Fiqh - فقہ - اسلامی فقہ - Tazkia.org - Urdu

حج

  • فرائض حج
    • احرام ،یہ شرط ہے۔
    • وقوفِ عرفہ
      • وقوف کا عرفات میں ہونا
      • وقوفِ عرفات کا نویں ذالحجہ کے آفتاب ڈھلنے سے دسویں کے صبحِ صادق سے پیشتر تک کسی وقت میں ہو جانا
      • وقوف سے پہلے جماع سے بچنا
    • طوافِ زیارت
      • طواف زیارت کا اکثر حصہ یعنی چار پھیرے فرض ہیں۔
      • ان چاروں پھیروں میں طواف کی نیت
      • طواف کا مسجد الحرام میں ہونا
      • طواف زیارت کا وقوف عرفات کے بعد کرنا اور بوقت وقوف محرم ہونا۔ ن دس میں سے ایک بھی رہ جائے تو حج نہ ہوگا۔ (درمختار ، ردالمحتار وغیرہ)
  • حج کے واجبات
    • میقات سے احرام باندھنا
    • صفا مروہ کے درمیان دوڑنا اس کو سعی کہتے ہیں
    • سعی کو ہ صفا سے شرو ع کرنا
    • اگر عذر نہ ہو تو پیدل سعی کرنا
    • سعی کا کم از کم طواف کے چار پھیروں کے بعد ہونا
    • دن میں وقوفِ عرفہ کرنے والے کو آفتاب کے بعد تک انتظار کرنا
    • وقوف میں رات کا کچھ جزو آجانا
    • عرفات سے واپسی پر امام کے ساتھ کوچ کرنا
    • مزدلفہ میں ٹھہرنا
    • مغرب و عشاء کی نماز کا وقتِ عشا ء میں مزدلفہ میں آکر پڑھنا
    • دسویں ذی الحجہ کو صرف جمرۃ العقبہ پر اور گیارھویں کو تینوں جمروں پر رمی کرنا
    • جمرۃ العقبہ کی رمی پہلے دن ، حلق سے پہلے ہونا
    • ہر روز کی رمی کا اسی دن ہونا
    • حلق(سر منڈانا) تقصیر(بال کترانا)
    • حلق یا تقصیر کا ایامِ نحر میں
    • خاص زمینِ حرم میں ہونا
    • قران اور تمتع والے کو قربانی کرنا
    • اس قربانی کا حرم
    • ایامِ نحر میں ہونا، حلق سے پہلے اور رمی کے بعد
    • طوافِ افاضہ یعنی طوافِ زیارت کا اکثر حصہ ایامِ نحر میں ہونا
    • طواف کا حطیم کے باہر ہونا
    • دا ہنی طرف سے طواف کرنا
    • عذر نہ ہو تو پاپیا دہ (پاؤں سے چل کر) طواف کرنا
    • طواف کرنے میں نجاستِ حکمیہ سے پاک ہونا یعنی جنب اور بے وضو نہ ہونا
    • طواف کرتے وقت سترِ عورت کرنا
    • طواف کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا
    • رمی جمار، ذبح اور حلق اور طواف میں ترتیب ہونا
    • طوافِ صدر یعنی میقات سے باہر رہنے والوں کے لیے رخصت کا طواف کرنا
    • وقوفِ عرفہ کے بعد سر منڈانے تک جماع نہ ہونا
    • احرام کے ممنوعات مثلاً سلا ہوا کپڑا پہننے یا منہ اور سر چھپانے سے بچنا
    • احرام کے ممنوعات مثلاً سلا ہوا کپڑا پہننے یا منہ اور سر چھپانے سے بچنا (درمختار، ردالمحتار وغیرہ
  • سنن حج
    • طوافِ قدوم
    • طواف کا حجرِ اسود سے شروع کرنا
    • طوافِ قدوم یا طوافِ فرض میں رمل کرنا
    • صفا مروہ کے درمیان جو دو میل اخضر ہیں ان کے درمیان دوڑنا
    • امام کا مکہ میں ساتویں کو
    • عرفات میں نویں کو
    • منیٰ میں گیارہویں کو خطبہ پڑھنا
    • آٹھویں کی فجر کے بعد مکہّ سے روانہ ہونا کہ منیٰ میں پانچ نمازیں پڑ لی جائیں
    • نویں رات منیٰ میں گزرنا
    • آفتاب نکلنے کے بعد منیٰ سے عرفات روانہ ہونا
    • وقوفِ عرفہ کے لیے غسل کرنا
    • عرفات سے واپسی میں مزدلفہ میں رات کو رہنا
    • آفتاب نکلنے سے پہلے یہاں سے منیٰ کو چلے جانا
    • دس اور گیارہ کے بعد جو دونوں راتیں ہیں ان کو منیٰ میں گزارنا
    • ابطح یعنی وادیٔ محصب میں اترنا یعنی منیٰ سے مکہّ معظمہ کو جاتے ہوئے اگرچہ تھوڑی دیر کے لیے ہو یہاں رکنا وغیر ذالک)
  • حج فرض ہونے کے شرائط

      آٹھ شرطیں ہیں جب تک وہ سب نہ پائی جائیں حج فرض نہ ہوگا

    • مسلمان ہونا
    • دارالحرب میں ہو تو اسے یہ معلوم ہونا کہ اسلام کے فرائض میں حج ہے
    • بالغ ہونا، نابالغ نے حج کیا تو وہ حجِ نفل ہوا یہ حج، حجِ فرض کے قائم مقام نہیں ہو سکتا
    • عاقل ہونا مجنون پر حج فرض نہیں۔
    • آزاد ہونا، یا باندی غلام پر حج فرض نہیں
    • تندرست ہونا کہ اعضاء سلامت ہوں، انکھیارا ہو، اپاہج اور فالج والے اور بوڑھے پر جو کہ سواری پر خود نہ بیٹھ سکتا ہو حج فرض نہیں
    • سفر خرچ کا مالک اور سواری پر قادر ہونا یعنی اس کے پاس سواری نہ ہو تو اتنا مال ہو نا کہ کرایہ پر لے سکے۔
    • حج کے مہنیوں میں تمام شرائط کا پایا جانا
  • وجوب ادا کی شرائط (وہ شرائط کہ جب پائی جائیں تو خود حج کو جانا ضروری ہے)

      مندرجہ ذیل شرطیں اگر سب نہ پائی جائیں تو پھرخودجانا فرض نہیں ہوتا بلکہ دوسرے سے حج کر اسکتا ہے یا وصیت کر جائے

    • راستہ میں امن ہونا
    • عورت کو مکہّ تک جانے میں تین دن یا زیادہ کا راستہ ہو (یعنی پاپیادہ مطابق معمول ) تو اس کے ہمراہ شوہر یا محرم کا ہونا خواہ وہ عورت جوان ہو یا بڑھیا اور محرم سے مراد وہ مرد ہے جس سے ہمیشہ کے لیے اس عورت کا نکاح حرام ہے مثلاً بیٹا، بھائی، سُسر ، داماد وغیرہ۔
    • جانے کے زمانہ میں عورت عدت میں نہ ہو
    • قید میں نہ ہو مگر کسی حق کی وجہ سے قید میں ہو اس کے ادا کرنے پر قادر ہو تو یہ عذر نہیں اور بادشاہ اگر حج کے جانے سے روکتا ہے۔ تو یہ عذر ہے۔ (درمختار وغیرہ)
    • صحتِ ادا کے لیے شرطیں

        صحتِ ادا کے لیے نو شرطیں ہیں : اگر وہ نہ پائی جائیں تو خودحج نہیں

      • اسلام
      • احرام
      • زمانۂ حج
      • مکان، طواف کی جگہ مسجد الحرام شریف ہے ، وقوف کے لیے عرفات و مزدلفہ کے لیے منیٰ ، قربانی کے لیے حرم یعنی جس فعل کے لیے جو جگہ مقرر ہے وہ وہیں ہوگا
      • تمیز
      • عقل ، جس میں تمیز نہ ہو جیسے نا سمجھ بچہ یا جس میں عقل نہ ہو۔ جیسے مجنون، یہ خود وہ افعال نہیں کر سکتے جن میں نیت کی ضرورت ہے مثلاً احرام یا طواف بلکہ ان کی طرف سے کوئی اور کرے اور جس فعل میں نیت شرط نہیں جیسے وقوفِ عرفہ وہ یہ خود کر سکتے ہیں
      • فرائض حج کا بجالانا مگر جبکہ عذر ہو
      • احرام کے بعد اور وقوف سے پہلے جماع نہ ہونا اگر ہوگا، حج باطل ہو جائے گا
      • جس سال احرام باندھا اسی سال حج کرنا
  • حجِ فرض ادا ہونے کے شرائط

      مندرجہ ذیل نو شرطیں اگر پوری ہوں تو کیا ہوا فرض حج ہ ادا ہوجائے گا ورنہ نہیں

    • اسلام
    • مرتے وقت تک اسلام ہی پر رہنا
    • عاقل ہونا
    • بالغ ہونا
    • آزاد ہونا
    • اگر قادر ہو تو خود ادا کرنا
    • نفل کی نیت نہ ہونا
    • دوسرے کی طرف سے حج کرنے کی نیت نہ ہونا
    • فاسد نہ کرنا۔ (ان امور کی تفصیل بڑی کتابوں میں مذکور ہے علماء سے دریافت کریں)
  • حج و عمرہ کی اِصطلاحات
    • اِستلام:
      … حجرِ اَسود کو بوسہ دینا اور ہاتھ سے چھونا یا حجرِ اَسود اور رُکنِ یمانی کو صرف ہاتھ لگانا۔
    • اِضطباع:
      … اِحرام کی چادر کو داہنی بغل کے نیچے سے نکال کر بائیں کندھے پر ڈالنا۔
    • آفاقی:…
      وہ شخص ہے جو میقات کی حدود سے باہر رہتا ہو، جیسے ہندوستانی، پاکستانی، مصری، شامی، عراقی اور ایرانی وغیرہ۔
    • اَیامِ تشریق:…
      ذوالحجہ کی گیارہویں، بارہویں اور تیرہویں تاریخیں ”اَیامِ تشریق“ کہلاتی ہیں۔ کیونکہ ان میں بھی (نویں اور دسویں ذوالحجہ کی طرح) ہر نمازِ فرض کے بعد ”تکبیرِ تشریق“ پڑھی جاتی ہے، یعنی: ”الله اکبر، الله اکبر لا الٰہ الا الله والله اکبر الله اکبر ولله الحمد“۔
    • اَیامِ نحر:…
      دس ذی الحجہ سے بارہویں تک۔
    • اِفراد:…
      صرف حج کا اِحرام باندھنا اور صرف حج کے افعال کرنا۔
    • تسبیح:…
      ”سبحان الله“ کہنا۔
    • تمتع:…
      حج کے مہینوں میں پہلے عمرہ کرنا پھر اسی سال میں حج کا اِحرام باندھ کر حج کرنا۔
    • تلبیہ:…
