن ہو جانا بھى واجب ہے اور اگر دونوں طرف ايک ہى چيز ہے اس طرف سے اور چيز ليکن دونوں تول کر بکتى ہيں جيسے گيہوں کے بدلے چنا چنے کے بدلے جوار لينا۔ ان دونوں صورتوں ميں وزن ميں برابر ہونا واجب نہيں۔ کمى بيشى جائز ہے البتہ اسى وقت لين دين ہونا واجب ہے اور جہاں دونوں باتيں نہ ہوں يعنى دونوں طرف ايک ہى چيز نہيں اس طرف کچھ اور ہے اس طرف کچھ اور۔ اور وہ دونوں وزن کے حساب سے بھى نہيں بکتيں وہاں کمى بيشى بھى جائز ہے اور اسى وقت لين دين کرنا بھى واجب نہيں جيسے امرود دے کر نارنگى لينا۔ خوب سمجھ لو۔
    • مسئلہ۔ چينى کا ايک برتن دوسرے چينى کے برتن سے بدل ليا۔ يا چينى کو تام چينى سے بدلا تو اس ميں برابرى واجب نہيں ايک کے بدلے دو ليوے تب بھى جائز ہے۔ اسى طرح ايک سوئى دے کر دو سوئياں يا تين يا چار لينا بھى جائز ہے ليکن اگر دونوں طرف چينى يا دونوں طرف تام چينى ہو تو اس وقت سامنے رہتے ہوئے لين دين ہو جانا چاہيے اور اگر قسم بدل جائے مثلا چينى سے تام چينى بدلى تو يہ بھى واجب نہيں۔
    • مسئلہ۔ تمہارے پاس پڑوسی آیا کہ تم نے جو سير بھر آٹا پکوایا ہے وہ روٹى ہم کو دے دو۔ ہمارے گھر مہمان آگئے ہيں اور سير بھر يا سوا سير آٹا يا گيہوں لے لو يا اس وقت روٹى دے دو پھر ہم سے آٹا يا گيہوں لے لے لينا۔ يہ درست ہے۔
    • مسئلہ۔ اگر نوکر ماما سے کوئى چيز منگاؤ تو اس کو خوب سمجھا دو کہ اس چيز کو اس طرح خريد کر لانا کبھى ايسا نہ ہو کہ وہ بے قاعدہ خريد لائے جس ميں سود ہو جائے پھر تم اور سب بال بچے اس کو کھائيں اور حرام کھانا کھانے کے وبال ميں سب گرفتار ہوں اور جس جس کو تم کھلاؤ مثلا مياں کو مہمان کو سب کا گناہ تمہارے اوپر پڑے۔
  • سود کے بارے میں چند جدید اشکالات کا جواب۔
    • اگرمعاملے کی نوعیت ایسی ہے کہ آپ نے کسی کو ایک چیز 'استعمال' کے لیے دی اور لینے والے نے وہ چیز استعمال کرنے کے بعد بعینہ واپس کر دی تو اس پہ آپ اگر متعین اجرت وصول کریں گے تو یہ کرایہ ہوگا۔ نہ کہ ربا۔ ربا اس صورت میں ہوگا جب کہ لی جانے والی چیز استعمال کے دوران میںبالکل صرف ہو جائے اور باقی نہ بچے ۔
    • قرآن مجید نے جب ربا کو ممنوع قرار دیا تو اسوقت اس کے لیے کوئی نئی اصطلاح وضع نہیں کی بلکہ معاشرے میں رائج اصطلاح کو ہی استعمال کیا اور ظاہر ہے کہ اس اصطلاح کا وہاں ایک خاص مطلب تھا۔ بالکل اسی طرح جیسے کہ قرآن نے شراب اور جوئے کے لیے خمر اور میسر کی اصطلاحیں استعمال کی تو وہ بھی وہی تھیں جو وہاں رائج تھیں۔ اس ماحول کا ہر شخص جس طرح خمر اور میسر کی اصطلاح کا مطلب سمجھ رہا تھا اسی طرح ربا کا مطلب بھی ان پر غیر واضح نہ تھا۔ قرآن نے جب جوئے اور شراب کو ممنوع قرار دیا توصرف اتنا کہا کہ یہ اب سے ممنوع ہیں اور انہیں ممنوع قرار دیتے ہوئے قرآن نے یہ وضاحت بالکل نہیں کی کہ جوئے کا مطلب یہ ہوتا ہے اور خمر کا یہ۔ کیونکہ یہ بات بالکل واضح تھی کہ یہ کیا ہوتی ہیں۔ یہی معاملہ ربا کا تھا قرآن کی براہ راست مخاطبین اس کے مفہوم کو بخوبی سمجھ رہے تھے۔ جب کوئی لفظ مروجہ مفہوم سے ہٹ کر ایک نئے مطلب میں استعمال کیا جاتا ہے تو عبارت کے سیاق و سباق سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ یہاں ایک نئے مطلب میں استعمال ہو رہا ہے۔
