Download PDF
حقیقت جذب و سلوک

انتساب

حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے نام جن کی کوششوں سے دین اکبری پاش پاش ہوا اور طریقت کے اندر بعض ملحدوں کی سوء فکر سے جو الحاد کے دروازے کھل گئے تھے ان کو بند کرنے کا انتظام ہوگیا۔اس طرح حضرت معین الدین چشتی اجمیریؒ کی کوششوں سے ہند میں جو اسلام کی بنیاد پڑی تھی اس کا احیاۓ ثانی ہوگیا۔اللہ تعالیٰ ان دونوں بلکہ سارے اکابر کے مرقدوں پر کروڑوں رحمتیں نازل فرماۓ۔

دیباچہ

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ الذی ھدٰنالھٰذا و ما کنا لنھتدی لولا ان ھدٰنا اللہُ لقد جاءَت رسل ربنا بالحق وَ خَتَمَھم بافضلھم و اکملھم محمدالذی جاءَ بالصدق صلوَات اللہ سبحانہ و برکاتہ و تحیاتہ علی ہ و علٰی آلہ وعلیھم و علیٰ من تابعھم اجمعین الیٰ یوم الدین

تحقیقات مختلف چیزوں کی ہوتی ہیں ۔اس سے کبھی دنیا کے مسائل حل ہوتے ہیں کبھی آخرت کے ۔آخرت کے جو مسائل ہیں ان میں بھی دو قسم کے ہوتے ہیں ،ایک جو عمل کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں اور ایک جو راستے کی معرفت کے ساتھ ۔یہ دونوں بہت اہم ہیں ۔ان کے بغیر چارہ نہیں۔اگر راستے کی معرفت نہ ہو تو راستہ معلوم نہ ہونے کی وجہ سے ساری محنت اکارت جاسکتی ہے اور اگر راستہ معلوم ہو تو پھر عمل جتنا بھی ہوگا کم ازکم اس کا فائدہ تو ہوگا۔پھر معرفت بھی ایک تو راستے کی ہوتی ہے اور ایک معرفت کے راستوں کی معرفت ۔ظاہر ہے جس کو معرفت کے راستوں کی معرفت ہوگی ایسا شخص نہ صرف یہ کہ خود صحیح چلے گا بلکہ اوروں کو بھی صحیح چلاۓ گا اور غلط چلنے والوں کو دلیل کے ساتھ تنبیہ بھی کرسکے گا۔

تقریباً ہزار سال گزرنے کے بعد اس امت میں جتنے دینی کام ہورہے تھے ان میں افراط تفریط کافی آگیا تھا بالخصوص جو دین پر لانے والے طریقے اور معرفتِ الٰہی حاصل کرنے کے طرق تھے ان میں کم فہمی اور سوء فہمی کی وجہ سے گمراہی بہت تیزی کے ساتھ پھیل رہی تھی ۔اس کے آگے بند باندھنے کے لیےحضرت مجدد الف ثانیؒ کی کوششوں سے اہل حق اچھی طرح واقف ہیں ۔حضرتؒ نے اس سلسلے میں جو کوششیں فرمائی تھیں ان میں ایک بہت ہی مفید طریقہ حضرتؒ کےمکتوبات شریف کا ہے۔ان میں بعض مکتوبا ت کی تو وقتی اہمیت تھی اور بعض مضامین سدا بہار ہیں اور ان کی اہمیت ہمیشہ رہے گی۔حضرت ؒ چونکہ ان مکاتیب میں بعض ایسے فنی اصطلاحات استعمال فرماتے ہیں جن کا سمجھنا آج کل کے دور میں دشوار ہورہاہے اس لیے اس کی تشریح کی ضرورت ہر وقت ہوتی ہے۔

فقیر اس میدان میں کافی پیچھے ہے اور اس نازک کام میں ہاتھ ڈالنا کچھ آسان کام نہیں تھا اس لیےجب اس کام کو کرنے کا اشارہ ہوا تو دل بڑا گھبرا رہا تھا کہ یہ کام کیسے ہوگا لیکن یہ بھی حق ہے جب تشکیل اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہو تو وہ پھر مدد بھی فرماتے ہیں اور اس کی مدد سے ہی سب کچھ ممکن ہے۔پس حضرت مجدد صاحب ؒ کی روحانیت کی برکت سے اللہ تعالیٰ کا ایسا فضل ہوا کہ بندہ بس حیران ہی تھا۔اللہ تعالٰی کرے کہ جیسے امر ہے اس طرح کام ہوجاۓ۔

مکتوبات شریف کی ترتیب بزرگوں نے ادباً حضرت کے ان مکتوبات سے کی ہے جو حضرت ؒ نے اپنے شیخ ؒ کو لکھے تھے لیکن حضرت کے اپنے ذاتی احوال ہوں تو ان کو آج کل کے فارسی ناشناس اور فن ناشناس طالبین کو کیسے سمجھ آۓ گی اس لیےارادہ ہوا کہ شروع حضرتؒ کے اس مکتوب سے کی جاۓ جو حضرت ؒ نے اپنے بھائی میاں غلام محمدؒ کو تحریر فرمایا تھا جس میں حضرتؒ نے جذب اور سلوک کی حقیقت کافی بسط سے بیان فرمائی ہے۔اس لیےاس کا نام بھی توکلاً علی اللہ حقیقت جذب و سلوک رکھتا ہوں ۔اللہ تعالی ٰ اس کی برکت سے ان دونوں کی حقیقت نصیب فرماۓ۔اس میں حضرت کے مکتوب کا ترجمہ حضرت مولانا سید زوار حسین شاہ صاحب کا لیا گیا ہے۔ سب سے پہلے فارسی متن لکھا جاۓ گا تاکہ ترجمہ کے لیےسند بنے اور اس کے اس متن کا مذکورہ ترجمہ لکھا جاۓ گا تاکہ اس کی تشریح کے لیےسند بنے۔ تشریح میں کوشش کی گئی ہے کہ ایسا نظر آۓ جیسا کہ یہ خط آج کل لکھا گیا ہے۔اس میں حضرت ؒکی بات سے اپنی بات کو علیحدہ کرنے کے لیےیہ طریقہ اختیار کیا گیاہے کہ حضرت کی بات رواں انداز اور اپنی بات کو قوسین میں لکھنے کی کوشش کی ہے تاکہ ہر دو باہم ممیز ہوجائیں ۔فارسی مضمون میں پیرہ گرافوں کے جو نمبر ہیں وہی ترجمہ اور تشریح میں بھی ہیں۔ہمارا مقصد اس سے حضرت کے مفاہیم کو آج کل کے حالات کے مطابق اور آج کل کی زبان میں پہنچانا ہے، اللہ کرے کہ اس میں ہم کامیاب ہوں ۔ رَبِّ یَسِّر وَ لاَ تُعَسِّر وَ تَمِّم بِالخَیر۔آمین۔

سید شبیر احمد کاکاخیل عفی عنہ خانقاہ امدادیہ اللہ آباد راولپنڈی

مکتوب 287

بہ میاں غلام محمد در بیان جذبہ و سلوک و معارفی کہ مناسب این دو مقام اند

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

الحمد للہ الذی ھدٰنالھٰذا و ما کنا لنھتدی لولا ان ھدٰنا اللہُ لقد جاءَت رسل ربنا بالحق وَ خَتَمَھم بافضلھم و اکملھم محمدالذی جاءَ بالصدق صلوَات اللہ سبحانہ و برکاتہ و تحیاتہ علیہ و علٰی آلہ وعلیھم و علیٰ من تابعھم اجمعین الیٰ یوم الدین

❖ چون دیدہ شدکہ طالبان بہ واسطۂ دِنائت ہمت وپستیِ فطرت و عَدمِ دریافتِ صحبت شیخِ کاملِ مکمل، مسلک طویل راو مطلب رفیع رابہ راہ قصیر و مقصد وضیع(پست و پائین) فروآوردہ اند وبہ ہر چہ ایشان رادر راہ میسر شدہ، از حقیر و نقیر، اکتفا نمودہ و ہمان را مقصد پنداشتہ و خود رابہ حصول آن کامل و منتہی انگاشتہ (اند)۔ احوالی کہ منتہیانِ راہ و واصلانِ درگاہ، از نجام کار و نہایت روزگارِ خود بیان فرمودہ اند، این جماعت پست فطرت بہ استیلاء قوت متخیلۂ خود، اَن احوال کاملہ رابر احوال ناقصۂ خود تطبیق دادہ اند، ہمان قصہ است، بہ خواب اندر مگر موشی شتر شد۔

از بحرِ عمیق بہ قطرہ، بلکہ بہ صورت قطرہ از دریای عُمّان، بہ رشحہ، بلکہ بہ صورت رشحہ قناعت کردہ اند، چون رابی چون تصور کردہ، ازبی چون بہ چون آرام گرفتہ اند۔ مانند رابی مانند تخیل نمودہ، از بی مانند بہ مانند گرویدہ اند۔

احوالِ جماعہ (ای) کہ بہ تقلید، ایمان بہ بی چون آوردہ اند و بی مانند راگرویدہ، از احوال این طالبان سلوک تمام ناکردہ و تشنگان آرام بہ سراب گرفتہ، بہ مراتب بہتراست۔ از مُحِق تا مُبطِل واز مُصیب تا مُخطی، فرق بسیار است۔ وای بر طالبان بہ مطلب نارسیدہ کہ محدث راقدیم می دانند و چون رابی چون می انگارند۔ اگر بہ کشف غیر صحیح ، ایشان را معذور ندارند وبہ این خطا و غلط مؤاخذہ نمایند ( ربنا لا تو اخذنا ان نسینا او اخطانا)۔

مثلاً شخصی طالب کعبہ شد و از شوق، متوجہ وصول ان گشت۔ اتفاقاً در اثناء راہ، خانۂ (ای) شبیہ بہ خانۂ کعبہ او راپیش آمد۔ اگرچہ اَن مشابہت در صورت است، اَن شخص خیال کرد کہ کعبہ است وہم آنجا معتکف گشت۔ شخصی دیگر خواص کعبہ را از واصلانِ کعبہ معلوم ساختہ، تصدیق بہ کعبہ کرد۔ این شخص ہر چند گامی ازطلب بہ راہ کعبہ نزدہ است، اما غیر کعبہ را کعبہ ندائستہ است و در تصدیق خود مُحق است۔ حالِ او از حالِ طالب مُخطی مزکور بہتراست۔

اَری ، حال طالبی کہ ہر چند بہ مطلب نرسیدہ است، اماغیر مطلب را مطلب ندائستہ است، از حالِ مقلَد مُحق کہ قدمی در راہ مطلب نزدہ است، بہتراست، چہ او با وجود حقیقت تصدیق بہ مطلوب قطع مسافت راہ مطلوب وَلَو فی الجملہ کردہ است۔ پس مزیت او را متحقق باشد۔

وطائفہ (ای) ہم از ایشان ، بہ این کمال خیالی و وصال وہمی، خود رابہ مسند شیخی واقتداء خلق کشیدہ اند و بہ علت منقصت خویش، استعداد بسیاری از مستعدانِ کمالات راضایع ساختہ اند و بہ شومی برودتِ صحبت خود، حرارت طلبِ طالبان رازایل گردانیدہ اند۔ ضَلَّوا فَاَضَلُّوا، ضَاعُوا فَاَضَاعُو۔ (گمراہ شدند و گمراہ ساختند، ضایع و ضایع ساختند) ۔

❖این تخیل کمال واین تو ھَم وصال، در مجذوبان سلوک ناکردہ، از سالکان بہ جذب نار سیدہ بیشتر است، زیراکہ مبتدی و منتہی در صورت جذب متشارکندو بہ ظاہر درعشق و محبت متساوی، اگرچہ فی الحقیقت با یکدیگر ہیچ مناسبت ندارند و احوال یکدیگر از ہمدگر جداست۔ چہ نسبت خاک رایا عالم پاک۔

در ابتدا ہر چہ ہست، معلوم است و بر غرض محمول و در انتھا چون بہ حق است، برای حق است۔ تفصیل این سخن، عنقریب مزکور خواہد شد اِنشاء اللّٰہ تعالیٰ۔ این مشابہت صوری و این مناسبت ظاہری، باعث اَن تخیل می شود۔

❖ و چون در طریقہ علیہ نقشبدیہ، جذبہ برسلوک مقدم است، مجذوبان این طریق راکہ بہ دولت سلوک مشرف نشدہ اند، این قسم تخیل و این نوع تو ہم پر بسیار راست و جمعی راہم از ایشان کہ احوال منقلبہ در مقام جذبہ حاصل می شود و از حالی بہ حالی می روند، قطع منازل سلوک و طی مسالک سیر الی اللّٰہ می انگارند و بہ اَن تقلبات، خود را مجذوب سالک می دانند۔

بہ خاطر فاتر قرار یافت کہ فقرہ (ای) چند نوشتہ شود در بیان حقیقت جذبہ و سلوک و فرق در میان این ہر دو مقام، با ذکر بعضی از خواص ممیزہ ہر یک از دیگر ی وفرق درمیان جذب مبتدی و جذب منتہی و حقیقت مقام تکمیل و ارشاد و علوم دیگر کہ مناسب اَن مقام شد۔ (لیحق الحق و یبطل الباطل ولوکرہ المجرمون) (انفال) فشرعت فیہ بحسن توفیقہ سبحانہ وھو سبحانہ یہدی السبیل ونعم المولی و نعم الوکیل۔ این مکتوب مشتمل است بر دو مقصد و یک خاتمہ۔ مقصد اول؛ در بیان معارفی کہ بہ مقام جذبہ متعلق اند۔ و مقصد ثانی; در اَنچہ تعلق بہ سلوک دارد و در خاتمہ بیان بعضی علوم و معارف متفرقہ است کہ طالبان رادانستن اَنھا کثیر المنفعت است۔