      لبیک پوری پڑھنا۔
    • تہلیل:…
      ”لا اِلٰہ الا الله“ پڑھنا۔
    • جمرات یا جمار:…
      منیٰ میں تین مقام ہیں جن پر قدِ آدم ستون بنے ہوئے ہیں، یہاں پر کنکریاں ماری جاتی ہیں۔ ان میں سے جو مسجدِ خیف کے قریب مشرق کی طرف ہے اس کو ”جمرة الاُولیٰ“ کہتے ہیں، اور اس کے بعد مکہ مکرّمہ کی طرف بیچ والے کو ”جمرة الوسطیٰ“، اور اس کے بعد والے کو ”جمرة الکبریٰ“ اور ”جمرة العقبہ“ اور ”جمرة الاُخریٰ“ کہتے ہیں۔
    • رَمل:…
      طواف کے پہلے تین پھیروں میں اکڑ کر شانہ ہلاتے ہوئے قریب قریب قدم رکھ کر ذرا تیزی سے چلنا۔
    • رَمی:…
      کنکریاں پھینکنا۔
    • زم زم:…
      مسجدِ حرام میں بیت اللہ کے قریب ایک مشہور چشمہ ہے جو اَب کنویں کی شکل میں ہے، جس کو حق تعالیٰ نے اپنی قدرت سے اپنے نبی حضرت اسماعیل علیہ السلام اور ان کی والدہ کے لئے جاری کیا تھا۔
    • سعی:…
      صفا اور مروہ کے درمیان مخصوص طریق سے سات چکر لگانا۔
    • شوط:…
      ایک چکر بیت اللہ کے چاروں طرف لگانا۔
    • صفا:…
      بیت اللہ کے قریب جنوبی طرف ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس سے سعی شروع کی جاتی ہے۔
    • طواف:…
      بیت اللہ کے چاروں طرف سات چکر مخصوص طریق سے لگانا۔
    • عمرہ:…
      حِلّ یا میقات سے اِحرام باندھ کر بیت اللہ کا طواف اور صفا و مروہ کی سعی کرنا۔
    • عرفات یا عرفہ:…
      مکہ مکرّمہ سے تقریباً ۹ میل مشرق کی طرف ایک میدان ہے جہاں پر حاجی لوگ نویں ذی الحجہ کو ٹھہرتے ہیں۔
    • قران:…
      حج اور عمرہ دونوں کا اِحرام ایک ساتھ باندھ کر پہلے عمرہ کرنا پھر حج کرنا۔
    • قارِن:…
      قران کرنے والا۔
    • قرن:…
      مکہ مکرّمہ سے تقریباً ۴۲ میل پر ایک پہاڑ ہے، نجد، یمن اور نجد حجاز اور نجد تہامہ سے آنے والوں کی میقات ہے۔
    • قصر:…
      بال کتروانا۔
    • محرِم:…
      اِحرام باندھنے والا۔
    • مفرِد:…
      حج کرنے والا، جس نے میقات سے اکیلے حج کا اِحرام باندھا ہو۔
    • میقات:…
      وہ مقام جہاں سے مکہ مکرّمہ جانے والے کے لئے اِحرام باندھنا واجب ہے۔
    • جحفہ:…
      رابغ کے قریب مکہ مکرّمہ سے تین منزل پر ایک مقام ہے، شام سے آنے والوں کی میقات ہے۔
    • جنّت المَعْلٰی:…
      مکہ مکرّمہ کا قبرستان۔
    • جبلِ رَحمت:…
      عرفات میں ایک پہاڑ ہے۔
    • حجرِ اَسود:…
      سیاہ پتھر، یہ جنت کا پتھر ہے، جنت سے آنے کے وقت دُودھ کی مانند سفید تھا، لیکن بنی آدم کے گناہوں نے اس کو سیاہ کردیا۔ یہ بیت اللہ کے مشرقی جنوبی گوشے میں قدِ آدم کے قریب اُونچائی پر بیت اللہ کی دیوار میں گڑا ہوا ہے، اس کے چاروں طرف چاندی کا حلقہ چڑھا ہوا ہے۔
    • حرم:…
      مکہ مکرّمہ کے چاروں طرف کچھ دُور تک زمین ”حرم“ کہلاتی ہے، اس کی حدود پر نشانات لگے ہوئے ہیں، اس میں شکار کھیلنا، درخت کاٹنا، گھاس جانور کو چرانا حرام ہے۔
    • حِلّ:…
      حرم کے چاروں طرف میقات تک جو زمین ہے اس کو ”حل“ کہتے ہیں، کیونکہ اس میں وہ چیزیں حلال ہیں جو حرم کے اندر حرام تھیں۔
    • حلق:…
      سر کے بال منڈانا۔
    • حطیم:…
      بیت اللہ کی شمالی جانب بیت اللہ سے متصل قدِ آدم دیوار سے کچھ حصہ زمین کا گھرا ہوا ہے، اس کو ”حطیم“ اور ”حظیرہ“ بھی کہتے ہیں۔ جنابِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نبوّت ملنے سے ذرا پہلے جب خانہٴ کعبہ کو قریش نے تعمیر کرنا چاہا تو سب نے یہ اتفاق کیا کہ حلال کمائی کا مال اس میں صَرف کیا جائے، لیکن سرمایہ کم تھا اس وجہ سے شمال کی جانب اصل قدیم بیت اللہ میں سے تقریباً چھ گز شرعی جگہ چھوڑ دی، اس چھٹی ہوئی جگہ کو ”حطیم“ کہتے ہیں۔ اصل ”حطیم“ چھ گز شرعی کے قریب ہے، اب کچھ احاطہ زائد بنا ہوا ہے۔
    • دَم:…
      اِحرام کی حالت میں بعضے ممنوع افعال کرنے سے بکری وغیرہ ذبح کرنی واجب ہوتی ہے، اس کو ”دَم“ کہتے ہیں۔
    • ذوالحلیفہ:…
      یہ ایک جگہ کا نام ہے، مدینہ منوّرہ سے تقریباً چھ میل پر واقع ہے، مدینہ منوّرہ کی طرف سے مکہ مکرّمہ آنے والوں کے لئے میقات ہے، اسے آج کل ”بیر علی“ کہتے ہیں۔
    • ذات عرق:…
      ایک مقام کا نام ہے جو آج کل ویران ہوگیا، مکہ مکرّمہ سے تقریباً تین روز کی مسافت پر ہے، عراق سے مکہ مکرّمہ آنے والوں کی میقات ہے۔
    • رُکنِ یمانی:…
      بیت اللہ کے جنوب مغربی گوشے کو کہتے ہیں، چونکہ یہ یمن کی جانب ہے۔
    • مطاف:…
      طواف کرنے کی جگہ جو بیت اللہ کے چاروں طرف ہے اور اس میں سنگِ مرمر لگا ہوا ہے۔
    • مقامِ ابراہیم:…
      جنتی پتھر ہے، حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس پر کھڑے ہوکر بیت اللہ کو بنایا تھا، مطاف کے مشرقی کنارے پر منبر اور زم زم کے درمیان ایک جالی دار قبے میں رکھا ہوا ہے۔
    • ملتزم:…
      حجرِ اَسود اور بیت اللہ کے دروازے کے درمیان کی دیوار جس پر لپٹ کر دُعا مانگنا مسنون ہے۔
    • مسجدِ خیف:…
      منیٰ کی بڑی مسجد کا نام ہے، جو منیٰ کی شمالی جانب میں پہاڑ سے متصل ہے۔
    • مسجدِ نمرہ:…
      عرفات کے کنارے پر ایک مسجد ہے۔
    • مدعی:…
      دُعا مانگنے کی جگہ، مراد اس سے مسجدِ حرام اور مکہ مکرّمہ کے قبرستان کے درمیان ایک جگہ ہے جہاں دُعا مانگنی مکہ مکرّمہ میں داخل ہونے کے وقت مستحب ہے۔
    • مزدلفہ:…
      منیٰ اور عرفات کے درمیان ایک میدان ہے جو منیٰ سے تین میل مشرق کی طرف ہے۔
    • محسّر:…
      مزدلفہ سے ملا ہوا ایک میدان ہے جہاں سے گزرتے ہوئے دوڑ کر نکلتے ہیں، اس جگہ اصحابِ فیل پر جنھوں نے بیت اللہ پر چڑھائی کی تھی عذاب نازل ہوا تھا۔
    • مروہ:…
      بیت اللہ کے شرقی شمالی گوشے کے قریب ایک چھوٹی سی پہاڑی ہے جس پر سعی ختم ہوتی ہے۔
    • میلین اخضرین:…
      صفا اور مروہ کے درمیان مسجدِ حرام کی دیوار میں دو سبز میل لگے ہوئے ہیں، جن کے درمیان سعی کرنے والے دوڑ کر چلتے ہیں۔
    • موقف:…
      ٹھہرنے کی جگہ، حج کے افعال میں اس سے مراد میدانِ عرفات یا مزدلفہ میں ٹھہرنے کی جگہ ہوتی ہے۔
    • میقاتی:…
      میقات کا رہنے والا۔
    • وقوف:…
      کے معنی ٹھہرنا، اور اَحکامِ حج میں اس سے مراد میدانِ عرفات یا مزدلفہ میں خاص وقت میں ٹھہرنا۔
    • ہدی:…
      جو جانور حاجی حرم میں قربانی کرنے کو ساتھ لے جاتا ہے۔
    • یومِ عرفہ:…
      نویں ذوالحجہ، جس روز حج ہوتا ہے اور حاجی لوگ عرفات میں وقوف کرتے ہیں۔
    • یلملم:…
      مکہ مکرّمہ سے جنوب کی طرف دو منزل پر ایک پہاڑ ہے، اس کو آج کل ”سعدیہ“ بھی کہتے ہیں، یہ یمن اور ہندوستان اور پاکستان سے آنے والوں کی میقات ہے۔
  • حج کی قسمیں
    • حجِ قران یہ ہے کہ میقات سے گزرتے وقت حج اور عمرہ دونوں کا اِکٹھا اِحرام باندھا جائے، پہلے عمرہ کے افعال ادا کئے جائیں، پھر حج کے ارکان ادا کئے جائیں، اور ۱۰/ذوالحجہ کو رمی اور قربانی کے بعد دونوں کا اِحرام اِکٹھا کھولا جائے۔
    • حجِ تمتع یہ ہے کہ میقات سے عمرہ کا اِحرام باندھا جائے، اور عمرہ کے افعال ادا کرکے اِحرام کھول دیا جائے، اور آٹھویں تاریخ کو حج کا اِحرام باندھا جائے اور ۱۰/ذوالحجہ کو رمی اور قربانی کے بعد اِحرام کھول دیا جائے۔
    • حجِ اِفراد یہ ہے کہ میقات سے صرف حج کا اِحرام باندھا جائے اور ۱۰/ذوالحجہ کو رمی کے بعد اِحرام کھول دیا جائے، (اس صورت میں قربانی واجب نہیں)۔
    • پہلی صورت افضل ہے، اور دُوسری اَسہل ہے، اور دُوسری صورت، تیسری سے افضل بھی ہے اور اَسہل بھی، جس شخص پر حج فرض ہو اس کے لئے بھی یہی ترتیب ہے
