Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

قرض کا لین دین

  • بلا ضرورت قرض کى مذمت
    • حديث 1


      حضرت ابو سعيد خدرى رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ ميں نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم کو يوں فرماتے ہوئے سنا: ’’ اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الْکُفْرِوَالدَّيْنِ۔ قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُوْلَ اللّٰهِ اَتَعْدِلُ الدَّيْنَ بِالْكُفْرِ فَقَالَ رَسُولُ اللّٰهِ صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ‘‘ ترجمہ :ميں خدا کى پناہ چاہتا ہوں کفر اور دين يعنى قرض سے۔ ايک شخص نے کہا يا رسول اللہ کيا آپ قرض کو کفر کے برابر کرتے اور اس کے ساتھ ذکر کرتے ہيں فرمايا ہاں۔ رَوَاہُ النَّسَائِىُّ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ صَحِیْحُ الْاِسْنَادِ۔
    • حديث 2


      عبداللہ بن عمر رضى اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے قرض خدا کا جھنڈا ہے زمين ميں جب وہ کسى بندے کو ذليل کرنا چاہتے ہيں اس کى گردن پر قرض کا بوجھ رکھ ديتے ہيں۔ رَوَاہُ الْحَاکِمُ وَقَالَ صَحِیْحٌ عَلٰي شَرْطِ مُسْلِمٍ قَالَ الْحَافِظُ بَلْ فِیْہِ بِشْرُ بْنُ عُبَیْدٍ الدَّارِسِيُّ ۔
    • حديث 3


      عبداللہ بن عمر رضى اللہ عنہ سے مروى ہے وہ فرماتے ہيں کہ ميں نے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم سے سنا کہ آپ ايک شخص کو اس طرح وصيت فرما رہے تھے کہ گناہ کم کيا کرو تم پر موت آسان ہو جائے گى اور قرض کم ليا کرو آزاد ہو کر جيو گے۔ رَوَاہُ الْبَیْہَقِيُّ۔
    • حديث 4


      ابوہریرہ رضى اللہ عنہ سے روايت ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے جو شخص لوگوں کا مال ادا کرنے کى نيت سے لے حق تعالى اس کا قرض ادا کر ديتے ہيں اور جو شخص لوگوں کا مال ضائع کرنے اور مار لينے کى نيت سے لے خدا تعالى اس کو تباہ کر ديتے ہيں۔ اس کو بخارى و ابن ماجہ وغيرہ نے روايت کيا ہے۔
    • حديث 5


      حضرت ام المومنين عائشہ رضى اللہ عنہا سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا ہے کہ ميرى امت ميں سے جو شخص قرض کے بار ميں لد جائے پھر اس کے ادا کرنے ميں پورى کوشش کرے پھر ادا کرنے سے پہلے مر جائے تو ميں اس کا مدد گار ہوں۔ رَوَاہُ اَحْمَدُ بِاِسْنَادٍ جَیِّدٍ وَاَبُوْیَعْلٰي وَالْطَّبْرَانِيُّ فِي الْاَوْسَطِ۔
    • حديث 6


      ميمون کردىؒ اپنے باپ سے روايت کرتے ہيں جو صحابىہيں کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا جس نے کسى عورت سے قليل يا کثير مقدار مہر پر نکاح کيا اور اس کے دل ميں عورت کا حق مہر ادا کرنے کى نيت نہيں بلکہ محض دھوکا ديا۔ پھر بدون ادا کيے ہى مر بھى گيا تو وہ قيامت کے دن زنا کار بن کر خدا کے سامنے جائے گا اور جس شخص نے کسى سے قرض ليا اور اس کے دل ميں قرض ادا کرنے کى نيت نہيں بلکہ محض دھوکہ سے اس کا مال لے ليا پھر بدون ادا کيے ہى مر بھى گيا تو وہ خدا تعالى کے سامنے چور بن کر جائے گا۔ رَوَاہُ الْطَّبْرَانِىُّ فِى الصَّغِیْرِ وَالْاَ وْسَطِ وَرَوَاہُ ثِقَاۃٌ۔
    • حديث 7