❖ مقصدِ اول ❖ بد ان کہ مجذوبان سلوک تمام ناکردہ ہر چند جذب قوی داشتہ باشند واز ہر راہی کہ منجذب شوند، داخل جرگہ؛ ارباب قلوب اند۔ بی سلوک و تزکیۂ نفس از مقام قلب نمی توانند گذشت و بہ مقلب قلب پیوست۔

انجذابِ ایشان، انجذاب قلبی است۔ محبت شان عرضی است، نہ ذاتی ۔ عرضی است، نہ اصلی، چہ نفس باروح دراین مقام ممتزج است و ظلمت بانور در این معاملہ مختلط (است) بالکلیٔہ از ضیقِ مقام قلب بر آمدن و بہ مقلًب قلب پیوستن و انجذابِ روحی بہ مطلوب پیدا کردن بی تخلَصِ روح ازنفس، از برای توجہ بہ مطلوب و جدا شدن نفس از روح و فرود آمدن او در مقام بندگی، متصوّر نیست۔

مادام کہ این ہر دو فی الحقیقت مجتمع اند، حقیقتِ جامعۂ قلبیہ محکم و بر پاست، انجذابِ خالص روحی متصور نیست و تخلّص روح از نفس، بعد از قطع منازل سلوک و طی مسالکِ سیر الی اللّٰہ و تحقق سیر فی اللہ، بلکہ بعد از حصول مقامِ الفرْق بعد الجمعِ کہ بہ سیر عن اللہ باللہ تعلق دارد، صورت بندد۔

ہرگدا بی مرد میدان کی شود

پشہ اَخر سلیمان کی شود

فظہرالفرق بین جذب المنتہی و جذب المبتدیْ

(پس فرق بین جذب مبتدی و جذب منتہی اشکار شد)۔

❖ شہود این مجذوبان ارباب قلوب در پردۂ کثرت است۔ این معنی را معلوم کنند یا نہ، شھود شان در این کثرت نیست الا عالم ارواح کہ بہ لطافت و احاطہ و سریان، بہ موجدِ خود بہ صورت شبیہ است، ان اللہ خلق ادم علی صورتہ و بہ این مناسبت شہوودِ روح را، شہودِ حق می دانند۔ تعالیٰ و تقدس۔ و احاطہ و سریان وقُرب و معیت ہم بر این قیاس است ، زیراکہ نظر سالک عبور نمی کند مگر تابہ مقام فوق، نہ بہ مقام فوقِ فوق۔

مقامِ ایشان، مقامِ روح است۔ پس نظر شان از مقام روح بالا نرود و مشھود جز روح امر دیگر نباشد، نظر بہ فوقِ روح موقوف است بہ رسیدن بہ مقام روح، و محبت وانجذاب ہم در رنگ شھود است۔

شھود حق۔ سُبحانَہ۔ بلکہ محبت و انجذاب بہ جناب قدس او، وابستہ بہ حصول فنا ست، کہ بہ نہایت سیر الی اللہ معبَر است۔

ہیچ کس راتا نگردد او فنا

نیست راہ در بار گاہ کبریا

❖ اطلاقِ شہود در این مقام، از تنگی میدان عبارت است والا کارخانۂ این بزرگواران بہ ماواء وراء شھود متعارت است، ہمچنان کہ مقصد ایشان بی چون و بی چگونہ است، اتصال ایشان بہ او سبحانہ نیز بی چون و بی چگونہ است، چون رابہ بی چون راہ نیست ۔ لا یحملُ عطایا الملک الا مطایاہ۔

اتصالی بی تکیف بی قیاس

ہست ربُّ الناس را یا جانِ ناس

احاطہ و سریان و قُرب و معیت حق سُبحانہ۔ نزد محققین ارباب سلوک کہ بہ نہایتکار رسیدہ اند،علمی است موافق علماء اھل حق۔ شَکَرَ اللہ تعالیٰ سَعیہم۔ حکم کر دن بہ قُرب ذاتی و امثال اَن، نزد ایشان ازبی حاصلی و دوری است۔ نزدیکان حکم بہ قُرب نمی کنند۔

بزرگی می فرماید❖ نزد ایشان از بی حاصلی و دوری است۔ نزدیکان حکم بہ قُرب نمی کنند ۔بزرگے می فرماید: ہرکہ گوید نزدیکم، دور است و ہرکہ دور است (خود رادور داند) ، نزدیک است، تصوف این است۔

❖ علمی کہ متعلق بہ توحید و جود است منشأ آن انجذاب و محبت قلبی است، ارباب قلوب کہ جذبہ پیدا نکردہ اند و بہ راہ سلوک قطع منازل می نمایند، این علم بہ ایشان مناسب ندارد و ہمچنین مجذوبانی کہ بہ سلوک ازقلب بکلیت متوجّہ بہ مُقلِّب قلب اند، از این علوم تبرّی می نمایند و مستغفر می باشند۔

بعضی از مجذوبان باشند کہ ہر چند بہ راہ سلوک دراَیند و طیً منازل نمایند ، اما نظر شان از مقام مألوف قطع نشود و روبہ فوق پیدا نکنند۔ امثال این علوم دامنِ ایشان نمی گذارد و از این و رطہ نمی تو انند برآمد۔ لہٰذادر عروج بہ مدارج قُرب و صعود بہ معارج قدس کُند و لنگ اند۔ (ربنا اخرجنا من ھذہ القریۃ الظالم اھلھا واجعل لنا من لدنک ولیا واجعل لنا من لدنک نصیراً) (نساء ۷۵) علامت وصول بہ نہایت مطلب تبرّی از این علوم است، چہ ہر چند بہ تنزیہ بیشتر مناسبت پیدا شود، عالم رابا صانع بی مناسبت تر می باید این زمان عالم راعینِ صانع دانستن و یا صانع را محیط پنداشتن بالذات معنی ندارد۔ ماللتراب ورب الارباب۔

❖ معرفت ❖ حضرتِ(خواجہ نقشبند) قدسَ اللّٰہ تعالیٰ سرہ الاقدس۔ فرمودہ اند کہ: مانہایترادر بدایت درج می کنیم۔ معنی این عبارت اَن است کہ انجذاب و محبتی کہ منتہیان (طرق دیگر) رادرنہایت میسر شود، در این طریق در انجذاب و محبتی کہ در ابتدا پیدامی شود، مندرج است، زیراکہ انجذابِ منتہی، انجذاب روحی است و جذب مبتدی ، جذب قلبی۔ و چون قلب بررخ است میان روح و نفس، پس در ضمنِ جذبِ قلبی، جذب روحی نیز حاصل است و تخصیص کردن این اندراج رابہ این طریق، ہرچند این معنی در جمیع جذبات حاصل است، بنابر اَن است کہ اکابراین خانوادہ طریقی از برای حصول این معنی و ضع نمودہ اند و مسلکی از برای و صولِ این مطلب، تعئین کردہ اندو دیگر ان رااین معنی بر سبیل اتفاق میسّر می شود و ضابطہ (ای) بہ دست ندارند۔

و ایضاً این بزرگواران را در مقام جذبہ، شأن خاص است کہ دیگران رانیست و اگرہست نادر است وولہٰذا بعضی ایشان را در این مقام بی اَنکہ قطع منازل سلوک نمایند، فنا و بقائی شبیہ بہ فنا و بقائی ارباب سلوک حاصل می شود و شِربی از مقام تکمیل، کہ شبیہ بہ مقام سیر عن اللّٰہ باللّٰہ ہست، نیز بہ دست می آید کہ بہ اَن تربیت مستعد ان می نمایند۔

تحقیق این مبحث عنقریب تحریر خواہد یافت انشاءاللّٰہ تعالیٰ۔

❖ اینجادقیقہ ای است، باید دانست کہ روح راپیش از تعلق بہ بدن، نحوی از توجہِ مقصود حاصل بود۔ چون بہ بدن متعلق گشت، اَن توجہ زایل شد۔ اکابر این سلسلہ علیہ، طریقی از برای ظہور اَن توجہِ سا بق و ضع نمودہ اند۔ لیکن چون روح متعلّق بہ بدن است، توجہ قلبی حاصل می شودکہ جامعِ توجہِ نفس و روح است و شک نیست کہ توجہِ روحی در توجہِ قلبی

مندرج است، اما توجہ روحی کہ منتہیان راست، بعد از فنائی روح است و بقائی او بہ وجود حقّانی کہ معبَّر بہ بقا بااللّٰہ است۔ وتوجہ روحی کہ در ضمن تو جہِ قلبی است، بلکہ توجہ روح کہ پیش از تعلّق بہ بدن نیز توجہی است کہ با وجودہستی روح است، کہ فنا بہ او راہ نیافتہ است و فرق در میان توجہِ روح باوجودہستیِ روح و توجہ روح با فنا روح، بسیار است۔ پس نہایت گفتن اَن توجہِ روحی مندرج رابہ اعتبار اَن است کہ توجہِ روح است کہ درنہایت ہمین توجہ می ماند و بس۔ پس مراد از اندراجِ نہایت در بدایت، اندراج صورتِ نہایت است در بدایت، نہ حقیقتِ نہایت، کہ اندراج او در بدایت محال است۔ تو اند بود کہ عدم اتیانِ لفظ صورت، برای ترغیب طلبۂ این طریق بودہ باشد۔ وَالْحَقِیقَۃُ مَا حَقَّقْتُ بِعَوْنِ اللِہ تَعالیٰ۔

❖ وسابقان کہ انجذابِ ایشان بی تعمَل و کسب است، بلکہ بہ توجہ و حضور آمدہ اند، اَن اِنجذاب نیز قلبی است واثری است از توجّہِ روح کہ بالکل بہ واسطہ تعلق بہ بدن زائل نشدہ است۔ کسب و تعَمُّل از برای ظہور توجّہِ سابق جماعہ (ای) راست کہ بہ واسطۂ این تعلق توجّہِ سابق رافراموش کردہ اند۔ کسب گویا از برای تنبیہ برتوجہِ سابق است و تذکیر است مر اَن دولت گم شدہ را۔ لیکن ناسیان( فرمواش کنندگان) توجہِ سابق از سابقان مذکورین لطیف الا ستعداداند، چہ نسیان توجہِ سابق بالکلیہ از توجہِ کلی بہ متوجہ الیہ بالفعل و گم شدن در اَن خبر می دہدو عدم نسیان توجہ نہ چنین است۔

غایۃ مافی الباب ❖ درسابقان اَن توجہ، شمول و سریان در کلیہ ایشان پیدا می کندو بدنِ ایشان نیز حکم روح شان می گردد کَمَا ھو شانُ المحبوبین المرادین۔ امافرق درمیان شمولَ محبوبان و شمولِ سابقان در رنگ فرق میان حقیقت شیء و صورت شیء است۔

“ کما ھو الظاہرُ علی اربابہ”

اَری! محبانِ واصل و مریدانِ کامل را این قسم شمول نیز متحقق است، لیکن کالبرق است، دائمی نیست۔ شمولِ دائمی خاصَّۂ محبوبان است۔

❖ معرفت ❖ مجذوبانِ اربابِ قلوب چون درمقام قلب تمکن و رسوخ پیدا کنند و معرفتی و صحوی کہ مناسب اَن مقام است، ایشان رامیسر شود ، می توانند کہ طالبان رافایدہ رسانند در صحبت ایشان انجذاب و محبت قلبی جماعہ طلاب را حاصل شود ، ہر چند از ایشان بہ کمالی نرسند، ایشان خود بہ کمال نر سیدہ اند دیگری را واسطہ حصول کمال نمی توانند شد۔

مشہوراست کہ از ناقص، کامل نیاید۔ افادۂ ایشان ہر قدر کہ باشد، بیش از افادۂ ارباب سلوک است ہر چند بہ نہایت سلوک رسند و جذب منتہیان پیدا کنند، امابہ مقام قلب ایشان رابہ طریق سیر عن اللہ باللہ فرودنیا ور دہ باشند، چہ منتہی غیر مرجوع بہ عالم، مرتبہ تکمیل و افادہ ندارد، چہ او رابہ عالم مناسبتی و توجھی نماندہ تا افادہ تواند نمود۔

❖ وشیخ مقتدا را کہ برزخ می گویند بہ اعتبار آن است کہ او در مقام برزخیت کہ مقام قلب است، فرود آمدہ است و از ہر دوجہت روح و نفس، حظی و افر گرفتہ است۔ از جہت روح، از فوق استفادہ می کنند و از جہت نفس، بہ مادون خود افادہ می نماید، زیراکہ اوراتوجہ حق ۔ سُبحانَہ۔ با توجہ خلق جمع شدہ است، کہ ہیچ کدام حجاب دیگری نیست ۔ پس افادہ و استفادہ معاً (باہم) او را حاصل است۔

بعضی از مشایخ از این بر زخیت، بر زخیت بین الخلق والحق می خواہند و شیخ برزخ را جامع بین التشبیہ و التنزیہ می گویند۔ پوشیدہ نماند کہ این قسم برزخیت کہ بناء اَن بر سُکر است، لائق مقام شیخی کہ مبنای آن بر صحو است، نیست۔

زیراکہ نفس شان در این مقام در غلبات انوار روح مندرج است و ہمان اندراج، منشأ سکر شدہ است۔و در مقام برزخیت قلب، نفس و روح از یکدیگر جداست۔ پس ناچار سُکر رادر آن گنجایش نباشد، بلکہ آنجاہمہ صحواست کہ مناسب مقام دعوت است۔ہٰذا۔