  • احرام کے احکامات
    • احرام کی حالت میں جو کام حرام ہیں وہ یہ ہیں
      • عورت سے صحبت کرنا بوسہ لینا یا بشہوت ایسے ہی دوسرے کام کرنا۔
      • عورتوں کے سامنے ہیجان انگیز باتیں کرنا۔
      • فحش گناہ ہمیشہ حرام تھے اب او ر سخت حرام ہو گئے۔
      • کسی سے دنیا وہی لڑائی جھگڑا اگرچہ اپنا خادم و ماتحت ہی ہو۔
      • جنگل کا شکار کرنا یا کسی شکاری کی کسی طرح اعانت کرنا۔
      • پرندوں کے انڈ ے توڑنا، پکانا، بھوننا، بیچنا، خریدنا، کھانا یا اسے آزار پہنچانا یا جنگلی جانور کا دودھ دوہنا۔
      • ناخن کترنا یا سر سے پاؤں تک کہیں سے کوئی بال جدا کرنا اور داڑھی مونڈنا یا کترنا اور زیادہ حرام۔
      • منہ یا سر کسی کپڑے وغیرہ سے چھپانا یا بستر یا کپڑوں کی گٹھری وغیرہ سر پر رکھنا۔
      • عمامہ باندھنا، برقع دستانے یا موزے یا جرابیں وغیرہ جو پنڈلی اورقدم کے جوڑ کو چھپائے یا سلاہو ا کپڑ پہننا ، یونہی ٹوپی پہننا۔
      • خوشبو بالوں یا بدن یا کپڑوں میں لگانا۔
      • ملا گیری یا کسی خوشبو کے رنگے کپڑے پہننا جبکہ ابھی خو شبو دے رہے ہوں۔
      • خالص خوشبو ، لونگ، الائچی، دارچینی، زعفران وغیرہ کھانا یا آنچل میں باندھنا ۔
      • سر یا داڑھی کسی خوشبو دار یا ایسی چیز سے دھونا جس سے جوئیں مر جائیں۔
      • وسمہ یا مہندی کا خضاب لگانا اور سیاہ خضاب ہمیشہ حرام ہے احرام میں اور زیادہ ۔
      • گاند وغیرہ سے بال جمانا۔
      • زیتون یا تل کا تیل اگرچہ بے خوشبو ہو بدن یابالوں میں لگانا۔
      • کسی کا سر مونڈنا اگرچہ اس کا احرام نہ ہو۔
      • جوں مارنا پھینکنا ، کسی کو اس کے مارنے کا اشارہ کرنا۔
      • کپڑوں کو جوں مارنے کے لیے دھونا یا دھوپ میں ڈالنا۔
      • بالوںمیں پارہ وغیر جوں کے مرنے کو لگانا غرض جوں کے ہلاک پر کسی طرح باعث ہونا۔ (ردالمحتار)
    • احرام میں یہ باتیں مکروہ ہیں
      • بدن کا میل چھڑانا یا بال یا بدن کھلی یا صابون وغیرہ بے خوشبو کی چیز سے دھونا۔
      • کنگھی کرنا یا اس طرح کھجانا کہ بال ٹوٹے یا جوں گرے۔
      • انگر کھایا چغہ یا کرتا پہننے کی طرح کندھوں پر ڈالنا۔
      • خوشبو کی دھونی دیا ہوا کپڑا کہ ابھی خوشبو دے رہا ہے پہننا یا اوڑھنا۔
      • قصداً خوشبو سونگھنا اگرچہ خوشبو دار پھل یا پتہ ہو جیسے لیموں پودینہ وغیرہ۔
      • سر یا منہ پر پٹی باندھنا یا ناک وغیرہ منہ کا کوئی حصہ کپڑے سے چھپانا۔
      • غلافِ کعبہ کے اندر اس طرح داخل ہونا کہ غلاف شریف سر یا منہ سے لگے۔
      • کوئی ایسی چیز کھانا پینا جس میں خوشبو پڑی ہو اور نہ وہ پکائی گئی ہو نہ زائل ہو گئی ہو۔
      • بے سلا کپڑا رفو کیا ہو ا یا پیوند لگا ہو اپہننا۔
      • تکیہ پر منہ رکھ کر اوندھا لیٹنا اور تکیہ سر یا گال کے نیچے رکھا تومکروہ نہیں۔
      • مہکتی خوشبو ہاتھ سے چھونا جبکہ ہاتھ میں لگ نہ جائے ورنہ حرام ہے۔
      • بازو یا گلے پر تعویز باندھنا اگرچہ بے سلے کپڑے میں لپیٹ کر ہو۔
      • بلا عذر بدن پر پٹی باندھنا اور منہ اور سر کے سوا کسی اور جگہ زخم پر پٹی باندھنا جائز ہے۔
      • سنگھار کرنا، ہاں آئینہ دیکھنا مکروہ نہیں۔
      • چادر اوڑھ کر اس کے آنچلوں میں گرہ دے لینا جبکہ سر کھلا ہو، ورنہ حرام ہے۔
      • تہ بند کے دونوں کناروں میں گرہ دینا۔
      • تہ بند باندھ کر کمر بند یا رسی سے کسنا۔
    • یہ باتیں احرام میں جائز ہیں
      • انگر کھا، کرتا، چغہ، وغیرہ لپیٹ کر اوپر سے اس طرح ڈالنا لینا کہ سر اور منہ نہ چھپے۔
      • ان چیزوں یا پاجامہ کا تہ بند باندھ لینا یا چادر کے آنچلوں کو تہ بند میں گھسر سنا۔
      • بمیانی یا پتی یا ہتھیار باندھنا۔
      • بے میل چھڑائے پانی میں نہانا ، غوطہ لگانا اگرچہ سر کے اوپر پانی سے سرچھپ جائے۔
      • کپڑے دھونا، جب کہ جوں مارنے کی غرض سے نہ ہو۔
      • مسواک کرنا، انگوٹھی پہننا، بے خوشبو کا سرمہ لگانا۔
      • کسی چیز کے سایہ میں بیٹھنا یا چھتری لگانا۔
      • داڑھ اکھاڑنا، ٹوٹے ہوئے ناخن کو جدا کرنا، آنکھ میں جو بال نکلے اسے جدا کرنا، ختنہ کرنا۔
      • بغیر بال مونڈے پچھنے کرانا، فصد لینا، دنبل یا پھنسی توڑ دینا۔
      • سر یا بدن اس طرح آہستہ کھجانا کہ بال نہ ٹوٹے ، جوں نہ گرے۔
      • احرام سے پہلے جو خوشبو لگائی تھی اس کا لگا رہنا۔
      • پالتو جانور کا ذبح کرنا، پکانا، کھانا اس کا دودھ دوہنا یا انڈے وغیرہ ، توڑنا ، بھوننا ، کھانا۔
      • کھانے کے لیے مچھلی کا شکار کرنا یا دوا کے لیے کسی دریائی جانور کا مارنا اور دو ایا غذا کے لیے نہ ہو نری تفریح کے لیے جس طرح لوگوں میں رائج ہے تو شکار دریا کا ہو یا جنگل کا خود ہی حرام ہے اور احرام میں سخت تر حرام۔
      • سر یا ناک پر اپنایا دوسرے کا ہاتھ رکھنا۔
      • گدی یا کان کپڑے سے چھپانا یا ٹھوڑی کے نیچے داڑھی پر کپڑا آنا۔
      • سر پر سینی یا بوری اٹھانا۔
      • جس کھانے کے پکنے میں مشک وغیرہ پڑے ہوں اگرچہ خوشبو دیں یا بے پکائے جس میں خوشبو ڈالی اور بو نہیں دیتی اس کا کھانا پینا۔
      • کڑواتیل یا ناریل یا کدو کا ہو کا تیل کہ بسایا نہ گیا ہو، بدن یا بالوں میں لگانا۔
      • خوشبو کے رنگے کپڑے پہننا جبکہ ان کی خوشبو جاتی رہی ہو مگر کسم کیسر کا رنگ مرد کو ویسے ہی حرام ہے۔
      • دین کے لیے لڑنا جھگڑنا بلکہ حسبِ حاجت فرض وواجب ہے۔
      • جوتا پہننا جو پاؤں کے جوڑ کو نہ چھپائے یعنی تسمہ کی جگہ نہ چھپے۔
      • بے سلے کپڑے میں تعویز لپیٹ کر گلے میں ڈالنا۔
      • ایسی خوشبو کا چرما جس میں فی الحال مہک نہیں جیسے اگر لوبان ، صندل یا اس کا آنچل میں باندھنا۔
      • نکاح کرنا۔
      • بیرون حرم کی گھاس اکھاڑنا یا درخت کاٹنا۔
      • چیل ، کّوا، گرگٹ، چھپکلی ، کھٹمل ، سانپ، بچھو ، مچھر، پسو ، مکھی وغیرہ خبیث و موذی جانوروں کا مارنا۔
      • جس جانور کو غیر محرم نے شکار کیا اور کسی محرم نے کسی طرح اس میں مدنہ نہ کی اس کا کھانا بشرطیکہ وہ جانور نہ حرم کا ہو نہ حرم میں ذبح کیا گیا ہو ۔ (ردالمحتار)
    • جان مسائل میں مرد و عورت برابر ہیں مگر عورت کو چند باتیں جائز ہیں
      • سرچھپانا بلکہ نا محرم اور نماز میں فرض تو سر پر تقجپہ وغیرہ اٹھانا بدرجۂ اولیٰ جائز ۔
      • گوند وغیرہ سے بال جمانا۔
      • گوند وغیرہ سے بال جمانا۔
      • غلافِ کعبہ کے اندریوں داخل ہونا کہ سر پر رہے ، منہ پر نہ آئے۔
      • دستانے ، موزے اور سلے ہوئے کپڑے پہننا۔
      • عورت اتنی آواز سے لبیک نہ کہے کہ نا محرم سنے ہاں اتنی آواز ہر پڑھنے میں ہمیشہ سب کو ضرور ہے کہ اپنے کان تک آواز آسکے۔
      • تنبیہہ:َ
        احرام میں منہ چھپانا عورت کو بھی حرام ہے نامحرم کے آگے کوئی پنکھا وغیر منہ سے بچا ہو سامنے رکھے۔

        نوٹ ۔
        جو باتیں احرام میں ناجائز و حرام ہیں وہ اگر کسی عذر سے یا بھول کو ہوں تو گناہ نہیں مگر ان پر جو جرمانہ مقرر ہے ہر طرح دینا آئے گا اگرچہ بے قصد ہوں یا سہواً یا جبر آیا سوتے میں، علم ووقفیت کے ساتھ ہوں یا لاعلمی میں ،ہوش میں ہوں یا بیہوشی میں۔

  • مختصر طریقہ حج و عمرہ

      بسم اللہ الرحمن الرحیم
      فقہی مسائل اور قیودات کی وضاحت کے بغیر یہاں عوام کے مناسب اسان طورپر عمرہ اور حج کا طریقہ لکھاجاتاہے۔ اس میں جو باتیں جہاں جس طرح کرنی لکھی گیا ہیں، ضروری نہیں ہے کہ اسی طرح کرنا ضروری ہو، بلکہ آسان طریقہ لکھاگیاہے، مثلا احرام کے بارے میں لکھاہے کہ اپنے مقامی ایر پورٹ سے باندھ لیں، یہ اس لیے عام طورپر ہواءی جہاز کے سفر کے درمیان میقات آجاتی ہے اور اس وقت احرام باندھنا دشوار ہوتاہے۔