      عمر بن شريد اپنے باپ سے جو صحابى ہيں روايت کرتے ہيں کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا کہ ہوت والے کا ٹالنا اس کى آبرو اور مال کو حلال کر ديتا ہے۔ رَوَاہُ ابْنُ حِبَّانٍ فِىْ صَحِيْحِہٖ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ صَحِيْحُ الْاِسْنَادِ۔
      ف يعنى جو شخص قرض ادا کرنے پر قادر ہو اور پھر بھى ادا نہ کرے تو قرض خواہ اس کى آبرو ريزى کر سکتا اور برا بھلا کہہ سکتا اور لوگوں ميں اس کى بدمعاملگى مشتہر کر سکتا ہے جس طريقہ سے ممکن ہو ظاہرا يا چھپ کر اپنا حق اس سے وصول کر سکتا ہے۔
    • حديث 8


      ابوذر رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا حق تعالى تين شخصوں سے بہت نفرت کرتے ہيں۔ ايک بڈھا زنا کار۔ دوسرے مفلس تکبر کرنے والا۔ تيسرے مال دار ظالم جو قرض خواہوں پر ٹال مٹول کر کے ظلم کرتا ہے ۔ رَوَاہُ ابْنُ خُزَيْمَۃَ فِىْ صَحِیْحِہٖ وَ اَبُوْدَاؤُدَ وَالْنَّسَائِىُّ وَالتِّرْمِذِىُّ وَابْنُ حِبَّانٍ وَالْحَاکِمُ وَصَحَّحَاہُ۔
    • دعا ادائے قرض

      حديث 9


      حضرت على رضى اللہ عنہ کے پاس ايک مکاتب آيا اور کہنے لگا کہ ميں کتابت کى رقم ادا کر نے سے عاجز ہو گيا ہوں ميرى امداد کيجيے۔ فرمايا کہ ميں تجھ کو چند کلمات کى دعا نہ بتلا دوں جو مجھے رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے بتلائى ہے۔ اگر تيرے اوپر کوہ ثبير کے برابر بھى قرض ہوگا تو حق تعالى ادا کر ديں گے يوں کہا کر ’’اَللّٰهُمَّ اكْفِنِي بِحَلاَلِكَ عَنْ حَرَامِكَ، وَأَغْنِنِي بِفَضْلِكَ عَمَّنْ سِوَاكَ" رَوَاہُ التِّرْمِذِىُّ وَاللَّفْظُ لَہٗ وَقَالَ حَسَنٌ غَرِيْبٌ وَالْحَاکِمُ وَقَالَ صَحِیْحُ الْاِسْنَادِ۔ ‘‘
    • حديث 10


      انس بن مالک رضى اللہ عنہ سے مروى ہے کہ رسول اللہ صلى اللہ عليہ وسلم نے معاذ بن جبل سے فرمايا کہ ميں تم کو ايسى دعا نہ بتلاؤں کہ اگر تمہارے اوپر پہاڑ کے برابر قرض ہو تو اس کو بھى حق تعالى ادا کر ديں گے يوں کہا کرو۔ ’’اَللّٰهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ، تُؤْتِي الْمُلْكَ مَنْ تَشَآءُ ، وَتَنْزِعُ الْمُلْكَ مِمَّنْ تَشَآءُ، وَتُعِزُّ مَنْ تَشَآءُ،وَتُذِلُّ مَنْ تَشَآءُ، بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ، رَحْمَانُ الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ، تُعْطِيْهُمَا مَنْ تَشَآءُ، وَتَمْنَعُ مِنْهُمَا مَنْ تَشَاءُ، اِرْحَمْنِي رَحْمَةً تُغْنِيْنِي بِهَا عَنْ رَّحْمَةِ مَنْ سِوَاكَ»رَوَاہُ الطَّبْرَانِىُّ فِى الْصَّغِیْرِ بِاِسْنَادٍ جَیِّدٍ.‘‘
  • قرض لينا
    • مسئلہ۔