و شیخ کامل راچون در مقام قلب فرودمی آرند بہ واسطۂ برزخیت، مناسبت بہ عالم پیدامی کند و واسطۂ حصول کمالاتِ مستعدانِ کمالات می شود و مجذوبِ متمکن نیز چون در مقام قلب است، بہ عالم مناسبت دارد وتوجہ را از ایشان دریغ نمی دارد و از انجذاب و محبت، اگرچہ قلبی باشد، نیز نصیبی بہ دست آوردہ است۔ لاجرم راہ افادہ بر وی کشادہ است۔بلکہ گو ئیم کہ کمیت افادہ مجذوب متمکن بیش از کمیت افادۂ منتہی مرجوع است و کیفیت افادہ منتہی، زیادہ از کیفیت افادۂ مجذوب است، زیراکہ منتہی مرجوع راہر چند بہ عالم مناسبت پیدا شدہ است، امادر صورت است، فی الحقیقت جداست، منصبغ بہ رنگ اصل است و باقی است بہ او۔

این مجذوب را مناسبت بہ عالم فی الحقیقت است واز جملۂ افراد عالم است و باقی است بہ بقائی کہ عالم بہ آن بقاباقی است۔ پس ناچار طالبان بہ واسطۂ مناسبت حقیقی از مجذوب بیشتر فایدہ گیرند و از منتہی مرجوع کمتر۔ لیکن افادۂ مراتبِ کمالات ولایت،مخصوص بہ منتہی است۔ پس لاجرم در کیفیت افادہ، منتہی راجع باشد۔

❖ و ایضاً منتہی را فی الحقیقت ہمت و توجہ نیست و مجذوب صاحب ہمت و توجہ است۔ بہ ہمت و توجہ کارِ طالب راپیش می برد، ہر چند بہ حد کمال نر ساند۔و ایضاً نہایت توجہی کہ طالبان را از مجذوبان حاصل می شود، ہمان توجہ سابق روح است کہ فراموش کردہ بودند، و در صحبت شان بہ یاد ایشان آمدہ ، بہ طریق اندراج، در توجہ قلبی حاصل گشتہ بہ خلاف توجھی کہ در صحبت منتہیان پیدا می شود، توجہ حادث است کہ پیشتر اصلاً موجود نبود و موقوف بود بر فنای روح، بلکہ بربقای او بہ وجود حقانی، پس لا بد توجہ اول اسھل الحصول باشد و توجہ ثانی، متعسر الوجود، ہر چہ اسھل است، بیشتر است و ہر چہ متعسر است، کمتر۔

از ینجاست کہ گفتہ اند کہ در تحصیل جہت جذبہ، شیخ مقتدا واسطہ نیست، چہ آن نسبت او را اول حاصل شدہ بود کہ بہ واسطۂ نسیان بہ تنبیہ و تعلیم محتاج گشتہ، ولہٰذا این شیخ را شیخِ تعلیم می گویند، نہ شیخِ تربیت، و در جہت سلوک از برای قطع منازلِ سلوک،شیخ مقتدا در کار است و تربیت آن ضروری۔

g❖ شیخِ مقتدا را نشاید کہ این قسم مجذوبِ متمکن رابہ افادۂ عام رخصت بدہد و در مقامِ تکمیل و شیخی نشاند، چہ بعضی از طالبان باشند کہ استعدادِ ایشان بلند افتادہ باشد و قابلیت کمال و تکمیل بر وجہ اتم داشتہ باشند۔ درصحبت این مجذوب اگر افتند، یحتمل کہ آن استعداد ضایع شود و آن قابلیت بر طرف گردد۔

مثلاً زمینی کہ قابلیت تمام ازبرای زراعت گندم داشتہ باشد، اگر تخم جیّد گندم در آن زمین اندازند،بار(ثمر و نتیجہ) بہ اندازۂ استعداد نیکومی آرد و اگر در آن زمین تخم رَدِی گندم یا تخم نخود انداز ند، چہ جاری بار، کہ مسلوب القابلیت گردد و اگر بالفرض شیخ مقتدا مصلحت در رخصت او بیند و معنی افادہ دروی یابد، باید کہ افادۂ او رامقیّد سازدبہ بعضی قیود، مثل ظہور مناسبتِ طالب بہ طریق افادۂ او، و عَدمِ اضاعت استعداد این در صحبت او، و عدمِ طغیان نفس او در این ریاست و اقتدا، چہ ھوای نفسانی از وی زایل نشدہ است بہ واسطۂ عدم تزکیۂ نفس۔

وچون معلوم کند کہ طالب، از وی بہ نہایتافادۂ او رسیدہ است و در استعدادِ طالب ہنوز قابلیت ترقی است، باید کہ بہ وی این معنی را ظاہر سازد و او را رخصت بدہد تاکار خود را از شیخِ دیگر بہ اتمام رساند و خود را منتہی نداناند و بہ این حیلہ راہ زنی مردم نکند و امثال این شرایط کہ مناسب وقت و حال او داند، مذکور ساز د و بہ آن و صیت تمام نمودہ، رخصت بدہد۔

❖ امامنتہیِ مرجوع، در افادہ و تکمیل، محتاج بہ این قیود نیست، چہ او رابہ واسطۂ جامعیت بہ جمیع طُرق و استعدادات مناسبت است۔ ہر کس از وی بہ قدر استعداد و مناسبت ، بہرہ تواند یافت، ہر چند تفاوت در سرعت و بطؤ بہ واسطۂ قوت مناسبت و ضعف آن در صحبتِ شیوخ و مقتدا یان نیز متصور است، اما در اصل افادہ، متساوی الاقدام اند۔

❖ شیخ مقتدا را در وقتِ افادۂ طالب، التجابہ جناب حق سُبحانہ۔ و اعتصام بہ حبل متین او خَوفاً لِمکرِہِ سُبحانہ فی ضمنِ ھذا الا شتھار (بہ خاطر ترس از مکر او تعالیٰ در کنار این شہرت) لازم است و این التجا چہ در این امر، بلکہ در جمیع امور و در جمیع اوقات، حق۔ سبحانہ و تعالیٰ۔ او را عطا فرمودہ است۔ در ہیچ و قتی از اوقات، در ہر فعلی ازافعال، از وی منفک نمی شود۔ (ذٰلکَ فضلُ اللّٰہ یوتیہ من یشاء واللہ ذُوالفضلِ العظیم)(جمعہ)۔

مقصد ثانی۔ دربیان آنچہ تعلق بہ سلوک دارد۔

❖ بدان کہ طالبی چون بہ طریق سلوک متوجہِ فوق گردد، اگر بہ اسمی رب اوست برسد و در آن فانی و مستہلک گردد، اطلاق فنا بر وی درست می آید و بعد از بقا بدان اسم، اطلاق بقا بروی مسلم است و بہ این فنا و بقا، بہ مرتبہ اولیٰ از ولایت مشرف می گردد، لیکن اینجا تفصیل است کہ بسط سخن در آن ضروری است۔

❖ تمھید ❖ فیضی کہ از ذات۔ تعالیٰ و تقدس۔ می رسد، دو نوع است، نوعی است کہ بہ ایجاد و ابقا و تخلیق و تزریق و احیا و اماتت وامثال آنہا تعلق دارد۔ و نوع دیگر بہ ایمان و معرفت و سایر کمالات مراتب ولایت و نبوت متعلق است۔

نوع اول از فیض، بہ توسط صفات است وبس ، و نوع ثانی بعضی رابہ توسط صفات است وبعضی ویگر رابہ توسط شیونات۔ و فرق درمیان صفات و شیونات بسیار دقیق است لا یظہر الا علی آحادٍ من الا ولیاء المحمدی المشربِ و لم یعلم انہ تکلم بہ احد( این فرق ظاہر نشدہ است مگر برای تعدادی از اولیای محمدی المشرب، و کسی نتوانستہ در مورد اَن سخن براند)۔

بالجملہ، صفات در خارج موجودند بہ وجود زائد بر ذات۔ تعالیٰ و تقدس۔ و شیونات، مجرد اعتبار اتند در ذات۔ عَز سُلطانُہ۔ ;❖ این مبحث بہ مثالی روشن گردد۔ آب مثلاً بالطبع از بالا بہ پایان(پائین) فرود می آید۔ این فعل طبعی در وی اعتبار حیات و علم و قدرت و ارادت پیدا می کند، چہ ارباب علم، بہ واسطۂ ثقل خود بہ مقتضای علم خود از بالا بہ پایان می آیند و توجہ بہ فوق نمی کنند۔ و علم تابع حیات است و ارادہ تابع علم است و قدرت نیز ثابت شد، چہ ارادت تخصیصِ احد المقدورین است۔

این اعتبارات در ذاتِ آب بہ منزلۂ شیونات است۔ اگر باو جود این اعتبارات ، صفات زائدہ در ذات آب اثبات کردہ شود، بہ منزلۂ صفات موجود است بہ وجود زائد۔ آب رابہ اعتبارات اولیٰ، حی و عالم و قادر و مرید نمی تو ان گفت۔ از برای این اسامی ثبوتِ صفات زائدہ در کار است۔

پس آنچہ در عبارت بعضی مشایخ در اثبات اسامی مذکورہ از برای آب واقع شدہ است، مبنای آن، عدم فرق است میان شیون و صفات، و ہمچنین حکم بہ نفی و جود صفات نیز، محمول است بر عدم آن فرق۔ و فرق دیگر درمیان شیون و صفات آن است کہ مقام شیون، مواجہ ذی الشان است ومقام صفات نہ چنین۔

❖ محمد رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ و تعالیٰ علیہ و الہ وسلم۔ واولیائی کہ بر قدم وی اند۔ رِضوان اللّٰہ تعالیٰ علیہم اجمعین۔ وصول فیضِ ثانی ایشان رابہ توسط شیونات است و سایر انبیاء و جماعہ (ای) کہ بر اقدام ایشانند، صلواتُ اللّٰہ تعالیٰ و برکاتُہ علی نبینا و علیہم و علی جمیع اَتباعہم۔ وصول این فیض، بلکہ فیض اول ہم ایشان رابہ توسط صفات است۔پس گویم کہ اسمی کہ رب آن سرور است، علیہ الصلوۃ و السلام۔ وواسطۂ وصول فیضِ دویم است، ظل شأن العلم است و این شأن جامعِ جمیعِ شیونِ اجمالی و تفصیلی است و اَن ظل معبَّر بہ قابلیت ذات است۔ تعالیٰ و تقدس۔ مر شأن علم، بلکہ جمیع شیونِ اجمالی و تفصیلی را، لیکن بہ اعتبارِ شمولِ شأن علم مر اینہارا۔

باید دانست کہ این قابلیت اگر چہ برزخ است میان ذات عَز شانہُ۔ و میان شأن العلم، اما چون یک جہت او بی رنگ است و آن جہت ذات است، تعالیٰ شانہُ، در برزخ نیز رنگ آن پیدا نمی شود، پس آن بزرخ بہ رنگ جہت دیگر کہ شأن العلم است، منصبغ است، پس ناچار آن راظل آن شأن گفتہ شد۔و ایضاً ظل شیء عبارت از ظہور شیء است، اگر چہ بہ شبہ و مثال باشد۔

در مرتبہ دویم و چون حصوِل برزخ بعد حصولِ طرفین است، لا جرم این برزخ در وقت مکاشفہ در تحت آن شأن منکشف می شود۔ پس به اعتبار این ظہور تابہ آخر، اطلاق ظلیت مناسب افتادہ(است)۔ ❖ وطائفہ(ای) از اولیاء اللّٰہ کہ بر قدم وی اند۔ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ و علیہم و سلم و بارک۔ اسما يی کہ ارباب ایشان اند، در وصولِ فیض ثانی، ظلال آن قابلیت جامع اند و کالتفاصیل اند مر آن ظل مجمل را۔ و اربابِ سایر انبیاء، صلوات اللّٰہ تعالیٰ و تسلیما نہ علی نبینا وعلیہم۔ وواسطۂ وصول فیض اول و ثانی ایشان را قابلیاتِ اتصافِ ذات است۔ عَز سُلطانہ۔ بہ صفات موجودۂ زائدہ۔

وطائفہ (ای) کہ بر اقدام ایشانند، اربابِ ایشان صفات است در حقِ وصول فیض اول و ثانی و واسطۂ وصول فیض اول مر آن سرور را۔ علیہ الصلوۃ و السلام۔ قابلیت ذات است۔ تعالیٰ و تقدس۔ مر جمیع صفات را۔ گویا قابلیّاتی کہ وسایل فیوض سایر انبیا اند۔ صلوات اللّٰہ و برکاتہ علی نبینا و علیہم۔ ظلال این قابلیت جامع اند و کالتفاصیل اند مر آن جامعِ مجمل را۔

و طائفہ (ای) کہ بر قدم آن سروراند، علیہ وعلیہم الصلوۃ والتحیۃ۔ وسایطِ وصولِ فیضِ اول نیز ایشان را جداست، کہ صفاتند۔ پس محمد یان راوسایلِ وصولِ فیض اول جدا آمد از و سایط وصول فیض ثانی، بہ خلاف دیگران راکہ یکی است۔ 2❖ بعضی از مشایخ ۔ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم۔ کہ ربّ آن حضرت را۔ علیہ الصلوۃ والتحیۃُ در قابلیّت اتصاف منحصر ساختہ اند، منشأ آن ، عدم فرق است شیون و صفات، بلکہ عدم علم است بہ مقام شیون ۔ واللّٰہ یُحقُ الحقَ و ھو یہدی السبیل۔

پس محقق شد کہ ربّ آن حضرت۔ علیہ الصلوۃ والسلامُ و التحیۃ، رب الارباب است، ہم در مقام شیون و ہم درخانۂ سفات و واسطۂ و صولِ ہر دو فیض است۔ و نیز معلوم گشت کہ وصولِ فیضِ مراتب کمالات ولایتِ آن حضرت۔ علیہِ الصلوۃ والسلام۔ از ذات است بی توسطِ امرِ زائد، چہ شیون عین ذاتند، اعتبار زیادتی در ایشان از منتزعاتِ عقل است، ولہٰذا تجلی ذاتی مخصوص او گشت و کُمَّل تابعان او چون از راہ او فیض می گیر ند، ایشان رانیز از این مقام شربی بہ دست آمد و دیگران راچون و سایطِ صفاتی درمیان است و صفات بہ وجود زائد موجوداند، حاجز حصین درمیان افتاد و تجلیِ صفاتی، نامزد ایشان گشت۔