    • عمرہ
      • عمرہ کااحرام
        • اپنےمقامی ایڑپورٹ سےعمرہ کا احرام باندھ کر دو رکعت نماز پڑھ کرسلام پھیر کر قبلہ رو بیٹھ کر سر کھول کر اسی جگہ درج ذیل طریقہ پر نیت کریں
          اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ العُمرَۃَ فَیَسِّرھَا لِی وَ تَقَبَّلھَا مِنِّی
          نیت کےبعد مرد بلند آواز سےاور عورت پست آواز سےنیچےکا تلبیہ پڑھے:
          لَبیکَ اَللّٰھُمَّ لبّیک لبَّیک لا شَرِیکَ لَکَ لبَّیک ، اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمۃ لَکَ وَ المُلکَ، لا شَرِیکَ لَکَ
          نیت کرکےتلبیہ کہنےکےساتھ ہی آپ کا احرام شروع ہو گیا، عمرہ کےسلسلہ کا پہلا عمل یہی احرام ہے، اب مکہ معظمہ پہونچنےتک آپ کو کوئی خاص کام کرنا نہیں ہے۔ بس احرام کی پابندیوں سےبچتےرہو۔
      • مسجد حرام میں داخلہ
        • مکہ مکرمہ میں اپنےمقام پر اسباب وغیرہ کا بند و بست کرکےسب سےپہلےمسجد حرام میں حاضر ہونا چاہیے۔تلبیہ پڑھتےہوئےنہایت خشوع و خضوع کےساتھ دربار الہی کی عظمت و جلال کا لحاظ کرتےہوئےمسجدحرام میں دعا پڑھ کر داخل ہوں۔ اب نظریں جھکائےھوئےآگےبڑھیے، کیونکہ آپکو کعبۃ اللہ تک جانا ہے، ایک اندازہ کےمطابق تقریبا دو سو قدم چلنےکےبعد آپ برآمدوں سےگزرکر حرم شریف کےصحن میں آجائیں گے۔ اور جب نظر اٹھائیں گےتو آپکی نظر سیدھی کعبۃ اللہ پر پڑےگی، کعبۃ اللہ پر پڑنےوالی یہ آپکی پہلی نظر ہوگی جو دعا کی قبولیت کی گھڑی ہے، لہذا اپنی نظریں وہیں جما دیجئے ۔اور پھر جی بھر کر بصد آداب و شکر اپنی خوش قسمتی پر نازاں، نہایت عجز و نیاز سےدین و دنیا کی ساری جائز اور نیک خواہشات کی دعا کیجیئے، سب سےاہم دعا یہ کرنی چاہیےکہ اللہ تعالی بغیر حساب و کتاب جنت میں داخلہ عنایت فرمائیں۔
          اپنےمقامی ایرپورٹ سےچونکہ آپ نےعمرہ کا احرام باندھا ہے، اور عمرہ میں کل تین کام کرنےہوتےہیں۔
          (1)طواف کرنا (جو رکن اور فرض ہے
          ( (2) عمرہ کی سعی کرنا (جو واجب ہے
          ( (3) بال کٹوانا یا منڈوانا (یہ بھی واجب ہے)۔
      • طواف
        • طواف کےمعنی بیت اللہ کےچاروں طرف ایک خاص طریقےسےسات چکر یعنی سات مرتبہ گھومنا ہے۔طواف کی ابتداء حجرِ اسود سےہوتی ہے، اس لئےکعبۃ اللہ کےجس کونہ میں حجر اسود لگا ہو ا ہے، حکومت سعودیہ نےاس جانب کالے پتھر کی ایک لمبی لکیر بنادی ہے، اس طرف پہونچنے کی کوشش کریں۔لکیر کےقریب پہونچ جائیں تو لکیر سےآدھا فٹ قبل بائیں طرف بیت اللہ کی جانب منھ کرکےکھڑے ھو جائیں، اسکے بعد اضطباع کریں یعنی داہنےکندھےکےنیچےسےچادر نکال کر بائیں کندھے پر ڈال دیں، اس کےبعد طواف کی نیت کریں، اور یہ بات یاد رکھیں کہ طواف میں نیت فرض ہے، بغیر نیت کےطواف ادا نہیں ہوگا۔ نیت کےالفاظ یہ ہیں :
          اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ طَوَافَ بَیتِکَ الحَرَامِ، سَبعۃ اَشوَاطٍ لِلّٰہِ تَعَالٰی، فَیَسِّرہ لِی، وَ تَقَبَّلہ مِنِّی۔
          اب د ا ہنی طرف اتنا ہٹو کہ آپکےپاوں سیاہ لکیر پر آجائیں اور حجر اسود ٹھیک آپکےسامنےھو جائےاسکےبعد یہ دعا پڑھو :
          بِسمِ اللّٰہِ، اللّٰہُ اکبَر، وَ لِلّٰہِ الحَمد مذکورہ دعا کےساتھ اپنےدونوں ہاتھ اس طرح اٹھائیں جس طرح نماز میں کانوں تک اٹھا ہیں پھر چھوڑ دیں اور حجر اسود کو استلام یا بوسہ دیکر دا ہنی طرف گھوم کر طواف شروع کریں، مرد پہلےتین چکروں میں رمل کرے یعنی جھپٹ کر تیزی کےساتھ چلے، زور سےقدم اٹھائے۔ قدم نزدیک نزدیک رکھتےہوئےموندھوں کو پہلوانوں کی طرح خوب ہلاتا ہوا چلے۔ اور مابقیہ چار چکر اپنی اصلی رفتار سے پورےکریں۔ آپکو بیت اللہ کےگرد گھوم کر سات چکر پورے کرنےہیں، ہر چکر حجر اسود والےکونےسےشروع ھوگا اور وہیں آکر پورا ہوگا،
          ہر چکر پورا ھونےپر آپکو بِسمِ اللّٰہِ، اللّٰہُ اکبَر، وَ لِلّٰہِ الحَمدُ پڑھ کر حجر اسود کو بوسہ یا استلام کرکے نیا چکر شروع کرنا ہےاور جب جب رکن یمانی پر پہونچیں تو اس کو دونوں ہاتھ یا صرف دائیں ہاتھ سےچھو لینا سنت ہے،اس کو بوسہ دینا خلاف سنت ہے، ہاں مگر اس بات کا خیال رکھیں کہ سینہ بیت اللہ کی طرف مڑنےنہ پائے، اگر رکن یمانی پر ہاتھ لگانےکا موقع نہ ملےتو بغیر ہاتھ لگائےگذر جائیں ۔ اسطرح جب سات چکر پورےکرکےساتویں چکر کےاختتام پر حجر اسود کو بوسہ دینگےتو یہ اس طواف کا آٹھواں بوسہ ھوگا، ایک بوسہ وہ جو طواف شروع کرتےوقت لیا تھا اور سات بوسے، سات چکروں کے۔ اسطرح مجموعی آٹھ بوسےہونگے۔
          دوران طواف کوئی مخصوص دعا پڑھنا ضروری نہیں ہے، اگر دعائیں یاد نہ ھوں تو اپنی مادری زبان میں اللہ تعالی سےجو مانگنا چاہیں مانگتےرہیں، اگر کچھ بھی پڑھےبغیر، خاموشی کےساتھ بیت اللہ کےگرد سات چکر لگاوگےتو بھی آپکا طواف ھوجائیگا۔مگر اچھا یہ ہے کہ کم از کم مذکورہ ذیل دو دعائیں ضرور یاد فرمالیں۔
          (١) سُبحَانَ اللّٰہِ، وَ الحَمدُ لِلّٰہِ، وَ لا اِلٰہَ اِلاّ اللّٰہُ، وَ اللّٰہُ اَکبَر، وَ لا حَو´لَ وَ لا قُوَّۃ اِلاّ بِاللّٰہِ العَلِیِّ العَظِیمِ۔
          (٢) رَبَّنَا اٰتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَہً وَ فِی الآخِرَۃ حَسَنَۃ وَ قِنَا عَذَابَ النَّار
          ساتوں چکروں میں حجر اسود سےرکن یمانی کےدرمیان پہلےنمبر کی دعا اور رکن یمانی سےحجر اسود کےدرمیان دوسرےنمبر کی دعا پڑھتےرہیں۔ ہر دو دعائیں اگر اسکی جگہ آنےسےپہلےپوری ہوجائیں تو اسی دعا کو مکرر پڑھتےرہیں۔
      • دوگانہ طواف
        • طواف کےکےبعد طواف کی دو رکعت نماز مقام ابراھیم کےپیچھےیا اس کےآس پاس جہاںبھی جگہ مل جائےکندھا دھانک کر پڑھ لیں۔نماز اور دعا سےفارغ ہو کر اگر ممکن ہو تو مُلتَزَم پر جائیں اگر ملتزم سےچمٹنےکا موقع نہ مل سکےتو حرم میں کہیں سےبھی ملتزم کی جانب منھ کرکےاسپر نظریں جما کر دعا کرلیجئے۔
      • زمزم کا پانی پینا
        • دعا کر کےزم زم شریف پر آئیےاور قبلہ رو ہو کر بسم اللہ پڑھ کےتین سانس میں خوب ڈٹ کر آبِ زم زم پیجئے، زم زم پی کر الحمد للہ کہہ کر یہ دعا پڑھیں۔
          اَللّٰھُمَّ اِنِّی اَسئَلُکَ عِلمًا نَافِعًا، وَ رِزقًا وَاسِعًا، وَ شِفَاعًا مِن´ کُلِّ داء
      • صفامروہ کےدرمیان سعی
        • صفا اور مروہ کےدرمیان مخصوص طریقہ پر سات چکر لگانےکوسعی کہتےہیں، حج اور عمرہ کرنےوالےپر سعی کرنا واجب ہی۔جس طرح طواف حجر اسود کےاستلام سےشروع ہوتا ہےاسی طرح سعی بھی حجر اسود کےاستلام سےشروع کرنا آپ کی سنت ہے۔ اسلئےحجر اسود کا استلام کر لیں یا دور سےاسکی جانب ہتھیلیاں اٹھا کرہتھیلیوں کو چوم کر باب الصفا کی جانب بڑھیں۔
          حجر اسود کی نشانی والی کالی پٹی کی سیدھ میں چلیں، اسی جانب صفا پہاڑی کا مقام ہےاور وہاں عربی و انگلش میں ”الصفا “کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ وہاںسےٹھورا آگےبڑھنے کے بعد پہاڑ کی علامت شروع ہو جاتی ہے۔اب دل میں سعی کی نیت کریں اور زبان سےاِس طرح پڑھیں :
          اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ السَّعیَ بَینَ الصَّفَا وَ المَروۃَ سَبعۃ اَشوَاطٍ لِوَجھِکَ الکَرِیمِ ، فَیَسِّرہ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی۔