    • لفظ کے معنی کے تعین میں یہ بات بنیادی اہمیت کی حامل ہے کہ اہل زبان اس کو کس مفہوم میں بولتے ہیں اور اگر کسی کا یہ دعوی ہو کہ اس کامطلب اور ہے تو پھر بار ثبوت اس کے ذمے ہے۔ مثلا اگر کوئی یہ کہے کہ قرآن نے خمر کا لفظ ایک خاص قسم کی شراب کے لیے استعمال کیا ہے یا اس شراب کے لیے جو بہت زیادہ پی جائے تو پھر یہ بات اس کو ثابت کرنا ہوگی کیونکہ اہل زبان تو اس کو اسی مفہوم میں نہیں سمجھ رہے ہوتے۔اسی طرح ربا کا لفظ قرآن کی ایک نئی اصطلاح نہیں ہے بلکہ اسی مفہوم میں استعمال کیا گیا ہے جو عربوں میں رائج تھا۔اور عرب میں یہ لفظ اسی مفہوم میں مستعمل تھا جیسا کہ پیچھے وضاحت ہو چکی ہے مزید برآں یہ اضافے کے مطلب میں بھی استعمال ہو رہا تھا۔ قرآن نے ان مفاہیم کے اندر کوئی نئے معنی پیدا نہیں کیے بلکہ انہیں اسی طرح استعمال کیا۔ یہ واضح ہے کہ جب قرآن ربا کا لفظ استعمال کرتا ہے تو وہ اس کو قرض پہ ایک متعین اضافے کے لیے ہی استعمال کرتا ہے اگر وہ اس کو محض اضافے کے مفہوم میں لے رہا ہوتا تو پھر اس کا اطلاق ہر اضافے پر ہوتاجبکہ منافع بھی ایک اضافہ ہی ہے۔ لیکن وہ جائز ہے۔
    • بعض علما نے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ قرآن نے ربا کا لفظ صرف استحصالی سود کے لیے استعمال کیا ہے یعنی جس میں دوسروں کی مجبوریوں کا ناجائز استعمال کیا جائے۔ ان کے خیال میں اگر کسی تجارتی مقصد کے لیے فریقین میں باہمی اتفاق سے یہ طے ہو جائے کہ یہ شرح اضافہ ادا کی جائے گی تو وہ ناجائز نہیں ہے۔ اور بنکوں کا شرح سود اسی قسم کا ہوتا ہے کیونکہ اس میں دونوں فریق تجارتی مقاصد کے لیے ایک خاص معاہدہ کرتے ہیں اور پہلے سے ایک خاص اضافہ طے کرلیتے ہیں ۔ اس لیے یہ ربا نہیں ہے ۔ اس کا تفصیلی جواب اگلے سوال کے ضمن میں دیا گیا ہے۔
    • بعض حضرات سنت سے کوئی اور مفہوم ثابت کرنا چاہتے ہیں۔ اصل میں سنت کا تعلق تمام تر عملی چیزوں سے ہوتا ہے عقیدے اور عقائد قسم کی چیزیں سنت کے دائرہ کار میں نہیں آتیں اسی طرح تعریفات بھی اس کے دائرے کی چیز نہیں ہے۔نبی نے خمر ، میسر کی طرح ربا کی بھی کوئی تعریف نہیں کی بلکہ اس کے بعض اطلاقات بیان کیے ہیں۔یہ اطلاقات اس کی تعریف نہیں ہیں۔ مثلا نبی نے سود کے بارے میں خبردار کیا ہے اور کہا ہے کہہ اجناس میں بھی سود کے امکانات سے بچو۔ تو اس سے ایک مختلف نتیجہ اخذ کرنا زبان دانی کے ساتھ ظلم ہوگا۔
    • کچھ لوگوں کی خیال میں صرف استحصالی سود منع ہے اور اگر باہمی رضا مند ی سے سود کا تعین ہو جائے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے اور کہتے ہیں کہ عام طو ر پر لوگ تجارتی مقاصد کے لیے قرض لیتے ہیں جبکہ استحصال کا عنصر عموماً نجی قرضوں میں پایا جاتا ہے
      آیت مبارکہ میں ہے۔ اے ایمان والوسود نہ کھاؤ دگنا چوگنا بڑھتاہوا (130:3(