باید دانست کہ قابلیت اتصاف، ہر چند اعتبار است، وجود زائد ندارد، چہ صفات موجوداند نہ قابلیّات اینہا، اما چون قابلیّات در رنگ برازخند میانِ ذات و صفات، بلکہ میان شیون و صفات و برزخ رنگ طرفین خود می گیرد، قابلیات نیز رنگِ صفات گرفتہ، حائلیت پیدا کردہ اند۔

فراق دوست اگر اندک است، اندک نیست

درون دیدہ اگر نیم موست، بسیار است

❖ از این بیان لائح گشت کہ ظہور ذات۔ تعالیٰ و تقدس۔ بی پردہ منافی تجلی شھودی نیست، لیکن تجلیِ وجودی را منافی است۔ ولہٰذا آن سرور را۔ علیہ الصلوۃ والسلامُ والتحیۃ ۔ در جانب و صولِ فیض و جودِ کمالاتِ ولایت حائلی درمیان نیآمد و در جانب وصولِ فیضِ وجودی، حائلی درمیان آمد کہ قابلیت اتصاف است، چنانکہ گزشت۔

گفتہ نشود کہ چون شیون و قابلیّات اینہا از اعتبارات عقل باشند، وجود ذہنی ثابت شد و از آن حجاب علمی لازم آمد۔

غایۃ مافی الباب؛ حُجبِ صفات، خارجی است و حُجبِ شیون، علمی، زیراکہ گویم کہ موجود ذہنی درمیان دو موجود خارجی پردہ نمی شود ۔ مگر موجود خارجی ولو سُلِّم فالحجابُ العلمی یمکنُ ارتفاعہ من البینِ بحصولِ بعضِ المعارف بخلافِ الخارجی فانہ لا یمکنُ زوالہ

(اگر قبول کردہ شودکہ موجود ذہنی درمیان دو موجود خارجی حجاب و حایل می شود پس بہ)

❖ چون این مقدمات معلوم گشت پس بدان کہ اگر محمدی است (خاطر حصول بعضی معارف ممکن است کہ حجاب علمی ازمیان برداشتہ شود بر خلاف حجاب خارجی کہ از بین رفتنش امکان پذیر نیست)۔ منتہای سیر او کہ مسمی بہ سیر الی اللّٰہ است، تابہ ظل شأن است کہ اسم اوست و بعد از فنا در آن اسم، بہ فنای فی اللہ مشرَّف می گردد اگر بہ آن اسم باقی گشت ، بقا باللّٰہ او رانیز میسر گشت و بہ این فنا و بقا در مرتبہ اولیٰ از ولایت خاصۂ محمدیہ۔ علی صاحبھا الصلوۃ والسلامُ والتحیۃ ، داخل می شود۔

و اگر محمدی مشرب نیست بہ قابلیَّت صفت یا نفسِ صفت کہ رب اوست، می رسد و اگر در این اسم فانی گشت، فانی فی اللہ بر وی اطلاق نباید کرد و ہمچنین بر تقدیر بقابہ آن اسم، باقی باللہ نیست، چہ اسم اللّٰہ عبارت از مرتبہ ای است کہ جامعِ جمیع شیون وصفات است وچون در جہتِ شیون، زیادت اعتباری است، عینِ ذاتند و عینِ یکدیگر۔ پس فنادر یک اعتبار فنادر جمیع اعتبارات است، بلکہ فنادر ذات است۔ تعالیٰ و تقدس۔ وہمچنین بقابہ جمیع اعتبارات است۔ پس فانی فی اللّٰہ و باقی باللّٰہ دراین صورت گفتن درست می شود، بہ خلاف درجانبِ صفات کہ موجوداند بہ وجود زائد بر ذات، مغایرتِ اینہا با ذات۔ عزَّ سُلطانُہ۔ و بایکد یگر تحقیقی است، پس فنا دریک صفت مستلزمِ فنا در جمیع نیست۔ وَھَکَذَا الحَالُ فِی البقاءِ۔

پس ناچار این فانی را فانی فی اللّٰہ نباید گفت و باقی را باقی باللّٰہ نہ، بلکہ مطلق فانی و باقی می تو ان گفت یا مقید بہ صفتی، یعنی فانی در صفت علم، یا باقی بہ آن صفت۔ پس ناچار فنای محمد یان اتم آمد و بقایِ ایشان اکمل۔

❖ وایضاً عروج محمدی چون بہ جانب شیون است و شیون رابا عالم ہیچ مناسبتی نیست، چہ عالم ظل صفات است، نہ ظل شیون،

پس فنای سالک در شأنی مستلزمِ فنای مطلق او باشد، برنہجی کہ ہیچ بقائی وجود سالک واثر او نماندو ہمچنین بر تقدیر بقابہ تمامیِ خود باآن شأن باقی می گردد، بہ خلاف فانی درصفت کہ بہ تمام از خود نمی برآید و اثرش زائل نمی گردد، چہ وجودِ سالک، اثر ہمان صفت است و ظل آن۔ پس ظہور اصل، ماحیِ ( محو کنندہ) وجود ظل بالکل نباشد و بقابہ اندازۂ فنا است۔

پس محمدی (المشرب) از رجوع بہ صفات بشریت ایمن باشد و از خود ردّ، محفوظ، او بہ کلی از خود برآمدہ است و بہ او۔ سبحانہ۔ باقی گشتہ، در این محل عود ممنوع باشد، بہ خلاف در صورتِ فنای صفاتی کہ عود در آنجابہ واسطۂ بقای اثرِ وجود سالک ممکن است۔ از اینجا تو اند بود اختلافی کہ درمیان مشایخ۔ قدس اللّٰہ تعالی اسرار ہم ۔ در جواز رجوع واصل و عدم جواز آن، واقع است، حق آن است کہ اگر محمدی است، محفوظ است از عود والاّ در خطراست ۔

❖ وہمچنین است اختلافی کہ در زوال اثرِ وجودِ سالک بعد ازفنا یِ او واقع است۔بعضی بہ زوالِ عین و اثر قائل گشتہ اند و بعضی دیگر زوالِ اثر راجائز نداشتہ اند، حق در این باب نیز تفصیل است۔اگر محمدی (المشرب) است، عین واثر، ہر دو راگم می سازدو غیر او را اثر زایل نمی شود، چہ صفت کہ اصل اوست ، باقی است۔ پس زوال ظل آن رأساً ممکن نباشد۔

اینجا دقیقہ ای است، باید دانست کہ مراد از زوالِ عین و اثر، زوالِ شھودی است ، نہ وجودی، چہ قول بہ زوالِ وجودی مستلزم الحاد و زندقہ است۔

وجماعہ(ای) از این طائفہ، زوالِ وجودی تصور کردہ اند، از زوالِ اثرِ ممکن گریختہ اندو آن راالحاد و زند قہ دانستہ اند۔ والحقُ مَا حققت باعلامہ سبحانہ۔

عجب است کہ باو جودِ قول بہ زوالِ وجودی ، بہ زوالِ عین نیز قائل گشتہ اند، چہ حکم بہ زوالِ عین وجود در رنگ حکم بہ زوالِ اثر، مستلزم الحاد و زندقہ است۔بالجملہ، زوالِ وجودی در عین واثر محال است و شھودی در ہر دو ممکن بلکہ واقع، لیکن مخصوص بہ محمدی مشرب است۔

پس محمد یان بہ تمام از قلب برمی آیند و بہ مقلب قلب می پیوندند، اس تقلب احوال آزادند و از رقیّت ماسوای بالکلیہ مُحرّر۔ و دیگران راچون و جودِ آثار دامنگیر است و تقلب احوال، نقد وقت۔ مَخلصی از مقام قلب ندارند، چہ و جودِ آثار و تقلب احوال از شُعبِ تنویرِ حقیقتِ جامعۂ قلبیہ است۔ پس شھود دیگران ہمیشہ در پر دہ باشد، شہ چه هر قدر بقایای وجود سالک ثابت است، پردۂ مطلوب ہمان قدر است و چون اثر باقی است، پرده ہمان اثر است۔

❖معرفت ❖ اگر سالک از راہ سلوک غیر متعارف در مرتبہ (ای) از مراتب، فوقِ اسمی کہ ربّ اوست برسد و بی آنکہ بہ آن اسم رسد آن مرتبہ فانی و مستہلک گردد، فانی فی اللّٰہ در آن صورت گفتن نیز درست است و ہمچنین است بقابہ آن مرتبہ۔ پس تخصیص فنا فی للہ بہ آن اسم، بہ اعتبار آن است کہ آن مرتبہ اولیٰ است از مراتب سایر افنیہ۔

❖ معرفت ❖ سلوک انواع است۔ بعضی رابی تقدم جذبہ است و بعضی دیگر را جذبه برسلوک شان مقدم است۔ و جماعہ (ای) را در اثناء قطع منازل سلوک، جذبہ حاصل می شودر جمعی راطی منازل سلوک شان میسر می شود، اماتابہ حد جذبہ نمی رسند۔

تقدم جذبہ محبوبان راست و باقی اقسام بہ محبین تعلق دارد۔ سلوک محبان عبارت از طی مقامات عشرۂ مشہوراست بہ ترتیب و تفصیل۔ و در سلوک محبوبان خلاصۂ مقامات عشرہ حاصل می شود، بہ ترتیب و تفصیل کاری ندارند۔ علم بہ و حدت و جود مانند آن از احاطہ و سَرَیان و معیت ذایتہ بہ جذبہ مقدَّم یا متوسط وابستہ است۔ سلوک خالص و جزبہ منتہیان رابہ امثال این علوم مناسبت نیست ، چنانکہ بالا گذشت۔ و حق الیقین منتہیان رانیز بہ علوم مناسبہ توحید و جود مناسبت نیست۔ ہر جابیان حق الیقین بہ مقام مناسب ارباب توحید وجود کردہ اند، آن حق الیقین مجذوبانِ مبتدی یا متوسط است۔

❖ معرفت ❖ بعضی مشایخ فرمودہ اند کہ چون کار طالب بہ جذبہ بر سد، بعد از آن، راہبر ہمان جذبہ است و بس، یعنی احتیاج بہ توسّط راہبر دیگر ندارد، ہمان جذبہ کافی است۔ اگر از بین جذبہ، جذبۂ سیر فی اللّٰہ ارادہ نمودہ اند، بلی کافی است، امالفظ راہبر، منافی این ارادہ است، چہ بعد از سیر فی اللّٰہ مسافتی نیست کہ در قطع آن محتاج بہ راہبر باشد و ہمچنین جذبۂ متقدم ہم مراد نیست، چنانکہ متبادر از عبارت است۔

پس ناچار جذبۂ متوسط ارادہ نموده باشند و کفایت او در وصول بہ مطلوب نمی شود، چہ بسیاری از متوسطان در وقت حصول این جذبہ، از عروج بہ فوق تقاعد نمودہ و ہمان جذبہ راجذبۂ نہایت انگاشتہ(اند)۔ اگر کافی می بود در اثناء راہ نمی گذاشت۔

آری ! جذبۂ متقدم چون بہ محبوبان تعلق دارد، اگر کافی باشد، گنجایش دارد، محبوبان رابہ قلّاب عنایت خواہند کشید و در اثناء طریق نخواہند گذاشت، اما این کفایت در حق جمیع جذباتِ متقدم ہم ممنوع است۔

جذبہ(ای) کہ انجام کارِ او بہ سلوک کشد، کافی است و اگر بہ سولک نیآمد، مجذوب ابتر است، ازمحبوبان نیست۔

❖ خاتمہ ❖ طائفہ (ای) از مشایخ ۔ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم۔ گفتہ اند کہ تجلیِ ذاتی مذيلِ شعور است و معطّل حس۔ بعضی از ایشان از حال خود چنین گفتہ اند کہ دروقت ظہور این تجلیِ ذاتی، تا مدتی بی حس و حرکت افتادہ بودند و مردم (ایشان را) مُردہ می انگاشتند و بعضی دیگر منع کلام و جز آن در تجلیِ ذات کردہ اند۔

حقیقت این سخن آن است کہ این تجلیِ ذات، در پردہ اسمی است از اسما و بقاء پردہ بہ واسطۂ بقایای اثر و جودِ صاحبِ تجلی است و آن بی شعوری بہ واسطۂ آن بقیہ است۔ اگر بہ تمام فانی می گشت و بہ بقاباللّٰہ مشرّف می شد، آن تجلی ہر گز او رابی شعور نمی ساخت۔

یُحرقُ بالنار من یمس بھا

و من ھو النار کیف یحرق

(کسی کہ آتش رالمس کند و بہ آن دست بزند، سوختہ می شود، و کسی کہ خود ش مثل آتش است، چگونہ سو زاندہ می شود)

اول ماسّ (مس کنندہ) نار است۔ ہر آئینہ بسوزد و متلاشی شود و ثانی عینِ نار است۔ فکیف یحرق بلکہ گو ئیم آن تجلی کہ در پردہ است، تجلی ذات نیست، داخل تجلیِ صفات است۔ تجلیِ ذات کہ مخصوص آن حضرت است۔ علیہ الصلوۃ و السلام و التحیۃ۔ تجلیِ بی پردہ است و علامت پردہ، بی شعوری است و بی شعوری از دوری است و دلیل بی پر دگی۔ شعور است و شعور در کمالِ حضور است۔

بزرگی از حالِ صاحب این تجلی کہ بالاصالت والا ستقلال است، چنین خبر داد: علیہ الغفرانُ۔ آنجاکہ گفت:

موسی زہوش رفت بہ یک پر توی صفات تو عینِ ذات می نگری، در تبسّمی

رہمین تجلیِ ذاتی کہ بی پردہ است، محبوبان را دائمی است و محبان را برقی، زیراکہ

ابدانِ محبوبان، رنگ ارواح شان گرفتہ اند، آن نسبت در کلیہ ایشان سرایت کردہ است و در محبان این سرایت بر سبیل ندرت است و آنچہ در حدیث نبوی۔ علیہ من الصلواتِ اتمھا و من التحیاتِ اکملھا۔ واقع شدہ است لی مع اللّٰہ وقتُ مراد از وقت ، نہ این تجلی برقی است، زیراکہ این تجلی در حق آن سرور کہ بادشاہ مراد آن است۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ دائمی است، بلکہ نوعی از خصوصیت در این تجلی دائمی است کہ آن بر سبیل قلت واقع است کما لا یخفی علی اربابہ۔

❖ معرفت❖ مشایخ۔ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسرارہم۔ دربیان حدیث۔ لی مَعَ اللہِ وَقتٌ لا یَسَعنی ففیہِ مَلَکٌ مقربٌ و لا نَبیٌ مُرسَل ۔ دو طائفہ اند۔ جمعی از وقتِ مستمرّ ارادہ نمود اندو جمعی دیگر بہ ندرتِ وقت قائل گشتہ اند۔ و حق آن است کہ باوجود استمرار وقت، وقت نادر نیز متحقق است۔ کما مرَّت الاِشارۃُ الیہ انفاً۔

ونزہ این حقیر، تحقق ان وقت نادر، در وقت اداء نماز است و ہمانا کہ آن سرور علیہ الصلوۃ والسلام۔ در حدیث قرۃ عیبی فی الصلوۃ بہ۔ آن اشارت فرمودہ است و ایضاً آن سرور فرمودہ ۔ علیہ الصلوۃ والسلام والتجیۃ۔ اقربُ مایکون العبد من الرب فی الصلوۃ و قال تبارک و تعالیٰ (واسجد واقترب) پس در ہر وقتی کہ قرب الھی۔ جل شانہُ ۔ بیشتر است۔ گنجایش غیر در آن وقت مستفی است۔ و آنچہ بعضی از مشایخ۔ قدس اللّٰہ تعالیٰ اسراراہم۔ فرمودہ است واز قوت حال خود و استمرار آن چنین خبر دادہ است ﴿حیث قال حالی فی الصلوۃ کحالی قبل الصلوۃ فالا حادیث المذکورۃ بل النص المذکور ینفی المساواۃ والا ستمرار ﴾

باید دانست کہ استمرارِ وقت متحقق است، سخن در آن است کہ با وجود استمرار، حالتی نادرہ ہم واقع است يانہ۔ جمعی راکہ بر ندرت وقت اطلاح ندادہ اند۔ بہ نفی آن قائل گشتہ اندو جمعی دیگر راکہ از آن مقام بہرہ دادہ اند، بہ آن اعتراف نمودہ اند و الحق کسی را کہ بہ طفیل آن حضرت علیہ الصلوۃ والنجیۃ، در نماز جمعیت دادہ اند و از دولت قرب آن شربی ارزائی داشتہ اند، اقل قلیل اند۔ رزقنا اللہ سُبحانہ بکمال کرمہِ نصیبا من ھذا المقام بحرمۃِ محمد علیہ و علی الہ الصلوۃ والتحیۃ والسلام۔

❖ معرفت ❖ منتہانِ ارباب صفات در علوم معارف بہ مجذوبان نزدیک اند و از دولت در شھود، ہر دو شان نیز یکر نگ۔ چہ ہر دو از ارباب قلوب اند۔

غایۃ مافی الباب؛ اربابِ صفات از تفاصیل مطلع اندبہ خلاف مجذوبان و ایضاً ارباب صفات بہ واسطۂ سلوک و عروج بہ فوق، قرب بیشتر دارند از مجذوبانِ عروج ناکردہ، لیکن محبت اصل دامنگیر شان است، اگرچہ حجب در میان است۔ چہ عجب اگر بہ حکم المرءُ مع من احب در مجذوبان نیز قرب و معیت اصل اعتبار کردہ شود۔ پس مجذوبان در محبت، مناسبت بہ محمدیان دارند چہ حب ذاتی ۔ ولو مع الحُجُب۔ در مجذوبان نیز متحقق است۔

❖ معرفت ❖ در عبارت بعضی از این طایفہ واقع است کہ اقطاب را تجلیِ صفات است و افراد را تجلیِ ذات۔ در این سخن مجال تأمَل است۔ چہ قطب محمدی مشرف است۔ محمدیان راتجلی ذات است۔ آری ! در این تجلی نیز تفاوت ھاست ۔ قربی کہ افراد راست، اقطاب رانیست، اما ہر دو را از تجلیِ ذاتی نصیبی است، مگر آنکہ گویم کہ از (قطب) قطبِ ابدال مراد داشتہ باشند، کہ بر قدم حضرت (اسرافیل) است، نہ بر قدم (محمد)۔

❖معرفت ❖ اِن اللّٰہ خَلق اٰدمَ علی صورَتہِ۔اللّٰہ تعالیٰ بی چون و بی چگونہ است، روح آدم راکہ خلاصۂ اوست بر صورت بی چونی و بی چگونگی آفرید۔ پس ہمچنان کہ حق۔ سُبحانہ و تعالیٰ۔ لا مکانی است، روح نیز لا مکانی آمد و نسبت روح با بدن ہمچو نسبت اوست۔ تعالیٰ و تقدس۔ با علم۔ نہ داخل است، نہ خارج متصل است، نہ منفصل ، بیش از قیومیت نسبتی مفھوم نمی شود۔ ہر ذرہ از ذراتِ بدن را مقوم، روح است، ہمچنان کہ اللّٰہ تعالی قیوم عالم است، قیومیت او تعالیٰ مربدن رابہ واسطۂ قیومیت روح است۔ ہر فیضی کہ وارد می شود، محل ورود آن فیض ابتدآ روح است و بہ واسطۂ روح، آن فیض بہ بدن می رسد و چون روح بہ صورت بی چونی و بی چگونی آفریدہ شد، لا جرم بی چون و بی چگون حقیقی را در وی گنجایش آمد۔ لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولکن یسعنی قلب عبدی المومن۔ چہ ارض و سما با وجود وسعت فراخی چون داخل دائرہ مکانند و بہ داغ چونی و چگونگی متسم، گنجایش لا مکانی کہ مقدس از چندی و چونی است، ندارند ۔

لامکانی در مکان گنجایش ندارد و بی چون در چون آرام نمی گیرد، پس ناچار گنجایش در قلب عبد مومن کہ لامکانی است و مبرا از چندی و چونی است، مستحق گشت، تخصیص، بہ قلب عبد مومن بنا بر آن است کہ قلب غیر مومن کامل، از اوج لا مکانی فرد دہ آمدہ است و گرفتار چندی و چونی شدہ و حکم آن گرفتہ۔ پس بہ واسطۂ این نزول و گرفتاری چون کہ داخل دائرہ مکانی شدہ است و چونی پیدا کردہ است، آن قابلیت راضابع ساختہ است (اُولیک کالانعام بل ہم اضل)

و از مشایخ، ہر کہ از وسعت قلب خود خبر دادہ است مرادش لا مکانیت قلب بودہ باشد چہ، مکانی ہر چند وسیع است، اماتنگ است، عرش با وجود عظمت و فراخی، چون مکانی است ہر آبینہ در جنب لا مکانی کہ روح است، حکم دائہ خردل دارد بل اقل بلکہ گویم این قلب چون کہ محل تجلی انوار قدم شدہ است، بلکہ بقای بہ قدیم یافتہ عرش و ما فیھا اگر درو افتند، محر و متلاشی گردند و اثری از اینہا باقی، نماند،

کما قال سید الطائفۃ فی ھذا المقام ، ان المحدث اذا قورن بالقدیم لم یبق لہ اثر۔

این لباسی است یکتا کہ خاص بر قد روح دوختہ اند، ملائکہ نیز این خصوصیت ندارند (انھا نیز) داخلِ دائرہ مکانند و متصف بہ چونند ۔ لا جرم انسان، خلیفہ رحمن آمد۔ جل سلطانہ۔ بلی صورت شی خلیفہ شیء است، تابر صورتِ شیء مخلوق نباشد، خلافت شیء رانشاید و تاخلافت را شایان نباشد، تحمل بار امانتِ اصل خود نتو اند کرد،

لایحمل عطایا الملک الا مطایاۂ۔ قال تبارک وتعالیٰ ( انا عرضنا الامانۃ علی السموات والارض و الجبال فابین ان یحملنھا و اشفقن منھا و حملھا الانسان انہ کان ظلوما جھولا)

کثیر الظلم علی نفسہ بحیت لا بیقی من وجودہ و توابع وجودہ اثر ا ولا حکما۔ کثیر الجھل حتی لا یکون لہ ادراک یتعلق بالمقصود ولا علم لہ نسبہ الی المطلوب بل العجز عن الادراک فی ذلک لموطن ادراک والا عتراف بالجھل معرفۃ اکثر ہم معرفہ باللہ اشدُہم تحیرا فیہ۔۔

تنبیہ❖ اگر در بعضی عبارات، لفظی کہ موہم طرفیت یا مظروفیت است ، درشان او۔ تعالیٰ و تقدس۔ واقع می شود، حمل بر تنگی میدان عبارت می باید کرد و مراد کلام ر مطابقِ آرای علما احل سنت می باید داشت۔

❖ معرفت ❖ عالم چہ صغیر و چہ کبیر، مظاہر اسماء وصفات الھیہ است۔ تعالیٰ شانہ۔ و مرایای شیون و کمالاتِ ذاتیہ او۔سبحانہ و تعالیٰ و او۔سبحانہ وتعالیٰ۔ گنجی بود مکنون و سری بود مخزون (پوشیدہ) خواست کہ از خلابہ ملا عرض دحد واز اجمال بہ تفصیل آرد، عالم را آفرید تا دلالت کند بر اصل خویش و علامت باشد بر حقیقت خود ۔ پس عالم رابا صانع بی چون ہیچ نسبتی نیست الا انکہ عالم، مخلوق اوست و دلیل است بر کمالاتِ مخرونۂ او۔ تعالیٰ وتقدس۔ ماوراء این ہر حکمی کہہست، از جنس اتحاد و عینیت و احاطہ و معیت، از سُکرِ وقت وغلبۂ حال است، اکابر مستقیم الاحوال کہ از قدحِ صحو، ایشان راشِربی ارزانی داشتہ اند، از این علوم متبری و مستغفراند، اگرچہ بعضی ایشان رادر اثناء راہ این علوم حاصل می شود، اما بالاخرہ از اینہا می گذرانند و مطابق علوم شریعت علوم لدنی برایشان ایراد می فرمایند۔

مثالی از برای تحقیق این مبحث بیان کنیم ۔ عالِمی نحریری(زیرکی) ذوفنونی ( صاحب کمالات و فن ھای گونا گون) خواہد کہ کمالاتِ مخزونۂ خود را در عرصۂ ظہور آرد و فنون مکنونۂ خود رابر ملا جلوہ دہد ایجاد حروف و اصوات نمایدتا در پردۂ آن حروف و اصوات، آن کمالات ر امتجلی سازد و آن فنون را اظہار نماید، پس در این صورت، این حروف و اصواتِ دوال رابا معانی مخزونہ، بلکہ با آن عالمِ موجد، ہیچ نسبتی نیست، الا انکہ آن عالمِ ، موجد اینہا ست واینہا دوال اند بر کمالات مکنونۂ او۔

حروف و اصوات راعینِ آن عالمِ موجد یا عینِ آن معانی گفتن، معنی ندارد و ہمچنین حکم بہ احاطہ و معیت در این حادثہ، غیر واقع است، معانی بہ ہمان صرافت مخزونہ اند۔ آری! چون در میان معانی و صاحب معانی، ودر میان حروف و اصوات مناسبت دالیت و مدلولیت متحقق است، بعضی معانی زائدہ منزۃ و مبراست و این حروف و اصوات در خارج موجودند، نہ آنکہ آن عالمِ و معانی موجودند و آن حروف و اصوات، اوھام و خیالات اند۔ پس عالم کہ عبارت از ماسوای است در خارج موجود است بالوجود الظلیِ و الکون التبعی نہ آنکہ عالم، اوھام و خیالات است۔ این مذھب بہ عینہ مذھب (سوفسطائی) است کہ عالم را او ھام و خیالات می داند۔ اثبات حقیقت در عالم نمودن ، عالم رااز اوھام و خیالات نمی برآرد، حقیقت موجود شد، نہ عالم، زیراکہ عالم ورای آن حقیقت مفروضہ است۔

❖ تنبیہ ❖ مراد از مظہریت و مرآتیتِ عالم مر اسما و صفات را مر آتیت اوست مر صورِ اسماء و صفات را، نہ اسما و صفات رابہ اعیانھا، چہ اسم در رنگ مسمّیٰ محاطِ ہیچ مرآت نمی شود و صفت ہمچون موصوف مقید ہیچ مظہر نمی گردد۔