          پھر دونوں ہاتھ اس طرح اٹھائیں جیسےدعا میں اٹھائےجاتےہیں۔ اور خوب دعائیں مانگیں، تقریبا پچیس اٰیات پڑھنےکی مقدار کھڑےرہکر اپنی رفتار سےذکر کرتےہوئی، دعا مانگتےھوئےمروہ پہاڑی کی طرف چلیں۔ صفا مروہ کےبیچ بھی دل کی گہرائیوں سےدعائیں مانگےاور یہ دعا پڑھتےرہیں : رَبِّ اغفِر ،وَ ارحَم´ ،اَنتَ الاعزُّ الاکرَم´
          صفا مروہ کےدرمیان جب وہ جگہ آنےلگےجہاں دیوار میں سبز رنگ کےستون لگائےہوئےہیں اور وہ جب بقدر چھ ہاتھ کےدوری پرہو تو درمیانی چال سےدوڑنا شروع کریں اور دوسرے سبز ستونوں کےبعد بھی چھ ہاتھ تک دوڑیں، پھر اپنی چال چلنےلگیں۔ آگےمروہ پہاڑی آئیگی ، اسپر چڑھیں اور بیت اللہ کی جانب رخ کرکےکھڑےھو کر جسطرح صفا پہاڑی پر ذکر و شکر اور دعائیں کی تھیں اسی طرح یہاں بھی کریں، اب آپکا ایک چکر مکمل ہوگیا، اسکےبعد مروہ سےصفا یہ آپکا دوسرا چکر ختم ھوا، بس اسی طرح آپکو سات چکر مکمل کرنےہیں۔ ساتواں چکر مروہ پہاڑی پر ختم ہوگا۔ اب آپ مطاف میں آکر کسی بھی جگہ دو رکعت نماز پڑھیں ، شرط یہ ہےکہ مکروہ وقت نہ ہو۔
      • سر کا حلق
        • عمرہ کےتمام اعمال پورے ہو گئےاس لئےمسجد سےباہر نکل کر سر کا حلق یا قصر کروالیں،اب آپ کا عمرہ پورا ہو گیا اور آپکا احرام بھی ختم ہو گیا۔ اب احرام کی کوئی پابندی آپ پر نہیں رہی،
    • حج
      • طریقہ
        • آٹھ ذی الحجہ سےحج کےارکان شروع ھوجاتےہیں، آٹھویں ذی الحجہ کا سورج طلوع ھونیکےبعد احرام کی حالت میں مکہ مکرمہ سےمنی کےلئےروانہ ھونا ہے۔
          حج کا احرام حدود حرم میں کسی بھی جگہ سےباندھا جا سکتا ہے، اپنی قیام گاہ پر بھی باندھ سکتےہیں۔نفل طواف کرکےسر ڈھانک کر دو رکعت واجب الطواف پڑھیں۔ اسکےبعد سر کھول کےاحرام کی نیت اسطرح کریں۔
          اَللّٰھُمَّ اِنِّی اُرِیدُ الحَجَّ فَیَسِّرہُ لِی وَ تَقَبَّلہُ مِنِّی لَبیکَ اَللّٰھُمَّ لبّیک لبَّیک لا شَرِیکَ لَکَ لبَّّیک، اِنَّ الحَمدَ وَ النِّعمۃ لَکَ وَ المُلکَ، لا شَرِیکَ لَکَ
          نیت کرکےاور تلبیہ پڑھ کےآپ محرم ہوگئےاور احرام کی وہ ساری پابندیاں آپ پر عائد ہوگئیں جو عمرہ کےاحرام کےوقت تھیں۔
          منی کےلئےروانگی :آٹھویں تاریخ کو آپ نےحج کا احرام باندھ لیا، اب آج ہی آپکو منی جانا ہی، منی میں کوئی خاص عمل آپ کو نہیں کرناہے، بس ظہر، عصر، مغرب، عشاءاور ٩، ذی الحجہ کی فجر کی نماز منی میں اد ا کرنا ہے۔
          نویں ذی الحجہ کو عرفات کےلئےروانگی : نویں ذی الحجہ کی صبح سورج نکلنےکےبعدمنی سےعرفات جانا ہے، آج مغفرت کا دن ہے، آج یوم عرفہ ہے، مسئلہ کی رُو سےمیدان عرفات میں ٩، ذی الحجہ کی دو پہر سے٠١، ذی الحجہ کی صبح صادق تک کچھ دیر کا قیام حج کا رکن اعظم ہے، جس کےبغیر حج ادا نہیں ہوتا۔
          ٩، ذی الحجہ کو فجر کی نماز کےبعد تکبیرات تشریق شروع ہو جاتی ہیں، منٰی اور عرفات دونوں جگہ فرض نمازوں کےبعد ایک بار بلند آواز سےتکبیر تشریق پڑھیں:
          اَللّٰہُ اکبَر اَللّٰہُ اکبَر، لااِلٰہَ الاّ اللّٰہُ وَ اَللّٰہُ اکبَر، اَللّٰہُ اکبَر وَ لِلّٰہِ الحَمد۔
          ٩، ذی الحجہ کی فجرسے٠١، ذی الحجہ تک فرض نماز کےبعدپہلےتکبیر تشریق اور پھر تلبیہ پڑھیں، چونکہ تلبیہ دسویں تاریخ کی رمی کےساتھ ختم ہو جاتا ہےاس لئےباقی ایام میں (یعنی ٣١، ذی الحجہ کی عصر تک) صرف تکبیرتشریق پڑھیں۔
          فی زماننا بہتر یہی ہےکہ اپنےاپنےخیمےمیں روزانہ کی طرح ظہر اور عصر کی نماز اپنےاپنےوقت میں پڑھی جائی۔ وقوفِ عرفات کا وقت زوالِ آفتاب سےشروع ہو جاتا ہے۔اس لئےظہر کی نماز سےفارغ ہو کر وقوف میں مصروف ہو جائیں۔ سایہ کےبجائےدھوپ میں وقوف کرنا بہتر ہے، ہاں اگر کسی ضرر یا بیماری کا اندیشہ ہو تو سایہ میں اور خیمہ میں بھی وقوف کیا جا سکتا ہے۔ ہوسکےتو قبلہ رُخ کھڑے ہوکر پورا وقت یعنی مغرب تک وقوف کیجیئے۔ اگر پورا وقت کھڑے رہنا مشکل ہو تو جتنی دیر کھڑے رہنےکی طاقت ہو، کھڑے رہیے۔ ضرورت ہو تو وقوف کےوقت بیٹھنا بلکہ لیٹنا بھی جائز ہے۔
          آخرآفتاب غروب ہوا، آج حکم ہےمغرب کی نماز عشا ءکی نماز کےساتھ مزدلفہ میں پڑھی جائی۔
          عرفات سےمزدلفہ کےلئےروانگی اب لاکھوں انسانوں کی یہ بستی یہاں سےتین میل دور منتقل ہو جائیگی، لیجئےمزدلفہ پہنچ گئے۔
          بتلایا گیا ہےکہ مزدلفہ میں رات ٹھہرنےوالےحجاج کےحق میں یہ رات شب قدر سےبھی افضل ہےاس لئے اس رات کی عظمت اور قدرو قیمت کو یاد رکھیئے۔ یہ رات جاگ کر گزاری جائے۔ عبادت، ذکر، استغفار، توبہ اور درود شریف میں مشغول رہیں، نفل پڑھیں۔ لیٹنا یا سونا منع نہیں ہے، فجر کی نماز صبح صادق ہو تےہی اندھیرےمیں پڑھیں۔تاکہ صبح صادق کےبعد تھوڑی دیرمزدلفہ میں وقوف واجب ہے،اس پر بھی عمل ہو جائیگا۔ مزدلفہ کےوقوف کا وقت صبح صادق کےبعد شروع ہوتا ہےاور سورج نکلنےتک رہتا ہے،
          مزدلفہ سےمنی روانگی سےپہلےیاد رکھنا چاہیےکہ آپکو منی جا کر شیطان کو کنکریاں مارنا ہےاس کا انتظام یہاں مزدلفہ سےکرنا ہے، کم از کم ستر کنکریاں ایک تھیلی میں رکھ لیں، جب٠١، ذی الحجہ کی صبح کا اجالا آسمان پر پھیلنےلگتا ہےتو انسانوں کا یہ سمندر ایک بار پھر منیٰ کی طرف کوچ کرتا ہے۔
          منی میں قیام اور رمی جمار: دسویں تاریخ کو صرف جمرہ عقبہ کی رمی کرنا ہےاس پر پہلی کنکری پھینکتےہی تلبیہ پڑھنا موقوف ہو جاتا ہےلہذا اسکےبعد تلبیہ نہ پڑھیں۔
          جمرہ عقبہ کی رمی کا مسنون وقت آفتا ب طلوع ہونےسےشروع ہو کر زوال تک ہے۔ مباح وقت بلا کراہت مغرب تک ہےاور کراہت کےساتھ مغرب سےصبح صادق سےپہلےتک رہتا ہے۔ رمی کےساتھ تکبیر کہنا مسنون ہے، جب کنکریاں ماریں تو یہ دعا پڑھیں :
          بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر، رَغمَاً للشَّیطَانِ وَ رِضًی للرَّحمَان
      • قربانی
        • اگر آپ حج تمتع کرتے ہیں تو اللہ تعالی نےآپکو حج تمتع کی نعمت سےسرفراز فرمایا اسکےشکرانےکےطور پر قربانی کرنا واجب ہے۔ رمی کےبعد پہلےقربانی کیجئے پھر حلق یا قصر کرواکر احرام کھول دیجئے۔ اب آپ سِلےہوئےکپڑے پہن سکتےہیں، خوشبو لگا سکتےہیں اور احرام کی حالت میں ممنوع جملہ امور انجام دے سکتےہیں مگر ابھی بھی آپکا اپنی بیوی سےہم بستر ی کرنا جائز نہیں ہے۔جب آپ طوافِ زیارت ادا کرلینگےتو احرام کی مابقیہ ایک پابندی یعنی عورتوں سےہم بستری بھی حلال ہوجائیگی۔
      • طواف زیارت
        • یہ طواف حج کا رکن اور فرض ہے،یہ طواف عام طور پر قربانی اور حجامت کےبعد سِلےہوئےکپڑوں میں کیا جاتا ہے، بعض لوگ سوچ میں پڑ جاتےہیں کہ سلےہوئےکپڑوں میں طواف اور سعی کیسےکی جائے؟ تو خیال رہےکہ اسمیں شک کی کوئی گنجائش نہیں ہے، آپ طواف زیارت اور سعی سلےہوئےکپڑوں میں بھی کر سکتے ہیں، طواف کے پہلےتین چکروں میں رمل بھی ہوگا، ہاں اب اضطباع نہیں ہوگا، اس کا موقع ختم ہو گیا۔
          الحمد للہ دسویں ذی الحجہ کےسارے کام انجام پا گئے۔ اب آپ مکمل طور پر احرام کی پاندیوں سےفارغ ہو گئے۔ عورت بھی اب حلال ہو گئی۔ فارغ ہو کر آپ پھر منی چلےجائیں۔ طواف زیار ت کےبعد دو رات اور دو دن منی میں قیام کرنا ہے۔
          گیارہ اور ٢١، ذی الحجہ کو تینوں جمروں کی رمی کرنا ہےاور آج رمی کا وقت زوالِ آفتاب کےبعد ہے۔ اپنےخیمےیا مسجد خیف میں ظہر کی نماز ادا کریں اور پھر رمی کےلئےنکل جائیں۔
          راستہ میں سب سےپہلےجمرہ اولی ”چھوٹا شیطان“ آئےگا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کل جمرہ عقبہ کی رمی کی تھی، اس پر سات کنکریاں ماریں اور ہر کنکر ی پر :
          بِسمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکبَر´، رَغمَاً لِلشَّیطَانِ وَ رِضًی لِلرَّحمَانِ