      اس آیت سے یہ استنباط درست نہیں ہے کہ صرف استحصالی سود ہی منع ہے- آیت میں زبان کا جو اسلوب اختیار کیا گیا ہے وہ سود کی شناعت کو مزید واضح کرنے کیلئے ہے نہ کہ اس کی اجازت کے لیے- اس کو اس مثال سے سمجھیں کہ اگرکوئی یہ کہے کہ خدا کے لیے اپنی بیوی کے سامنے تو دوسری عورتوں سے چھیڑ خانی سے باز رہا کرو تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ بیوی کی عدم موجودگی میں یہ چھیڑ خانی کرلیا کرو- اب قرآن کریم کی ایک مثال سے اس کو سمجھیے
      اور اپنی لونڈیوں کو پیشہ پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ عفت کی زندگی کی خواہاں ہوں محض اس لیے کہ کچھ متاع دنیا تمہیں حاصل ہو جائے (24-33)
      اب ظاہر ہے کہ اس آیت کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ اگر لونڈیاں رضامندی سے پیشہ کریں تو ان کو اجازت ہے - یہ اسلوب تو ان لوگوں کے اس فعل کی شناخت کو واضح کیلئے ہے جو لونڈیوں کو اس قبیح کام پر مجبور کرتے تھے جبکہ وہ عفت کی زندگی گزارنا چاہتی تھیں-قرآن نے ربا یا سود کے معنی واضح نہیں کیے اور اس کو اس کی ضرورت بھی نہ تھی- جو لوگ قرآن کی عربی سے آشنا تھے وہ پہلے ہی سے اس سے آگاہ تھے- اسی طرح قرآن نے خمر کے معنی بھی واضح نہیں کیے کیونکہ یہ بھی لوگوں کو پہلے ہی سے معلوم تھے- قرآن نے تو صرف ان دونوں کی ممانعت کر دی- قرآنی عربی میں ربا اس مقررہ رقم (اصل زر کے علاوہ) کو کہتے ہیں جس کامطالبہ ایک قرض دینے والا معینہ مدت کے بعد مقروض سے کرتا ہے- مزید براں قرآن سے یہ بھی واضح ہے کہ اس زمانے میں بھی لوگ تجارتی مقاصد کے لیے قرض دیا کرتے تھے- کیونکہ تجارتی مقاصد کے لیے دیے گئے قرض میں ہی مال پروان چڑھتا ہے
  • سود قرآن اور حدیث کی روشنی میں
    • الَّذِينَ يَأْكُلُونَ الرِّبَا لَا يَقُومُونَ إِلَّا كَمَا يَقُومُ الَّذِي يَتَخَبَّطُهُ الشَّيْطَانُ مِنَ الْمَسِّ ۚ ذَ‌الِكَ بِأَنَّهُمْ قَالُوا إِنَّمَا الْبَيْعُ مِثْلُ الرِّبَا ۗ وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا ۚ فَمَن جَاءَهُ مَوْعِظۃمِّن رَّبِّهِ فَانتَهَىٰ فَلَهُ مَا سَلَفَ وَأَمْرُهُ إِلَى اللَّهِ ۖ وَمَنْ عَادَ فَأُولَـاولئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ ۖ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ۔
      جو لوگ سود کھاتے ہیں قیامت کے دن وہ نہیں اٹھیں گے مگر جس طرح کہ وہ شخص اٹھتا ہے جس کے حواس جن نے لپٹ کر کھو دیئے ہیں یہ حالت ان کی اس لیے ہوگی کہ انہوں نے کہا تھا کہ سوداگری بھی تو ایسی ہی ہے جیسےسود لینا حالانکہ اللہ نے سوداگری کو حلال کیا ہے اور سود کو حرام کیا ہے پھر جسے اپنے رب کی طرف سے نصیحت پہنچی اوروہ باز آ گیا تو جو پہلے لے چکا ہے وہ اسی کا رہا اور اس کا معاملہ الله کے حوالہ ہے اور جو کوئی پھر سود لے وہی لوگ دوزخ والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے
      — القرآن سورۃ البقرہ:275
      یا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ
      اے ایمان والو سود دونے پر دونا نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ تمہارا چھٹکارا ہو
      — القرآن سورۃ آل عمران:130