درنگنای صورت معنی چگونہ گنجد در کلبہ گدایان سلطان چہ کار دارد

❖ معرفت ❖ کُمّل تابعانِ آن سرور را۔ علیہ الصلوۃ والسلام والتحیۃ۔ اگرچہ بہ واسطۂ اتباع آن حضرت، علیہ الصلوۃ والسلام والتحیۃ۔ از تجلیِ ذات کہ بالا صالت خاصۂ آن حضرت است۔ علیہ الصلوۃ والسلام۔ نصیب است و سایر انبیاء را۔ علی نبینا وعلیہم الصلواتُ و التحیاتُ و التسلیماتُ۔ تجلیات صفات است و تجلیِ ذات اشرف است از تجلیِ صفات، لیکن باید دانست کہ انبیاء را علی نبینا وعلیہم الصلوات والتحیاتُ۔ در تجلیاتِ صفات مراتب قُرب حاصل است کہ کمل تابعانِ این امت رانیست، باوجود تجلیِ ذات بہ طریق تبعیت۔ مثلاً شخصی بہ محبتِ جمال آفتاب، مدارج عروج راطی کردہ بہ آفتاب برسد و در میان آفتاب و او، غیر از حائل رقیقی نماند و شخصی دیگر رابا وجود محبتِ ذات آفتاب در عروج بہ آن مراتب عاجز است، ہر چند میان او و آفتاب حائلی درمیان نیست ، شک نیست کہ شخص اول نزدیکتر است بہ آفتاب و عالمتر است بہ کمالات دقیقۂ او۔ پس در ہر کہ قُرب بیشتر است و معرفت زیادہ تر، فاضل تراست۔ پس ہیچ و لی از اولیاء این امت کہ خیر الامم است باوجود افضلیت پیغمبر خویش، بہ مرتبۂ ہیچ نبی از انبیا نر سد، اگرچہ او رابہ واسطۂ متابعت پیغمبر خویش، از مقام مابہ الا فضلیت نصیبی حاصل شود۔ فضلِ کُلی انبیا راست، اولیا طفیلی اند، ولیکُنِ ھذا اخرا الکلام۔

الحمدُ للہ سُبحانہ علی ذلک و علی جمیع نعمائہ والصلوۃ والسلام علی افضلِ انبیائہ و علی جمیع الانبیاء والمرسلین والملئکۃِ المقربین و علی الصدیقین و الصالحین۔۔

 

ترجمہ حضرت سید زوار حسین شاہ صاحب ؒ

❖ جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ طالبانِ طریقت اپنی کم ہمتی پست فطرتی اورشیخ کامل و مکمل کی نایابی کی وجہ سے راہِ سلوک کا طویل راستہ اور بلند مطلب کو مختصرراستے اور پست مقصد میں پڑھ کر نیچے لے آئے ہیں، اور اس راہ میں ان کو جو کچھ بھی حقیر اور معمولی چیز میسر آئی اسی پر اکتفاء کر لیا، اور اسی کو اپنا مقصد سمجھ بیٹھے ہیں،اس کے حاصل ہونےسے خود کومنتہی اور کامل تصور کر لیا،اور وہ احوال جو منتہی راہ، اور واصلانِ درگاہ نے اپنے انجامِ کار اور نہایتِ روزگار کی وجہ سے بیان فرمائے،یہ پس فطرت جماعت اپنی قوت متخیلہ کے غلبہ کی وجہ سے ان کے کامل احوا ل کو اپنے ناقص احوال پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں،یہ تو ایسا ہے کہ

خواب اندر مگر موشے شتر شد

خواب میں چوہا بنا ہے اونٹ کیا

انہوں نے بحر عمیق سے ایک قطرہ کی مانند یا دریا ۓ عمان سے ایک بوند پر قناعت کر لی ہے،اور چون کو بے چون تصور کر کےبے چون پر آرام اور اتفاق کر بیٹھے ہیں،اور مانند کو بے مانند اور مثل کو بے مثل خیال کر کے، بے مانند کو چھوڑ کر مانند پر فریفتہ ہو گئے ہیں (بخلاف ) اس جماعت کے جس کا حال یہ ہے کہ تقلید کی وجہ سے بے ما نند(بے چون) ذات پر ایمان لائے ہیں ۔اور بے مانند (بےمثل)ذات کے گرویدہ ہو گئے ہیں،ان نا تمام طالبان سلوک کے احوال سے، اورسراب کے ساتھ آرام حاصل کرنے والوں کےحالات سےمرتبہ میں کئی درجہ بہتر ہے، حق اور باطل ، صحیح اور خطا کار کے درمیان بہت بڑا فرق ہے۔

اور ان طالبوں پر جو ابھی مطلب و مقصد تک نہیں پہنچے اور جو حادث کو قدیم جانتے ہیں اور چون کو بے چون خیال کرتے ہیں اگر ان کے غلط کشف پر ان کو معذور نہ رکھا گیا اور ان کی اس خطا و غلطی پر مؤاخذہ کیا گیا تو ان کے حال پر بہت افسوس ہے۔ربنا لا تواخذنا ان نسینا اؤ اخطأ نا۔

مثلاًایک شخص طالب نا رسیدہ کعبہ معظمہ کا طالب ہوا ، اور شوق کے ساتھ اُس تک پہنچنے کے لیےروانہ ہوا، اتفاقاً سفر کے دوران خانہ کعبہ جیسا ایک مکان اُس کو نظر آیا، کیونکہ وہ مکان صرف صورت میں خانہ کعبہ کے مشابہ تھا،اس لیے اُس شخص نے خیال کیا کہ یہ خانہ کعبہ ہے،لہٰذا وہ یہاں ہی معتکف ہو گیا،ایک اور دوسرے شخص نے کعبہ کی خصوصیات کو واصلانِ کعبہ سے دریافت کر کے، کعبہ کی تحقیق کی، اُس شخص نے اگرچہ کعبہ کے طرف ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا،لیکن اُس نے کعبہ کو غیر کعبہ بھی نہیں سمجھا،یہ شخص اپنی تصدیق میں سچا ہے،اُس کاحال اُس مذکورہ خطاکار سے بہتر ہے۔ ہاں اُس طالب کا حال جو ابھی مطلب تک تو نہیں پہنچا،لیکن غیر مطلب کو مطلب بھی نہیں سمجھا،یعنی اصل مطلب کو نہیں چھوڑا اور منزل کی طرف کچھ راستہ طے کیا ہے،اُسں مقلد محق کے حال سے جس نے مطلب کےراستےمیں ایک قدم بھی نہیں اُٹھایا سے بہتر ہے کیونکہ اس نے منزل کی جانب کچھ فاصلہ بھی طے کیا ہے۔ اس لیےفضیلت اس کے لیے ثابت ہوگئی۔

اُن میں ایک گروہ نے اس خیالی کمال اور وہمی وصال کی بنیاد پر پیری ،مسند اور مخلوق کی پیشوائی کو منتخب کیا،اور اپنےنقصان کی وجہ سے بہت سے کمالات رکھنے والے لوگوں کی استعداد کو ضائع کر دیا ہے، اور اپنی صحبت کی ٹھنڈک کی بد قسمتی کی وجہ سےطالبوں کی گرمی کو ضائع کر رہے ہیں،خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا،خود بھی ضائع ہوئے اور دوسروں کو بھی ضائع کیا۔

w ❖ کمال کا تخیل اور وصال کا وہم سالکانِ بجذب نارسيده کی نسبت مجذوبانِ سلوک ناکردہ میں زیادہ ہوتا ہے کیونکہ مبتدی اور منتہی جذب کی صورت میں ایک دوسرے کے شریک ہیں اور بظاہر عشق و محبت میں مساوی ہیں ۔اگر چہ حقیقت میں وہ ایک دوسرے کے ساتھ کچھ بھی مناسبت نہیں رکھتے۔ چہ نسبت خاک را باعالمِ پاک۔

ابتدا میں جو کچھ ہے وہ معلول ہے، یعنی ابھی وہ صحیح نہیں ہوا، علت اُس میں پائی جاتی ہے، نقصان اُس میں پایا جاتا ہے،اور غرض پر محمول ہے، اور انتہا میں چونکہ وہ حق کے لیے ہوتا ہے اس لیے سب کچھ حق کے لیے ہوتا ہے۔ انشااللہ اس بیان کی تفصیل بعد میں ذکر کی جائے گی۔یہ صوری مشابہت اور یہ ظاہری مناسبت اسی خیال کی وجہ سے ہوتی ہے۔

❖ اور چونکہ طریقہِ عالیہ نقشبندیہ میں جذب سلوک پر مقدم ہے، یعنی یہاں جذب پہلے ہوتا ہے سلوک بعد میں طے کرایاجاتا ہے،اس لیے اس طریقے کے مجذوبوں کو جو سلوک کی دولت سے مشرف نہیں ہوئے، اُن کو اس قسم کا خیال اور وہم بہت زیادہ لاحق ہوتا ہےاور اُن میں ایک جماعت جس کو مقامِ جذب میں منقلب احوال حاصل ہو جاتے ہیں،اور ایک حال سے دوسرے حال کی طرف چلے جاتے ہیں، اور یہ سمجھتے ہیں کہ سلوک کی منازل قطع ہو گئیں، اور سیر الی اللہ کے راستے طے ہو گئے۔اور ان تبدیلیوں سے اپنے آپ کو مجذوب سالک خیال کر بیٹھے ہیں، اس لیے فتور والے دل میں آیا کہ جذبہ اور سلوک کے بیان میں اُن دونوں مقام کے فرق کےبارے میں کچھ فقرے لکھے جائیں،نیز وہ خاصیتیں بھی لکھی جائیں جو ایک کو دوسرے سے ممتاز کرتی ہیں، جذبِ منتہی اور جذبِ مبتدی کےدرمیان فرق اور مقام تکمیل ارشاد کی حقیقت اور دوسرے علوم جو اس مقام کے مناسب ہیں بیان کیے جائیں،لِیحق الحقَ و یُبطل الباطلَ و لو کرِہَ المجرمون ۔تاکہ حق کا حق ہونااور باطل کا باطل ہوناثابت کر سکیں اگرچہ مجرم ناراض ہو، اب میں سبحان و تعالیٰ کی توفیق سے اس بیان کو شروع کرتا ہوں، اور وہی سیدھے راستے کی ہدایت کرتا ہے اوروہی سب سے اچھا کارساز ہے اور سب سے اچھا وکیل ہے یہ مکتوب دو مقصود اور ایک خاتمہ پر مشتمل ہے ، مقصد اول میں ان معارف کا بیان ہے جو مقامِ جذبہ سے متعلق ہے اور اور ثانی کو مقام سلوک سے تعلق ہے اور خاتمہ میں اُن بعض متفرق علوم ومعارف کا ذکر ہے جن کا جاننا طالبوں کے لیے ضروری ہے۔

❖ مقصداول ❖ جاننا چاہیے وہ مجذوب جنہوں نے سلوک کو مکمل طے نہیں کیا اگرچہ جذب قوی رکھتے ہوں اور خواہ کسی بھی راستے سے منجذب ہوئے ہوں وہ اربابِ قلوب کے گروہ میں داخل ہیں، کیونکہ بغیر سلوک کے اور تزکیہ نفس سےوہ مقام قلب سے آگے نہیں گزرے سکتے،اور مقلبِ قلب یعنی حق تعالیٰ تک نہیں پہنچ سکتے ، ان کا جذب انجذابِ قلبی ہے اور ان کی محبت عرضی ہے ذاتی نہیں ہےغرضی ہے اصلی نہیں ہے ،کیونکہ نفس اس مقام میں روح کے ساتھ ملا ہوا ہے، اور ظلمت اور نور اس معاملے میں مخلوط ہیں، اور جب تک روح مطلوب کی طرف توجہ کرنے کے لیے نفس مجرد اور آزاد نہ ہو جائے اور نفس روح سے جدا ہو کر بندگی کے مقام پر نیچے نہ آ جائے، اُس وقت تک مقام قلب کی تنگی سے مکمل طور پر نہیں نکل سکتے اور مقلبِ قلب تک نہیں پہنچ سکتے اور مطلوب کی طرف روحی انجذاب حاصل نہیں کر سکتے، کیونکہ جب تک یہ دونوں نفس و روح حقیقت میں جمع ہیں،حقیقت جامع قلبیہ محکم اورغالب ہے خالص روح کا انجذاب متصور نہیں ، اور نفس کا روح سے خلاصی پانا سلوک کے منازل کو طے کرنے اور سیرالی اللہ کے راستے طے کرنے اور سیرفی اللہ سے متعارف ہونے کے بعد ہےبلکہ فرق بعد الجمع کا مقام حاصل ہونے کے بعد ہے جس کا تعلق سیر عنِ للہ باللہ سے ہے، صورت پذیر نہیں ہوتا، یعنی روح نفس سے آزادی حاصل نہیں کرسکتی،

ہر گدا ۓ مرد میداں کے شود

پشۂ آخر سلیماں کے شود

ہر گدا کب مرد میداں ہوسکے کوئی مچھر کب سلیماں ہوسکے

پس اس بیان سے جذب منتہی اور جذبِ مبتدی کے درمیان فرق ظاہر ہو گیا۔

❖ ان اربابِ قلوب مجذوبوں کا شہود کثرت کے پردے میں ہے،خواہ اس معنی (باطنی کیفیت ) کو معلوم کریں یا نہ کریں ۔ان کا مشہود اس عالَم کثرت میں نہیں،مگر عالَمِ ارواح میں جو لطافت احاطہ اور سریان میں اپنے موجد یعنی حق تعالیٰ کے ساتھ صورتاًمشابہت رکھتا ہے، ان اللہ خلق آدم علیٰ صورتہ یعنی بےشک اللہ نے آدم کو اپنی صورت پر پیدا کیا،اُس مناسبت کے ساتھ روح کے شہود کو حق تعالیٰ کا شہود جانتے ہیں،اور احاطہ و سریان میں اور قرب و معیت بھی اسی قیاس پر ہیں کیونکہ سالک کی نظر صرف مقام فوق تک عبور کر سکتی ہے،لیکن مقامِ فوقِ فوق تک نہیں جا سکتی،اوراُن کا مقامِ فوق مقامِ روح ہے،لہذا اُن کی نظر مقام روح سے بالانہیں جا سکتی،اوراُن کا مشہود سوائے روح کے کوئی اور امر نہیں ہوتا،نظر کا فوق روح تک جانا، مقام ِروح تک پہنچنے پر موقوف ہے۔اور محبت اورانجذاب بھی اسی شہود کی طرح ہے، حق سبحان وتعالیٰ کا شہود بلکہ جنابِ قدس خداوندی کی محبت و انجذاب کا پیدا ہونافناکے حصول یعنی جب اپنا نفس ختم ہو جائے، کے ساتھ وابستہ ہے،جس کو سیر الی اللہ کی نہایت سے تعبیر کرتے ہیں۔