          رمی کےبعد دائیں جانب ہٹ کر قبلہ رخ کھڑےہو کر دعا کریں۔ توبہ، استغفار اور تسبیح و ذکر کےبعد درود شریف پڑھیں، اپنےلئےدعا مانگیں، اپنےدوست و احباب کےلئےبھی دعا مانگیں۔ اس کےبعد آگےچلیں جمرہ وسطی ” درمیانی شیطان“ پر آئیں اور اسی طرح سات کنکریاں ماریں، جس طرھ ”جمرہ اولی“ پر ماری تھیں اور ذرا ہٹ کر قبلہ رخ ہو کر دعا مانگیں اور اتنی دیر ہی ٹھہریں جتنی دیر ”جمرہ اولی“ پر ٹھہرےتھی۔ اس کےبعدجمرہ عقبی‘ ”بڑےشیطان“ پر آئیں۔ اسی طرح سات کنکریاں اس کو بھی ماریں، جس طرح پہلےماری تھیں، مگر اس جمرہ پر ٹھہرنےیا دعا مانگنےکا ثبوت نہیں ہے
          اب حج کےتمام ارکان ادا ہو چکےہیں، اور حج کی نعمتِ عظمی آپ کو حاصل ہو چکی ہے، صرف طوافِ وداع کرنا باقی ہے۔
      • طواف وداع
        • جب مکہ معظمہ سےوطن واپس ہونےکا ارادہ ہو تو طواف وداع یعنی رخصتی کا طواف کیا جاتا ہے، یہ طواف مکہ سےباہر رہنےوالے”آفاقی“ پر واجب ہے۔
          جس عورت کو حیض آرہا ہو یا نفاس کی حالت میں ہو اورمکہ سےرخصت ہونےکےوقت تک پاک نہ ہو تو اس سےطوافِ وداع معاف ہو جاتا ہے، ایسی عورت کو چاہیےکہ حرم شریف کےدروازہ سےباہر کھڑی ہو کر دعا مانگ لےاور حرم شریف میں داخل نہ ہو۔
          بیت اللہ کی جدائی پر افسوس اور ندامت کا اظہار کیجئے، مسجد حرام سےالٹے پیر نکلنا آپ سےثابت نہیں ہے، تاہم علماءکرام اور بزرگانِ دین نےکعبۃ اللہ کی عظمت کےخاطر ایسا کرنا بہتر بتایا ہے۔
          اس عرصہ میں مسجد حرام اور بیت اللہ کےآداب اور حقوق کےبارےمیں آپ سےجو کوتاہیاں ہوئیں اُن کی معافی مانگتےہوئےمسجد حرام سےنکلیےاور حسب قاعدہ بایاں پاؤں پہلےنکالییے(باب الوداع یا کسی بھی دروازےسے) مسجد حرام سےباہر نکلتےہوئےیہ دعا پڑھیے:
          اَللّٰھمَّ اغفِر´ لِی´ ذُنُوبِی وَ افتَح´ لِی اَبوَابَ رَحمَتِکَ
          اللہ تعالی کےمقدس ”گھر خانہ کعبہ “کےدیدار سےمشرف، اور حج کےمبارک فریضہ سےسُبکدوش ہو نےکےبعد زندگی کی سب سےبڑی اور عظیم الشان سعادت مسجد نبوی اور سرور کائنات کےروضہ اقدس کی زیارت کےلئےمدینہ منورہ کی جانب روانگی ہے۔
          یہ بات یاد رہےکہ آپکو مکہ مکرمہ پہونچنےکےبعد پہلےہی دن جو کارڈ دیا گیا تھا، مدینہ منورہ روانگی سےپہلےآپکو وہ کارڈ جمع کرنا ہوگا، کیونکہ اسی کارڈ کی مدد سےمعلم کےدفتر میں آپکا پاسپورٹ تلاش کیا جائیگا اور مدینہ لےجانےوالی بس کےڈرایور کےحوالےھوگا جو مدینہ منورہ میں وہاں کےمعلم کو حوالےکریگا۔
          زیارت مسجد نبوی کی تڑپ اور خواہش ہر مسلمان کےدل میں ہوتی ہے، یہ ایک ایسی بات ہےجس پر کسی دلیل کی ضرورت نہیں ہے۔
          ملا علی قاری جو فقہ حنفی کےبڑے عالم اور بلند پایہ کےمحدث ہیں لکھتےہیں
          کہ بعض حضرات کو چھوڑ کر جنکا اختلاف ناقابل قبول ہے، امت کا اس بات پر اتفاق ہےکہ حضور کی زیارت بہت بڑی عبادت، رفع درجات کا ذریعہ اور رضاءخداوندی کا وسیلہ ہے، اس کا حکم وجوب سےقریب قریب ہےاور بعض علماءکےنزدیک صاحب استطاعت حضرات پر واجب ہے، گنجائش اور استطاعت کےباوجود حضور کی زیارت کےلئےمدینہ طیبہ حاضری نہ دینا بہت بڑی محرومی، بدنصیبی اور بےمروتی ہے۔اس لئےجو شخص حج کو جائےاس کو مدینہ منورہ ضرور حاضری دینا چاہیے، حدیثوں میں اسکی بہت ہی تاکید اور ترغیب آئی ہے
          حضور اکرم کی قبر کی زیارت کےلئےسفر کرنا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمۃ اللہ علیہم سےبھی ثابت ہے۔ بیت المقدس کی فتح کےبعد حضرت بلال رضی اللہ عنہ، حضرت عمر رضی اللہ کی اجازت سےشام چلےگئےتھےاور وہیں نکاح بھی کر لیا تھا۔ ایک دن آنحضور کی خواب میں زیارت ھوئی۔ آپ نےفرمایا کہ بلال یہ کیا ظلم ہے، ھماری زیارت کےلئےبھی وقت نہیں ملتا ! خواب دیکھتےہی حضرت بلال رضی اللہ عنہ پریشان ھوگئے، سفر کےلئےاونٹنی تیار کی اور مدینہ منورہ حاضری دی، حضرت بلال رضی اللہ عنہ کی آمدکی خبر سن کر حضرات حسنین تشریف لائےمعانقہ کیا اور اذان دینےکی درخواست کی۔ پیارےصاحبزادوں کی درخواست پر حضرت بلال نےاذان دی۔ اذان بلال سنتےہی مدینہ کےمرد اور عورتیں روتےھوئےگھر سےباہر نکل آئےاور زمانہ نبوی کی یاد نےہر ایک کو تڑپا دیا۔ اس واقعہ کو ذکر کرنےکا مقصد یہی ہےکہ دیکھیئےزیارت روضہ اقدس کےلئےحضرت بلال کا سفر ثابت ہے۔
          متعدد روایات میں ہےکہ حضرت عمر شام سےایک سوار کو صرف اسلئےمدینہ منورہ بھیجتےتھےکہ وہ روضہ اطہر پر انکےسلام پیش کرے۔
          حدیث شریف میں ہےکہ حق سبحانہ و تعالی نےفرشتوں کی ایک جماعت ایسی پیدا کی ہےجو قاصدین زیارت کےتحفۂ درود کو دربار نبوی میں پہنچاتےہیں اور عرض کرتےہیں کہ فلاں بن فلاں زیارت کو آرہا ہےاور یہ تحفہ پہلےبھیجا ہے۔
          دوسری حدیث میں ہےکہ جب مدینہ منورہ کا زائر قریب پہنچتا ہےتو رحمت کےفرشتےتحفےلیکر اس کےاستقبال کو آتےہیں اور طرح طرح کی بشارتیں سناتےہیں اور نورانی طبق اسپر نثار کرتےہیں۔ (جذب القلوب)
          اگر حج سےفراغت کےبعد مدینہ منورہ جارہےہیں تو ایک تو اس بات کا اھتمام کریں کہ طواف وداع کرنا نہ بھولیں اور دیگر اس بات کا خیال رکھیں کہ اپنا پورا سامان حتی کہ زم زم بھی ساتھ لےکر چلیں، کیونکہ اب آپکو تقریبا مدینہ منورہ سےسیدھےجدہ لےجایا جائیگا اور وہاں سےایکاد دن میں وطن واپسی ھوگی اور دوبارہ مکہ مکرمہ جانا نہیں ملیگا۔یا مدینہ سے ہی ہواءی جہاز میں سورا کرادیاجایےگا۔
          اگر سامان کی زیادتی یا کسی اور وجہ سےآپ مدینہ منورہ زم زم لےجانا نہیں چاہتےتو مدینہ منورہ سےبھی آپ زم زم لےسکینگی۔ حیّ علی الصلوة کی جانب جہاں عورتوں کی نماز کا انتظام ھوتا ہے، اس سےباہر کھلےصحن میں بالکل اخیر میں زم زم کےپانی کی سبیل ”نل“ لگےھوئےہیں، وہاں سےبھی ضرورت کی مقدار پانی بھرا جاسکتا ہے۔ اور اگر آپ حج کی ادائیگی سےپہلےہی مدینہ منورہ جار ہےہیں تو بقدر ضرورت سامان ہی مدینہ طیبہ لےجائیں اور زائد سامان مکہ مکرمہ رہنےدیں۔ مکہ معظمہ کی جدائی اور فراق کےرنج و ملال کو ،مدینہ طیبہ، مسجد نبوی اور روضہ مطہرہ کی زیارت اوربارگاہ نبوت کی حضوری کےمسرت بخش اور لذیذ تصور سےبدل دیجیئےاور عشق و مستی سےسرشار ہو کر آپ پر درود و سلام پڑھیئے:
          اَللّٰھُمَّ صَلِّ عَلٰی سَیِّدِنَا مُحَمَّدٍ وَ عَلٰی آلِہِ وَ اَصحَابِہِ وَ بَارَکۡ وَ سَلَّم، کَمَا تُحِبُّ وَ تَرضٰی، عَدَدَ مَا تُحِبُّ وَ تَرضٰی۔
          اب آپ ہر گھڑی مکہ مکرمہ سےدور اور مدینہ منورہ سےقریب ھوتےجارہےہیں، ہاں مگر آپ ہیں تو دو حرم کے بیچ، مبارک ہو آپکا یہ سفر اور حرمین
      • شریفین کی زیارت
        • حکومت سعودیہ نےمکہ مکرمہ سےمدینہ منورہ تک وسیع راستہ بنادیا ہے، یہ وہی راستہ ہےجسپر چلکر آپ نےمکہ مکرمہ سےمدینہ منورہ کا سفر طےفرمایا تھا، اسی وجہ سےاس راستہ کا نام شارع الھجرۃ ”ہجرت ہائی وے“ رکھا گیا ہے۔ اس روڈ کی وجہ سےمکہ مکرمہ سےمدینہ منورہ کا سفر بہت ہی آسان اور مبارک ہو گیا ہے۔
          آپ کا سفر حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کےگھر سےشروع ہو کر قُبا پر پورا ہوا تھا ، یہ روڈ بھی قبا ھوتا ہوا مدینہ منورہ پہونچتا ہے۔ مکہ مکرمہ میں جماعت سےعشاءکی نماز پڑھکر مدینہ منورہ کا سفر شروع کرنےوالاآدمی بآسانی مسجد نبوی کی فجر کی جماعت میں شریک ہو جاتا ہے۔ کبھی کبھی قافلےتہجد کےوقت ہی پہونچ جاتےہیں۔