      جو چيز ايسى ہو کہ اس طرح کى چيز تم واپس دے سکتے ہو اس کا قرض لينا درست ہے۔ جيسے اناج انڈے گوشت وغيرہ اور جو چيز ايسى ہو کہ اسى طرح کى چيز دينا مشکل ہے تو اس کا قرض لينا درست نہيں جيسے امرود نارنگى بکرى مرغى وغيرہ۔
    • مسئلہ۔

      جس زمانے ميں۱۰۰۰ روپے من کوئى چیز ملتی تھی اس وقت تم نے پانچ من گيہوں قرض ليے پھر گيہوں سستے ہو گئے اور۸۰۰ّ روپے من ملنے لگے تو تم کو وہى پانچ من گيہوں دينا پڑيں گے۔ اسى طرح اگر گراں ہو گئے تب بھى جتنے ليے ہيں اتنے ہى دينا پڑيں گے۔
    • مسئلہ۔

      جيسے گيہوں تم نے ديئے تھے اس نے اس سے اچھے گيہوں ادا کيے تو اس کا لينا جائز ہے يہ سود نہيں مگر قرض لينے کے وقت يہ کہنا درست نہيں کہ ہم اس سے اچھے ليں گے البتہ وزن ميں زيادہ نہ ہونا چاہيے۔ اگر تم نے ديئے ہوئے گيہوں سے زيادہ ليے تو يہ ناجائز ہو گيا۔ خوب ٹھيک تول کر لينا دينا چاہيے ليکن اگر تھوڑا جھکتا تول ديا تو کچھ ڈر نہيں۔
    • مسئلہ۔

      کسى سے کچھ روپيہ يا غلہ اس وعدہ پر قرض ليا کہ ايک مہينہ يا پندرہ دن کے بعد ہم ادا کر ديں گے اور اس نے منظور کر ليا تب بھى يہ مدت کا بيان کرنا لغو بلکہ ناجائز ہے۔ اگر اس کو مدت سے پہلے ضرورت پڑے اور تم سے مانگے يا بے ضرورت ہى مانگے تو تم کو ابھى دينا پڑے گا۔
    • مسئلہ۔

      تم نے دو سير گيہوں يا آٹا وغيرہ کچھ قرض ليا جب اس نے مانگا تو تم نے کہا بھائى اس وقت گيہوں تو نہيں ہيں اس کے بدلے تم اتنے پيسے لے لو اس نے کہا اچھا۔ تو يہ پيسے اسى وقت سامنے رہتے رہتے دے دينا چاہيے۔ اگر پيسے نکالنے اندر گیا اور اس کے پاس سے الگ ہو گیا تو وہ معاملہ باطل ہو گيا۔ اب پھر سے کہنا چاہيے کہ تم اس ادھار گيہوں کے بدلے اتنے پیسے لے لو۔
    • مسئلہ۔

      کچھ روپے قرض ليے پھر پيسے کی قیمت گرگئى تو اتنے ہی روپے دینے چاہیئے جتنے قرض لیئے تھے قرض دینے واٖ لازیادہ کا مطالبہ نہیں کرسکتا۔
    • مسئلہ۔

      گھروں ميں دستور ہے کہ دوسرے گھر سے اس وقت دس پانچ روٹى قرض منگالى۔ پھر جب اپنے گھر پک گئى گن کر بھيج دى يہ درست ہے۔
  • سودا ادھار لینا
    • مسئلہ۔