ہیچ کس را تا نہ گردد او فنا

نیست رہ در بارگاہِ کبريا

جب تک انسان کر نہ لے خود کو فنا

کیسے پاۓ بارگاہِ کبریا

❖ اس مقام میں شہود کا اطلاق میدان عبارت کی تنگی کا باعث ہے، ورنہ ان بزرگوں کا کارخانہ شہود کے وراء الورا سے متعارف و مشہورہے، جیساکہ ان کا مقصد بے چون وبے چگون ہے، اور اُن کا اتصال بھی خدا کے ساتھ بے چون وبے چگون ہے۔کیونکہ چون کو بے چون سے کوئی راہ نہیں ہوتی، لا يحمل العطايا الملک الا مطا یا۔بادشاہوں کے عطيات کو بادشاہوں کی سواریاں ہی اُٹھا سکتی ہیں، محقیقن ار بابِ سلوک جو نہایت کار تک پہنچ چکے ہیں، کے نزدیک حق سبحانہ کا احاطہ و سریا ن اور قرب و معیت علمی ہے، جیسے علما حق شکر تعالیٰ سعیہم کا مسلک ہے قربِ ذاتی اور اس طرح کی دوسری باتوں کا حکم کرنا ان کے نزدیک بے حاصلی اور دوری کے مترادف ہے ۔نزدیک والے حضرات قربِ ذاتی کو حکم نہیں کرتے، ایک بزرگ فرماتے ،جو یہ کہتا ہے کہ میں حق تعالیٰ کے نزدیک ہوں حقیقت میں دور ہے۔جو اپنے آپ کو دور سمجھتے ہیں وہ نزدیک ہیں۔تصوف یہی ہے۔

❖ اور وہ علم جو توحیدِ وجودی کے ساتھ متعلق ہے۔اُس کا مقصد انجذاب اور محبتِ قلبی پیدا کرنا ہے۔اربابِ قلوب جنہوں نے جذبہ پیدا نہیں کیا۔اور سلوک کے راستے سے منازل قطع کر رہے ہیں،اُن کو اس علم سے مناسبت نہیں ہوتی۔اور اس طرح وہ مجذوب جو سلوک کے ساتھ اپنے دل کی تمام توجہ مقلبِ قلب کی طرف کیے ہوئے ہیں وہ بھی ان علوم سے براءت کا اعلان کرتے ہیں، اور استغفار کرتے ہیں، بعض مجذوب ایسے بھی ہوتے ہیں جو اگرچہ سلوک کے راستے آتے ہیں اور منازل طے کرتے ہیں،لیکن ان کے نظرمقام ِ مالوف (مانوس مقام )سے جدا نہیں ہوتی اورفوق کی طرف توجہ نہیں کرتے، اس قسم کے علوم اُن کے دامن نہیں چھوڑتے، اوراس گرداب و بھنور سے باہر نہیں آسکتے، لہذا مدارج قرب پر عروج کرنے اور معارج قدس میں صعود کرنے میں قاصر اور لنگڑے رہتے ہیں۔َ

رَبَّنَا أَخْرِجْنَا مِنْ هَٰذِهِ الْقَرْيَةِ الظَّالِمِ أَهْلُهَا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ وَلِيًّا وَاجْعَل لَّنَا مِن لَّدُنكَ ء 75

اے رب ہم کو اس بستی سے نکال جس کے رہنے والے ظالم ہیں اور ہمارے لیےاپنے پاس سے کوئی ولی مقرر کر اور ہمارے لیےاپنے پاس سے مدد گار بھیج ۔

❖❖ معرفت ❖ حضرت خواجہ نقشبندؒ فرماتے ہیں۔(ما نہایت را در بدایت درج می کنیم) ۔ہم نہایت کو بدایت میں درج کرتے ہیں۔ اس عبارت کے معنی یہ ہیں کہ وہ انجذاب و محبت جو منتہی کو انتہا میں میسر ہوتا ہے وہ انجذاب و محبت اس طریقہ عا لیہ میں ابتداسے ہی پیدا ہو جاتاہے کیونکہ منتہی کا انجذاب روح کا انجذاب ہے اور مبتدی کا جذب ، جذبِ قلبی ہے اور چونکہ قلب ،روح اورنفس کے درمیان برزخ ہے اس لیے جذب قلبی کے ضمن میں جذب ِروحی بھی حاصل ہو جاتا ہے اور اس اندراج کی تخصیص اس طریقہ عالیہ کے ساتھ کرنا اگرچہ یہ بات تمام جذبات میں حاصل ہے اس وجہ سے ہے کہ اس طریقہ عالیہ کے بزرگوں نے اس مطلب کو حاصل کرنے کے لیےخاص طریقہ وضح کیا ہے اور اُس مطلب کے حصول کے لیے راہ متعین کر لی ہے۔ اور دوسرے طریقوں کےحضرات کو یہ مطلب (وصول الی اللہ) اتفاقاً حاصل ہو جاتا ہے، اُن کے ہاں کوئی خاص ضابطہ مقرر نہیں اور اس طریقۂ عالیہ کے بزرگوں کو جذبہ کے مقام میں ایک خاص شان حاصل ہے جو دوسروں کو میسّر نہیں اور اگر ہے تو شاذ و نادر ہے ۔ اسی بنا پر ان میں سے بعض حضرات کو اس مقام میں بغیر منازل ِسلوک طے کرنے کے اربابِ سلوک کا فنا و بقا کے مشابہ ایک طرح کی فنا و بقا حاصل ہو جاتی ہے اور مقام ِتکمیل کا کچھ حصہ بھی جو مقام ِسیر “عنِ اللہ بااللہ” کے مشابہ ہےحاصل ہو جاتی ہے ،جس کے ساتھ یہ لوگ مستعد لوگوں کی تربیت کرتے ہیں ، انشاءاللہ اس بات کی تحقیق عن قریب آ جائے گی۔

❖ اس جگہ ایک نکتہ جس کو جاننا ضروری ہے۔ وہ یہ کہ روح کو بدن کے ساتھ تعلق ہونے سے پہلے اپنے اپنے مقصود کی طرف ایک قسم کی توجہ حاصل تھی،اور جب روح بدن کے ساتھ متعلق ہو گئی تو وہ توجہ بھی زائل ہو گئی،اس سلسلہ عالیہ کے اکابرين نے اس سابقہ توجہ کے ظہور کے لیے ایک طریقہ وضع کیا ہے، لیکن چونکہ روح کا تعلق بدن کے ساتھ ہےاس لیے توجہ ِ قلبی موجود رہتی ہے ، جو نفس اور روح کی توجہ کی جامع ہے ، اس میں شک نہیں کہ توجہِ روحی توجہ ِقلبی میں مندرج ہے لیکن وہ توجہِ روحی جو منتہیوں کو فنا کےبعد حاصل ہوتی ہے اُس کی بقا حقانی وجود کے ساتھ ہے۔ جس کو ہم بقا با اللہ کے ساتھ تعبیر کرتے ہیں، اور توجہِ روحی جو قلبی توجہ کے ضمن میں ہے بلکہ روح کی توجہ جو بدن کے ساتھ متعلق ہونے سے پہلے تھی وہ ایسی توجہ ہے جو باوجود ہستی روح ہونے کے فنا نے اس کی طرف راہ نہیں پائی،اورروح کی ہستی کے وجود کے ساتھ روح کی توجہ کے درمیان اور روح کے فنا کے ساتھ روح کی توجہ کے درمیان بہت بڑا فرق ہے لہذا اس توجہ روحی مندرجہ کو نہایت کہنا اس اعتبار سے کہ وہ روح ہی کی توجہ ہے کیونکہ نہایت میں صرف یہی توجہ باقی ہےاور بس لہذا بدایت میں نہایت کے اندراج سے مراد یہ ہے کہ ، نہا یت کی صورت بدایت میں مندرج ہے نہ کہ نہایت کی حقیقت کیونکہ اس کا بدایت میں اندراج محال ہے۔ہو سکتا ہے کہ لفظِ صورت اس لیے نہ لایا ہو کہ اس راہ کے طالبوں میں ترغیب و شوق پیدا ہو حقیت یہی ہے جو میں نے اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بیان کی ہے۔

❖ اور وہ سابقین،(سبقت کرنے والے) جن کا انجذاب بے تعمل بے کسب یعنی بغیر عملی تکلیف اور ، بغیر ظاہری کسب کے ہے بلکہ وہ توجہ وحضور کے ذریعے آئے ہیں،ان کا انجذاب بھی قلبی ہے اورروح کی توجہ اس سابقہ توجہ کا اثر ہےجس کا تعلق بدن سے بالکلیہ زائل نہیں ہوا ہے بلکہ باقی ہےلہٰذا سابق توجہ روحی کے ظہور کے لیےکسب عمل کی ضرورت اس جماعت کے لیے ہےجس نے بدنی تعلق کی وجہ سے اس سابقہ توجہ کو فرموش کر دیا ہے۔ گویا کہ کسب توجہ ِسابق کے لیے ایک تنبیہ ہے اور اس گم شدہ دولت کے لیےیاددہانی ہے لیکن ثابت ہوچکا کہ سابق توجہ کےفراموش کرنے والے سابقان مذکورہ سے لطیف استعدادرکھنے والے ہیں کیونکہ توجہِ سابقہ بالکل ہی فراموش کر دینا متوجہ الیہ کی طرف بالفعل توجہ کے ساتھ گم ہونے کی خبر دیتا ہے اور توجہ کا عدم ِنسیان ایسا نہیں ہے۔ خلاصۂ کلام یہ ہے کہ سابقین میں وہ توجہ کلی طور پر شمول اور سریان پیدا کرلیتی ہےاوراُن کا بدن بھی روح کی شان کا حکم پیدا کر لیتاہے۔ جیسا کہ محبوبین اور مرادین کی شان ہےلیکن شمولِ محبوبان (محبوبوں کی سرايت) اور شمولِ سابقان کے درمیان ایسا فرق ہےجیسا کہ حقیقتِ شے اور صورتِ شے میں ہوتا ہے جس طرح کہ اس کے جاننے والوں پر ظاہر ہے۔ ہاں محبانِ واصل اور مریدانِ کامل کو بھی اس شمول کا تحقق حاصل ہوجاتا ہے لیکن وہ کالبرق (بجلی کی مانند) ہےدائمی نہیں ہے۔ شمول دائمی محبوبوں کا حصہ ہے۔

❖ معرفت ❖ مجذوبانِ اربابِ قلوب جب مقامِ قلب میں متمکن ہو کررسوخ (ثبات) پیدا کر لیتے ہی اور ایک قسم کی معرفت و صحو (عقل و ہوش) جو اس مقام کےمناسب ہے اُن کو میسر ہو جاتا ہے تو بھی طالبوں کو فائدہ پہنچ سکتے ہیں اور اُن کی صحبت میں طالبو ں کو انجذاب اور محبت قلبی حاصل ہو جاتی ہے۔لیکن کمال تک نہیں پہنچا سکتے، کیونکہ خود بھی کمال تک نہیں پہنچ سکے، اس لیے دوسروں کے لیے کمال حاصل کرنے کا ذریعہ نہیں بن سکتےمشہور ہے کہ ناقص کے ذریعے کوئی بھی کامل نہیں بن سکتا۔البتہ ان کی فیض رسانی جس قدر بھی ان اربابِ سلوک سے جو مقام قلب میںسیر عن ِ للہ باللہ کے طریقے سے نیچے نہیں آتے زیادہ ہوتی ہے، چاہےوہ کتنے ہی سلوک کے انتہا کو پہنچ جائیں اور منتہہیوں والا جذب پیدا کر لیں کیونکہ وہ منتہی جس نے ابھی عالَم (مخلوق)کی طرف رجوع نہیں کیا وہ تکمیل و افادہ کا مرتبہ نہیں رکھتا کیونکہ عالَم کے ساتھ اُس کی خاص مناسبت اور توجہ نہیں ہوئی جس کے ذریعے وہ فائدہ پہنچا سکے۔

❖❖شیخ مقتدا کو برزخ کہنا اس اعتبار سے ہے کہ وہ مقامِ برزخیت میں جس کو مقامِ قلب کہتے ہیں، نیچے اتر آیا ہے۔ اور روح اور نفس دونوں کی جہت سے اس نے حصۂ وافرحاصل کر لیا ہے۔ روح کی جہت سے وہ اپنے فوق سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور نفس کی جہت سے وہ اپنے ماتحت سے فائدہ حاصل کرتا ہے۔ کیونکہ اس کے لیے حق تعالیٰ کی توجہ مخلوق کی توجہ کے ساتھ جمع ہو گئی پس ان دونوں توجہ میں کسی قسم کا کوئی حجاب نہیں۔»

بعض مشائخ اس برزخیت کو برزخیت“ بین الخلق و الحق” کہتے ہیں اور شیخ جامع کو جامع بین“ التشبیہ و التنزیہہ کہتے ہیں۔

پوشیدہ نہ رہے کہ اس قسم کی برزخیت جس کی بنیاد سُکر پر ہوشیخی کے مقام کے لائق نہیں۔ کیونکہ اس کی بنیاد صحو پر ہے۔

اس لیے کہ ان کا نفس اس مقام میں روح کے انوار کے غلبوں میں مندرج ہوتا ہے۔ اور یہی اندراج سُکر کا پیدا کرتا ہے

اور قلب کی برزخیت کےمقام پر روح اور نفس ایک دوسرے سے جدا رہتے ہیں۔ لہٰذا لازمی طور پر وہاں سُکر کی گنجائش نہیں رہتی بلکہ وہاں سب صحو ہی صحو ہے جو مقام دعوت ہے یہ بات ذہن نشین رہے۔