          مدینہ منورہ جاتےہوئےاس پختہ سڑک اور ہموار راستہ کو آپ منزل بمنزل تیز رفتار موٹر سےطےکر رہےہیں۔ کل تک آسائش اور آرام کےان وسائل و ذرائع کا نام ونشان نہیں تھا۔ تقریبا ایک ہزار چار سو سال سےکروڑوں انسان، نبی اکرم کا نام لیکر ،ان کا دم بھرتےہوئے، طرح طرح کی تکالیف ومشکلات اور ہمت شکن خطرات کو انتہائی صبر وتحمل اور خندہ پیشانی سےبرداشت کرتےہوئے، اس راستہ سےگزرتےرہے، عاشقانِ رسول اللہ کےقافلےہر سمت سےآتےرہے، جاتےرہے۔شمع محمدی کےلاکھوں پروانےتقریبا ٥٨٤ کیلو میٹر کےاس طویل راستہ میں، ان وادیوں، ان پہاڑوں، ان لق و دق میدانوں میں مرےیا مارےگئے، لوٹےگئے، اپنوں سےبچھڑے، قافلےسےالگ ہو گئے، ریت کےٹیلوں اور پہاڑیوں میں راستہ بھول کر کہیں سےکہیں نکل گئےاور زمین ان کو نگل گئی، یہ لاکھوں روحیں آپ کا استقبال کر رہی ہیں اور امیدوار ہیں کہ آپ ان کو بھی کچھ پڑھ کر بخش دیں، ان شہیدوں کو بھی کچھ دیتےجائیں اور خدا کا شکر ادا کیجئےکہ آپ ہوا سےباتیں کرتےہوئے بےخوف و خطر، آرام اور اطمینان کےساتھ چند گھنٹوں میں روضہ اطہر پر محبوبِ خدا کےسایہ رحمت میں ہوں گے، یہ فخر و سعادت آپ کو نصیب ہوئی، اس نعمت پر رب العالمین کےحضور سجدہ شکر اداکیجیئے۔
  • حجاج کیلئے مفید ہدایات(از حضرت مولانا یوسف لدھیانوی ؒ)
    • اسلام کا عظیم الشان رُکن ہے۔ اسلام کی تکمیل کا اعلان حجةالوداع کے موقع پر ہوا، اور حج ہی سے ارکانِ اسلام کی تکمیل ہوتی ہے۔ احادیثِ طیبہ میں حج و عمرہ کے فضائل بہت کثرت سے ارشاد فرمائے گئے ہیں۔
      ایک حدیث میں ہے کہ:
      ”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من حَجَّ ِللهِ فلم یرفث ولم یفسق رجع کیومٍ ولدتہ أُمُّہ۔ متفق علیہ۔“
      (مشکوٰة ص:۲۲۱)
      ترجمہ:… ”جس نے محض اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے حج کیا، پھر اس میں نہ کوئی فحش بات کی اور نہ نافرمانی کی، وہ ایسا پاک صاف ہوکر آتا ہے جیسا ولادت کے دن تھا۔“
      ایک اور حدیث میں ہے کہ:
      ”سئل رسول الله صلی الله علیہ وسلم: أیُّ العمل أفضل؟ قال: ایمان بالله ورسولہ۔ قیل: ثم ماذا؟ قال: الجھاد فی سبیل الله۔ قیل: ثم ماذا؟ قال: حَجّ مبرورٌ۔ متفق علیہ۔“ (مشکوٰة ص:۲۲۱)
      ترجمہ:… ”آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے افضل عمل کون سا ہے؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا۔ عرض کیا گیا: اس کے بعد؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنا۔ عرض کیا گیا: اس کے بعد؟ فرمایا: حجِ مبرور۔“
      ایک اور حدیث میں ہے کہ:
      ”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: العمرة الی العمرة کفّارة لما بینھما، والحجّ المبرور لیس لہ جزاءٌ الا الجنّة۔ متفق علیہ۔“ (ایضاً)
      ترجمہ:… ”ایک عمرہ کے بعد دُوسرا عمرہ درمیانی عرصے کے گناہوں کا کفارہ ہے، اور حجِ مبرور کی جزا جنت کے سوا کچھ اور ہو ہی نہیں سکتی۔“
      ایک اور حدیث میں ہے کہ:
      ”وعن ابن مسعود قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: تابعوا بین الحج والعمرة فانّھما ینفیان الفقر والذنوب کما ینفی الکیرُ خبث الحدید والذھب والفضّة ولیس للحجّة المبرور ثوابٌ الا الجنّة۔“ (مشکوٰة ص:۲۲۲)
      ترجمہ:… ”پے در پے حج و عمرے کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں فقر اور گناہوں سے اس طرح صاف کردیتے ہیں جیسے بھٹی لوہے اور سونے چاندی کے میل کو صاف کردیتی ہے، اور حجِ مبرور کا ثواب صرف جنت ہے۔“
      حج، عشقِ الٰہی کا مظہر ہے، اور بیت اللہ شریف مرکزِ تجلیاتِ الٰہی ہے، اس لئے بیت اللہ شریف کی زیارت اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ عالی میں حاضری ہر موٴمن کی جانِ تمنا ہے، اگر کسی کے دِل میں یہ آرزو چٹکیاں نہیں لیتی تو سمجھنا چاہئے کہ اس کے ایمان کی جڑیں خشک ہیں۔
      ایک اور حدیث میں ہے کہ:
      ”وعن علیّ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من ملک زادًا وراحلةً تبلغہ الٰی بیت الله ولم یحجّ فلا علیہ أن یموت یھودیًّا أو نصرانیًّا ․․․․ الخ۔“
      (مشکوٰة ص:۲۲۲)
      ترجمہ:… ”جو شخص بیت اللہ تک پہنچنے کے لئے زاد و راہ رکھتا تھا اس کے باوجود اس نے حج نہیں کیا، تو اس کے حق میں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ وہ یہودی یا نصرانی ہوکر مرے۔“
      ایک اور حدیث میں ہے کہ:
      ”وعن أبی أمامة قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من لم یمنعہ من الحجّ حاجة ظاھرةٌ أو سلطانٌ جائرٌ أو مرضٌ حابسٌ فمات ولم یحجّ، فلیمت ان شاء یھودیًّا وان شاء نصرانیًّا۔“ (مشکوٰة ص:۲۲۲)
      ترجمہ:… ”جس شخص کو حج کرنے سے نہ کوئی ظاہری حاجت مانع تھی، نہ سلطانِ جائر اور نہ بیماری کا عذر تھا، تو اسے اختیار ہے کہ خواہ یہودی ہوکر مرے یا نصرانی ہوکر۔“
      ذرائعِ مواصلات کی سہولت اور مال کی فراوانی کی وجہ سے سال بہ سال حجاجِ کرام کی مردم شماری میں اضافہ ہو رہا ہے، لیکن بہت ہی رنج و صدمہ کی بات ہے کہ حج کے انوار و برکات مدہم ہوتے جارہے ہیں، اور جو فوائد و ثمرات حج پر مرتب ہونے چاہئیں ان سے اُمت محروم ہو رہی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے بہت تھوڑے بندے ایسے رہ گئے ہیں جو فریضہٴ حج کو اس کے شرائط و آداب کی رعایت کرتے ہوئے ٹھیک ٹھیک بجا لاتے ہوں، ورنہ اکثر حاجی صاحبان اپنا حج غارت کرکے ”نیکی برباد، گناہ لازم“ کا مصداق بن کر آتے ہیں۔ نہ حج کا صحیح مقصد ان کا مطمحِ نظر ہوتا ہے، نہ حج کے مسائل و اَحکام سے انہیں واقفیت ہوتی ہے، نہ یہ سیکھتے ہیں کہ حج کیسے کیا جاتا ہے؟ اور نہ ان پاک مقامات کی عظمت و حرمت کا پورا لحاظ کرتے ہیں، بلکہ اب تو ایسے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں کہ حج کے دوران محرّمات کا ارتکاب ایک فیشن بن گیا ہے، اور یہ اُمت گناہ کو گناہ ماننے کے لئے بھی تیار نہیں، انا لله وانا الیہ راجعون! ظاہر ہے کہ خدا اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اَحکام سے بغاوت کرتے ہوئے جو حج کیا جائے، وہ انوار و برکات کا کس طرح حامل ہوسکتا ہے؟ اور رحمتِ خداوندی کو کس طرح متوجہ کرسکتا ہے؟
      سب سے پہلے تو حکومت کی طرف سے درخواستِ حج پر فوٹو چسپاں کرنے کی پخ لگادی گئی ہے، اور غضب پر غضب اور ستم بالائے ستم یہ کہ پہلے پردہ نشین مستورات اس قید سے آزاد تھیں، لیکن ”نفاذِ اسلام“ کے جذبے نے اب ان پر بھی فوٹووٴں کی پابندی عائد کردی ہے، پھر حجاجِ کرام کی تربیت کے لئے ”حج فلمیں“ دِکھائی جاتی ہیں۔ جس عبادت کا آغاز فوٹو اور فلم کی لعنت سے ہو، اس کا انجام کیا کچھ ہوگا یا ہوسکتا ہے؟ اور چونکہ حاجی صاحبان بزعمِ خود حج فلمیں دیکھ کر حج کرنا سیکھ جاتے ہیں اس لئے نہ انہیں مسائلِ حج کی کسی کتاب کی ضرورت کا احساس ہوتا ہے اور نہ کسی عالم سے مسائل سمجھنے کی ضرورت محسوس ہوتی ہے، نتیجہ یہ کہ جس کے جی میں جو آتا ہے کرتا ہے۔
      حاجی صاحبان کے قافلے گھر سے رُخصت ہوتے ہیں تو پھولوں کے ہار پہننا پہنانا گویا حج کا لازمہ ہے کہ اس کے بغیر حاجی کا جانا ہی معیوب ہے۔ چلتے وقت جو خشیت و تقویٰ، حقوق کی ادائیگی، معاملات کی صفائی اور سفر شروع کرنے کے آداب کا اہتمام ہونا چاہئے، اس کا دُور دُور کہیں نشان نظر نہیں آتا۔ گویا سفرِ مبارک کا آغاز ہی آداب کے بغیر محض نمود و نمائش اور ریاکاری کے ماحول میں ہوتا ہے۔ اب ایک عرصہ سے صدرِ مملکت، گورنر یا اعلیٰ حکام کی طرف سے جہاز پر حاجی صاحبان کو الوداع کہنے کی رسم شروع ہوئی ہے، اس موقع پر بینڈباجے، فوٹوگرافی اور نعرہ بازی کا سرکاری طور پر ”اہتمام“ ہوتا ہے۔ غور فرمایا جائے کہ یہ کتنے محرّمات کا مجموعہ ہے․․․!