      کسى نے اگر کوئى سودا ادھار خريدا تو يہ بھى درست ہے ليکن اتنى بات ضرورى ہے کہ کچھ مدت مقرر کر کے کہہ دے کہ پندرہ دن ميں يا مہينے بھر ميں يا چار مہينے ميں تمہارے دام دے دوں گا اگر کچھ مدت مقرر نہيں کى مطلقاً اتنا کہہ ديا کہ ابھى دام نہيں ہيں پھر دے دوں گا۔ سو اگر يوں کہا ہے کہ ميں اس شرط سے خريدتا ہوں کہ دام پھر دوں گا تو بيع فاسد ہو گئى اور اگر خريدنے کے اندر يہ شرط نہيں لگائى خريد کر کہہ ديا کہ دام پھر دوں گا تو کچھ ڈر نہيں اور اگر نہ خريدنے کے اندر کچھ کہا نہ خريد کر کچھ کہا تب بھى بيع درست ہو گئى۔ اور ان دونوں صورتوں ميں اس چيز کے دام ابھى دينا پڑيں گے۔ ہاں اگر بيچنے والا کچھ دن کى مہلت ديدے تو اور بات ہے ليکن اگر مہلت نہ دے اور ابھى دام مانگے تو دينا پڑيں گے۔
    • مسئلہ۔

      کسى نے خريدتے وقت يوں کہا کہ فلانى چيز ہم کو دے دو جب خرچ آئے گا تب دام لے لينا يا يوں کہا جب ميرا بھائى آئے گا تب دے دوں گا يا يوں کہا جب کھيتى کٹے گى تب دے دوں گا يا اس نے اس طرح کہا بھائی تم لے لو جب جى چاہے دام دے دينا يہ بيع فاسد ہو گئى بلکہ کچھ نہ کچھ مدت مقرر کر کے لينا چاہيے اور اگر خريد کر ايسى بات کہہ دى تو بيع ہو گئى اور سودے والے کو اختيار ہے کہ ابھى دام مانگ لے ليکن صرف کھيتى کٹنے کے مسئلہ ميں کہ اس صورت ميں کھيتى کٹنے سے پہلے نہيں مانگ سکتا۔
    • مسئلہ۔

      نقد داموں پر۱۰۰۰روپے من کوئى چیز بکتی ہے مگر کسى کو ادھار لينے کى وجہ سے اس نے ۱۵۰۰ روپے من بیچا تو يہ بيع درست ہے مگر اسى وقت معلوم ہو جانا چاہيے کہ ادھارمول لے گا۔
    • مسئلہ۔

      يہ حکم اس وقت ہے جبکہ خريدار سے اول پوچھ ليا ہو کہ نقد لو گے يا ادھار۔ اگر اس نے نقد کہا تو ۱۰۰۰ روپے طلب کیۓ اور اگر ادھار کہا تو پندرہ سو۔ اور اگر معاملہ اس طرح کيا کہ خريدار سے يوں کہا کہ اگر نقد لو گے تو ۱۰۰۰ روپے من اور ادھار لو گے تو پندرہ سو روپے من تويہ جائز نہيں۔
    • مسئلہ۔

      ايک مہينے کے وعدے پر کوئى چيز خريدى پھر ايک مہينہ ہو چکا۔ تب کہہ سن کر کچھ اور مدت بڑھوالى کہ پندرہ دن کى مہلت اور دے دے تو تمہارے دام ادا کر دوںگا۔ اور وہ بيچنے والا بھى اس پر رضا مند ہو گىا تو پندرہ دن کى مہلت اور مل گئى اور اگر وہ راضى نہ ہو تو ابھى مانگ سکتا ہے۔
    • مسئلہ۔