      سفرِ حج کے دوران نمازِ باجماعت تو کیا، ہزاروں میں کوئی ایک آدھ حاجی ایسا ہوتا ہوگا جس کو اس کا پورا پورا احساس ہوتا ہو کہ اس مقدس سفر کے دوران کوئی نماز قضا نہ ہونے پائے، ورنہ حجاجِ کرام تو گھر سے نمازیں معاف کراکر چلتے ہیں، اور بہت سے وقت بے وقت جیسے بن پڑے پڑھ لیتے ہیں۔ مگر نمازوں کا اہتمام ان کے نزدیک کوئی خاص اہمیت نہیں رکھتا بلکہ بعض تو حرمین شریفین پہنچ کر بھی نمازوں کے اوقات میں بازاروں کی رونق دوبالا کرتے ہیں۔ قرآنِ کریم میں حج کے سلسلے میں جو اہم ہدایت دی گئی ہے وہ یہ ہے:
      ”حج کے دوران نہ فحش کلامی ہو، نہ حکم عدولی اور نہ لڑائی جھگڑا۔“
      اور احادیثِ طیبہ میں بھی حجِ مقبول کی علامت یہی بتائی گئی ہے کہ: ”وہ فحش کلامی اور نافرمانی سے پاک ہو۔“ لیکن حاجی صاحبان میں بہت کم لوگ ایسے ہیں جو ان ہدایات کو پیشِ نظر رکھتے ہوں اور اپنے حج کو غارت ہونے سے بچاتے ہوں۔ گانا بجانا اور داڑھی منڈانا، بغیر کسی اختلاف کے حرام اور گناہِ کبیرہ ہیں۔ لیکن حاجی صاحبان نے ان کو گویا گناہوں کی فہرست ہی سے خارج کردیا ہے، حج کا سفر ہو رہا ہے اور بڑے اہتمام سے داڑھیاں صاف کی جارہی ہیں، اور ریڈیو اور ٹیپ ریکارڈر سے نغمے سنے جارہے ہیں، انا لله وانا الیہ راجعون!
      اس نوعیت کے بیسیوں گناہِ کبیرہ اور ہیں جن کے حاجی صاحبان عادی ہوتے ہیں اور خدا تعالیٰ کی بارگاہ میں جاتے ہوئے بھی ان کو نہیں چھوڑتے۔ حاجی صاحبان کی یہ حالت دیکھ کر ایسی اذیت ہوتی ہے جس کے اظہار کے لئے موزوں الفاظ نہیں ملتے۔ اسی طرح سفرِ حج کے دوران عورتوں کی بے حجابی بھی عام ہے، بہت سے مردوں کے ساتھ عورتیں بھی دورانِ سفر برہنہ سر نظر آتی ہیں، اور غضب یہ ہے کہ بہت سی عورتیں شرعی محرَم کے بغیر سفرِ حج پر چلی جاتی ہیں اور جھوٹ موٹ کسی کو محرَم لکھوادیتی ہیں۔ اس سے جو گندگی پھیلتی ہے وہ ”اگر گویم زبان سوزد“ کی مصداق ہے۔
      جہاں تک اس ارشاد کا تعلق ہے کہ: ”حج کے دوران لڑائی جھگڑا نہیں ہونا چاہئے“، اس کا منشا یہ ہے کہ اس سفر میں چونکہ ہجوم بہت ہوتا ہے اور سفر بھی طویل ہوتا ہے، اس لئے دورانِ سفر ایک دُوسرے سے ناگواریوں کا پیش آنا اور آپس کے جذبات میں تصادم کا ہونا یقینی ہے، اور سفر کی ناگواریوں کو برداشت کرنا اور لوگوں کی اذیتوں پر برافروختہ نہ ہونا بلکہ تحمل سے کام لینا یہی اس سفر کی سب سے بڑی کرامت ہے۔ اس کا حل یہی ہوسکتا ہے کہ ہر حاجی اپنے رفقاء کے جذبات کا احترام کرے، دُوسروں کی طرف سے اپنے آئینہٴ دِل کو صاف و شفاف رکھے، اور اس راستے میں جو ناگواری بھی پیش آئے، اسے خندہ پیشانی سے برداشت کرے۔ خود اس کا پورا اہتمام کرے کہ اس کی طرف سے کسی کو ذرا بھی اذیت نہ پہنچے اور دُوسروں سے جو اذیت اس کو پہنچے اس پر کسی رَدِّ عمل کا اظہار نہ کرے۔ دُوسروں کے لئے اپنے جذبات کی قربانی دینا اس سفرِ مبارک کی سب سے بڑی سوغات ہے، اور اس دولت کے حصول کے لئے بڑے مجاہدے و ریاضت اور بلند حوصلے کی ضرورت ہے، اور یہ چیز اہل اللہ کی صحبت کے بغیر نصیب نہیں ہوتی۔
      عازمینِ حج کی خدمت میں بڑی خیرخواہی اور نہایت دِل سوزی سے گزارش ہے کہ اپنے اس مبارک سفر کو زیادہ سے زیادہ برکت و سعادت کا ذریعہ بنانے کے لئے مندرجہ ذیل معروضات کو پیش نظر رکھیں:
      ﴿ چونکہ آپ محبوبِ حقیقی کے راستے میں نکلے ہوئے ہیں، اس لئے آپ کے اس مقدس سفر کا ایک ایک لمحہ قیمتی ہے، اور شیطان آپ کے اوقات ضائع کرنے کی کوشش کرے گا۔﴾
      ﴿ جس طرح سفرِ حج کے لئے ساز و سامان اور ضروریاتِ سفر مہیا کرنے کا اہتمام کیا جاتا ہے، اس سے کہیں بڑھ کر حج کے اَحکام و مسائل سیکھنے کا اہتمام ہونا چاہئے۔ اور اگر سفر سے پہلے اس کا موقع نہیں ملا تو کم از کم سفر کے دوران اس کا اہتمام کرلیا جائے کہ کسی عالم سے ہر موقع کے مسائل پوچھ پوچھ کر ان پر عمل کیا جائے۔ اس سلسلے میں مندرجہ ذیل کتابیں ساتھ رہنی چاہئیں اور ان کا بار بار مطالعہ کرنا چاہئے، خصوصاً ہر موقع پر اس سے متعلقہ حصے کا مطالعہ خوب غور سے کرتے رہنا چاہئے، کتابیں یہ ہیں: ﴾
      ۱:… ﴿”فضائلِ حج“ از حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا نوّر اللہ مرقدہ۔ ﴾ ۲:… ﴿”آپ حج کیسے کریں؟“ از مولانا محمد منظور نعمانی مدظلہ۔﴾ ۳:… ﴿”معلّم الحجاج“ از مولانا مفتی سعید احمد مرحوم۔﴾ اس مبارک سفر کے دوران تمام گناہوں سے پرہیز کریں اور عمر بھر کے لئے گناہوں سے بچنے کا عزم کریں، اور اس کے لئے حق تعالیٰ شانہ سے خصوصی دُعائیں بھی مانگیں۔ یہ بات خوب اچھی طرح ذہن میں رہنی چاہئے کہ حجِ مقبول کی علامت ہی یہ ہے کہ حج کے بعد آدمی کی زندگی میں دِینی انقلاب آجائے۔ جو شخص حج کے بعد بھی بدستور فرائض کا تارک اور ناجائز کاموں کا مرتکب ہے، اس کا حج مقبول نہیں۔ آپ کا زیادہ سے زیادہ وقت حرم شریف میں گزرنا چاہئے، اور سوائے اشد ضرورت کے بازاروں کا گشت قطعاً نہیں ہونا چاہئے۔ دُنیا کا ساز و سامان آپ کو مہنگا سستا، اچھا بُرا اپنے وطن میں بھی مل سکتا ہے، لیکن حرم شریف سے میسر آنے والی سعادتیں آپ کو کسی دُوسری جگہ میسر نہیں آئیں گی۔ وہاں خریداری کا اہتمام نہ کریں، خصوصاً وہاں سے ریڈیو، ٹیلیویژن، ایسی چیزیں لانا بہت ہی افسوس کی بات ہے کہ کسی زمانے میں حج و عمرہ اور کھجور اور آبِ زم زم، حرمین شریفین کی سوغات تھیں۔ اور اب ریڈیو، ٹیلیویژن ایسی ناپاک اور گندی چیزیں حرمین شریفین سے بطورِ تحفہ لائی جاتی ہیں۔
      چونکہ حج کے موقع پر اطراف و اکناف سے مختلف مسلک کے لوگ جمع ہوتے ہیں، اس لئے کسی کو کوئی عمل کرتا ہوا دیکھ کر وہ عمل شروع نہ کردیں، بلکہ یہ تحقیق کرلیں کہ آیا یہ عمل آپ کے حنفی مسلک کے مطابق صحیح بھی ہے یا نہیں؟ یہاں بطور مثال دو مسئلے ذکر کرتا ہوں۔
      ﴿ ۱:… نمازِ فجر سے بعد اِشراق تک اور نمازِ عصر کے بعد غروبِ آفتاب تک دوگانہ طواف پڑھنے کی اجازت نہیں، اسی طرح مکروہ اوقات میں بھی اس کی اجازت نہیں، لیکن بہت سے لوگ دُوسروں کی دیکھا دیکھی پڑھتے رہتے ہیں۔﴾
      ﴿ ۲:… اِحرام کھولنے کے بعد سر کا منڈوانا افضل ہے، اور ایسے لوگوں کے لئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار دُعا فرمائی ہے، اور قینچی یا مشین سے بال اُتروالینا بھی جائز ہے۔ اِحرام کھولنے کے لئے کم از کم چوتھائی سر کا صاف کرانا یا کرنا ضروری ہے، اس کے بغیر اِحرام نہیں کھلتا، لیکن بے شمار لوگ جن کو صحیح مسئلے کا علم نہیں، وہ دُوسروں کی دیکھا دیکھی کانوں کے اُوپر سے چند بال کٹوالیتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ انہوں نے اِحرام کھول لیا، حالانکہ اس سے ان کا اِحرام نہیں کھلتا اور کپڑے پہننے اور اِحرام کے منافی کام کرنے سے ان کے ذمہ دَم واجب ہوجاتا ہے۔ الغرض صرف لوگوں کی دیکھا دیکھی کوئی کام نہ کریں بلکہ اہلِ علم سے مسائل کی خوب تحقیق کرلیا کریں۔﴾