      جب اپنے پاس دام موجود ہوں تو ناحق کسى کو ٹالنا کہ آج نہيں کل آنا۔ اس وقت نہيں اس وقت آنا ابھى روپيہ توڑوايا نہيں ہے جب توڑوايا جائے گا تب دام مليں گے يہ سب باتيں حرام ہيں جب وہ مانگے اسى وقت روپيہ توڑ کر دام دے دينا چاہيے۔ ہاں البتہ اگر ادھار خريدا ہے تو جتنے دن کے وعدے پر خريدا ہے اتنے دن کے بعد دينا واجب ہوگا اب وعدہ پورا ہونے کے بعد ٹالنا اور دوڑانا جائز نہيں ہے ليکن اگر سچ مچ اس کے پاس ہيں ہى نہيں۔ نہ کہيں سے بندوبست کر سکتا ہے تو مجبورى ہے جب آئے اس وقت نہ ٹالے۔
  • اپنے قرضے کی ادائیگی دوسرے کے ذمہ ڈالنا
    • مسئلہ۔

      شفيع کا تمہارے ذمہ کچھ قرض ہے اور راشد تمہارا قرض دار ہے۔ شفيع نے تم سے تقاضا کيا تم نے کہا کہ راشد ہمارا قرض دار ہے تم اپنا قرضہ اسى سے لے لو۔ ہم سے نہ مانگو۔ اگر اسى وقت شفيع يہ بات منظور کر لے اور راشد بھى اس پر راضى ہو جائے تو شفيع کا قرضہ تمہارے ذمہ سے اتر گيا۔ اب شفيع تم سے بالکل تقاضا نہيں کر سکتا بلکہ اسے راشد سے مانگنا چاہیۓ۔ جب ملے اور جتنا قرضہ تم نے شفيع کو دلايا ہے اتنا اب تم راشد سے نہيں لے سکتے۔ البتہ اگر راشد اس سے زيادہ کا قرض دار ہے تو جو کچھ زيادہ ہے وہ لے سکتے ہو۔ پھر اگر راشدنے شفيع کو دے ديا تب تو خير اور اگر نہ ديا اور مر گیا تو جو کچھ مال و اسباب چھوڑا ہے وہ بيچ کر شفيع کو دلا ديں گے اور اگر اس نے کچھ مال نہيں چھوڑا جس سے قرضہ دلائيں يا اپنى زندگى ہى ميں مکر گیا اور قسم کھا لى کہ تمہارے قرض سے مجھ سے کچھ واسطہ نہيں اور گواہ بھى نہيں ہيں تو اب اس صورت ميں پھر شفيع تم سے تقاضا کر سکتاہے اور اپنا قرضہ تم سے لے سکتا ہے اور اگر تمہارے کہنے پر شفیع راشد سے لينا منظور نہ کرے يا راشد اس کو دينے پر راضى نہ ہو تو قرضہ تم سے نہيں اترا۔
    • مسئلہ۔

      راشدتمہارا قرض دار نہ تھا تم نے يوں ہى اپنا قرضہ اس پر اتار ديا اور راشد نے مان ليا اور شفيع نے بھى قبول و منظور کر ليا تب بھى تمہارے ذمہ سے شفيع کا قرض اتر کر راشدکے ذمہ ہو گيا اس ليے اس کا بھى وہى حکم ہے جو ابھى بيان ہوا اور جتنا روپيہ راشد کو دينا پڑے گا دينے کے بعد تم سے لے ليوے اور دينے سے پہلے ہى لے لينا کا حق نہيں ہے۔
    • مسئلہ۔

      اگر راشدکے پاس تمہارے روپے امانت رکھے تھے اس ليے تم نے اپنا قرض راشد پر اتار ديا پھر وہ روپے کسى طرح ضائع ہو گئے تو اب راشد ذمہ دار نہيں رہا بلکہ اب شفيع تم ہى سے تقاضا کرے گا اور تم ہى سے لے گا۔ اب راشد سے مانگنے اور لينے کا حق نہيں رہا۔
    • مسئلہ۔

      راشدپر قرضہ اتار دينے کے بعد اگر تم ہى وہ قرضہ ادا کر دو اور شفيع کو دے دو يہ بھى صحيح ہے۔ شفیع يہ نہيں کہہ سکتا کہ ميں تم سے نہ لوں گا بلکہ راشدہى سے لوں گا۔