اور جب شیخِ کامل کو مقامِ قلب میں نیچے لاتے ہیں تو اس کو برزخیت کی وجہ سے عالَمِ دنیا سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ مستحق طالبوں کے لیے حصولِ کمالات کا ذریعہ بن جاتا ہے اور مجذوبِ متمکن چونکہ مقامِ قلب میں ہوتا ہے اس لیے وہ بھی عالَم یعنی مخلوق کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور اپنی توجہ کو ان سے باز نہیں رکھتا اور انجذاب و محبت سے اگرچہ قلبی ہو، اِس میں اِس کو حصہ حاصل ہوتا ہے۔ لہٰذا لازمی طور پر فیض پہنچانے کا دروازہ اُس کے لئے کشادہ ہو جاتا ہے(یعنی مجذوبِ متمکن وہ مجذوب جو تمکین حاصل کر چکا ہو)

بلکہ ہم کہتے ہیں کہ مجذوبِ متمکن (مقام ِقلب میں قرار پذیر مجذوب )کی نسبت فائدہ اور فیض کی مقدار کے لحاظ سے منتہی مرجوع سے زیادہ ہوتا ہے۔منتہی کے فائدے کی کیفیت اور حالت ، مجذوب کے افادہ کی کیفیت سے زیادہ ہے کیونکہ منتہی مرجوع کو بھی اگرچہ عالَم کے ساتھ مناسبت ہے لیکن وہ ظاہری صورت میں ہے ورنہ حقیقت میں وہ منتہی عالَم سے جدا ہے اور اصل رنگ میں رنگا ہوا ہے اور اس کےساتھ بقا حاصل کر چکا ہے۔اوراس مجذوب کواس عالَم کے ساتھ حقیقتاً مناسبت ہے اور جملہِ افرادِ عالَم میں سے ایک ہے۔ اُس بقا کے ساتھ وہ باقی ہے جس کے ساتھ عالَم باقی ہے۔ پس ناچارِ طالبین مناسبت حقیقی کے باعث مجذوب سے زیادہ فائدہ حاصل کر لیتے ہیں اور منتہی مرجوع سے فائدہ کم حاصل ہوتا ہے لیکن کمالاتِ ولایت کے مراتب کا فائدہ منتہی کے ساتھ مخصوص ہے لہٰذا فائدہ پہنچانے کی کیفیت میں منتہی کا پہلو راجح اور غالب ہے۔

❖❖ اور اسی طرح منتہی کو حقیقت میں توجہ اور ہمت نہیں ہوتی لیکن مجذوب صاحبِ ہمت اور توجہ ہوتا ہے اور اپنی ہمت اور توجہ سے طالب کے کام کو ترقی دے کر آگے پہنچاتا ہے اگرچہ کمال تک نہیں پہنچا سکتا۔ اسی طرح طالبوں کو مجذوبوں سے جو نہایت توجہ حاصل ہوتی ہے وہ روح کی وہی سابقہ توجہ ہوتی ہےجو انہوں نے فراموش کر دی تھی۔ اور ان مجذوبوں کی صحبت میں پھر ان کو یاد آگئی اور اندراج کے طریقےپر توجۂ قلبی حاصل ہو گئی۔بخلاف اس توجہ کے جو منتہیوں کی صحبت میں حاصل ہوتی ہے۔ (کیونکہ وہ توجہ حادث(نئی )ہوتی ہے جو اس سے پہلے سے ان میں ہر گزموجود نہیں تھی اور وہ روح کی فنا بلکہ اُس کے وجودِ حقانی کے ساتھ بقا پر موقوف تھی۔لہٰذا لازمی طور پر پہلی توجہ اسہل الحصول ہے اور توجہ ثانی متعسرالوجود ہے ۔جو چیز کہ آسان ہوتی ہے وہ زیادہ ہوتی ہے اور جو چیز دُشوار ہوتی ہے وہ کم سے کم ہوتی ہے اسی لیے کہا گیا ہے کہ جہتِ جذبہ حاصل کرنے میں شیخِ مقتداکا واسطہ نہیں ہے کیونکہ وہ نسبت طالب کو پہلے ہی حاصل ہو چکی تھی وہ صرف نسیان کے باعث تنبیہ اور تعلیم کا محتاج ہو گیا ہے۔ لہٰذا ایسے شیخ کو شیخِ تعلیم کہتے ہیں نہ کہ شیخِ تربیت۔ اور جہت سلوک میں سلوک کی منازل طے کرنے کے لیے شیخِ مقتدادرکار ہے اور اس کی تربیت ضروری ہے۔

❖ شیخِ مقتدا کو چاہیے کہ اس قسم کے مجذوبِ متمکن کو افادہ عام کی اجازت نہ دے اور اس کو تکمیلِ و پیری کے مقام پرنہ بٹھائے۔ کیونکہ طالبوںمیں بعض ایسے ہوتے ہیں جن کی استعداد بلند ہوتی ہے اور وہ کمال وتکمیل کی قابلیت اپنے اندر بدرجہ اتم رکھتے ہیں ، اس مجذوب کی صحبت میں اگر آجائیں تو احتمال ہے کہ ان کی استعداد ضائع ہو جائے اور قابلیت بھی ختم ہو جائے

مثلاً وہ زمین جس میں گندم کی کاشت کی عمدہ قابلیت ہے اگر اس میں گندم کا اچھا بیج ڈالا جائے تو بیج کی استعداد کے اندازہ کے مطابق پیداواراچھی ہو گی اور اگر اس زمین میں خراب گندم یا چنے کا بیج ڈال دیا جائے تو اچھی کاشت تو کجا اسکی پیداوار کی استعداد بھی مسلوب اور ضائع ہو جائے گی۔ اوراگر بالفرض شیخِ مقتدا اسکو اجازت دینے میں کوئی بہتری و مصلحت دیکھےاوراس میں فائدہ پہنچانے کی کوئی معنویت پاۓتو اسکے افادہ کو بعض شرائط وقیود کے ساتھ مقید کر دے مثلاً افادہ کے طریق پر طالب کی مناسبت کا ظاہرہونا اوراُس کی صحبت میں طالب کی استعداد کا ضائع نہ ہونا اور اس کی اقتداء و ریاست میں اس کے نفس کا سرکش نہ ہونا ۔ کیونکہ تزکیٔہ نفس نہ ہونے کی وجہ سے اس سےہواۓ نفسانی زائل نہیں ہوئی ہےاور جب اس (مجذوبِ متمکن )کو معلوم ہو جائے کہ طالب اس سے انتہائی فائدہ حاصل کرچکا ہے اور اس طالب کی استعداد میں ابھی ترقی کی قابلیت موجود ہے تو اس کو چاہیے کہ اُس پر اس معنی کو ظاہر کر کے رخصت کر دے تاکہ وہ اپنا کام کسی دوسرے شیخ سے مکمل اور پورا کرلےکراور اپنے آپ کو منتہی نہ جانے اور اس حیلہ و بہانہ سے لوگوں کی رہزنی نہ کرے۔ اور اس طرح کی اور شرائط جو اس کے وقت اورحال کے مناسب ہو اس کے سامنے بیان کر دے اَور ان باتوں کی وصیت کرکے اور اس کو اجازت دیدے”

❖ لیکن منتہی مرجوع (الی الخلق) فائدہ اور تکمیل میں ان قیود وشرائط کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اس کو جامعیت کی وجہ سے تمام طریقوں کی استعداد اور مناسبت حاصل ہے۔ لہٰذا ہر شخص اس سے اپنی استعداد اور مناسبت کے لحاظ سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اگرچہ شیوخ اور مقتداؤں کی صحبت میں مناسبت کے قوی یا ضعیف ہونے کے اعتبار سے جلدی یا دیر میں( فیض یاب ہونے میں )فرق ہے۔ لیکن اصل فائدہ پہنچانے میں جملہ مشائخ مساوی الاقدام(برابر) ہیں

❖ شیخِ مقتداکے لیے لازم ہے کہ طالب کو فائدہ پہنچانے کے وقت میں حقِ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرتا رہے اور اس کی حبل متین (مضبوط رسی) کو پکڑے رہے اور اس شہرت کےضمن میں (جس میں مکرو استدراج پوشیدہ ہو) حق تعالیٰ کے خوف سے پناہ مانگےاور یہ التجا نہ صرف اس معاملے میں بلکہ تمام معاملات میں اور تمام اوقات میں اللہ تعالیٰ نے اس کو عطا فرما دی ہے۔ جو اوقات میں سے کسی وقت میں اور افعال میں سے کسی فعل میں اس سے جدا نہیں ہوتی۔

ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہ ذوالفضل العظیم۔

مقصدثانی ❖ ان معارف کےبیان میں جو سلوک سے تعلق رکھتے ہیں ۔

❖ جاننا چاہیے جب کوئی طالب طریق ِ سلوک میں فوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے ، اگر وہ اُس اسم تک ،جو اُس کارب ہے، پہنچ جائے اوروہ اُس میں فانی و مستہلک ہو جائے تو اُس پر فنا کا اطلاق درست ہوجاتا ہے پھر اُس اسم کے ساتھ بقا حاصل ہو نے کے بعدبقا کا اطلاق اُس پر مسلم ہو جاتا ہےاور اس فنا اور بقا کے حصول کے بعد ولایت کے مرتبِہ اولیٰ کے(پہلے مرتبہ) کے ساتھ مشرف ہو جاتا ہے۔ یہاں تفصیل ہے جس کو بسط کے ساتھ بیان کرنا ضروری ہے۔

❖تمہید ❖ وہ فیض جو ذات تعالیٰ و تقدس کی طرف سے پہنچتا ہے دوقسم کا ہوتا ہے، ایک قسم وہ ہے جس کا تعلق،ایجاد،ایقاد ، تخلیق، ترزیق، احیاءو اماتت، ( موجود کرنا باقی رکھنا، پیدا کرنا ، رزق دینا، زندہ کرنا اور مارنا) سے ہےاور اسی طرح کی اور بھی مثالیں ہیں،اور دوسری قسم وہ ہے جس سے ایمان ، معرفت، مراتبِ ولایت اورنبوت کے جملہ کمالات سے متعلق ہے۔

پہلی قسم❖ صفات کے ذریعے سے فیض رسانی ہے اور بس۔

دوسری قسم ❖ بعض کو( فیض) صفات کے ذریعے اور بعض کو شیونات کے توسط سے پہنچتا ہے اور صفات اور شیونات کے درمیان بہت باریک فرق ہے،جو محمد ی المشرب اولیا ءکے علاوہ کسی پر ظاہر نہیں ہوا۔ اور نہ ہی کسی اور نے اس کی نسبت کلام کیا۔ مختصر یہ کہ( صفات) حق تعالیٰ و تقدس پر زائد وجود کے ساتھ خارج میں موجود ہیں اور شيونات عز سلطانہ کی ذات میں صرف اعتبارات کے درجے میں ہیں۔

;❖ یہ بحث ایک مثال کے ذریعے سے واضع اور روشن ہوجاتی ہے۔مثلاً پانی طبعی طور پر اوپر سے نیچے کی طرف کو آتا ہے اوراس کا یہ فعل ِطبعی اس کے اندر حیات ، علم ،قدرت اور ارادہ کا اعتبار پیدا کرتا ہے کیونکہ ارباب علم اپنے ثقل کے واسطے سے اور اپنے علم کے تقاضے کے مطابق اوپر سے نیچے آتے ہیں اور فوق کی طرف توجہ نہیں کرتے ، اور علم حیات کا تابع ہے اور ارادہ علم کا تابع، اس طرح قدرت بھی ثابت ہے کیونکہ ارادہ سےاحد المقدورین میں سے کسی مقدارکو اختیار کرنا ہوتاہے۔

یہ اعتبارات پانی کی ذات میں بمنزلہ شیونات کے ہیں اگر ان اعتبارات کے باوجود پانی کی ذات میں زائد صفات ثابت ہوجائیں تو وہ وجود زائد کے ساتھ صفات موجودہ کی طرح ہوں گے۔پانی کو اعتبارات اولیٰ کی بنیاد پر حئی ،عالِم، قادر اورمرید نہیں کہہ سکتے، ان ناموں کے ثابت کرنے کے لیے صفات زائدہ کا ثابت ہونا درکار ہے۔

لہٰذا جو کچھ بعض مشائخ کی عبارات میں پانی کے متعلق مندرجہ بالا اسموں کےثبوت میں واقع ہوا ہے۔ان کی بنیاد شیون و صفات میں فرق نہ کرنے کے وجہ سے ہے، اس طرح صفات کے وجود کی نفی کا حکم بھی اس فرق کے معلوم نہ ہونے پر محمول ہے اور شیون و صفات کے درمیان دوسرا فرق یہ ہے کہ مقامِ شیون صاحبِ شان کےروبر رو ہے اور مقام صفات ایسا نہیں ہے۔

❖❖ حضرت محمد ﷺ اور وہ اولیا ءؒ جوآپ ﷺ کے مبارک نقشِ قدم پر ہیں، اُن کو فیض ثانی کا وصول شیونات کے توسط سے ہے، اور باقی تمام انبیاء کرام علیھم السلام اور وہ جماعت جو اُن کے نقشِ قدم پر ہے اُن کے لیےاس فیض کا حاصل کرنا بلکہ فیض اول کا ان کو پہچنا بھی صفات کی توسط سے ہے۔

لہٰذا ہم کہتے ہیں کہ وہ اسم جو آپ ﷺ کا رب ہے اور فیض دوئم کے وصول کا واسطہ ہے وہ شان العلم کاظِل ہے، اور یہ شان تمام تفصیلی اور اجمالی شیون کی جامع ہے، اور وہ ظِل شان علم ذاتِ تعالیٰ و تقدس کی قابلیت بلکہ تمام اجمالی اور تفصیلی شیون کی قابلیت کے لیے ہے لیکن شان علم کے شمول کےساتھ تعبیرکیا گیا ہے۔

جاننا چاہیے کہ یہ قابلیت اگر چہ ذات عز و شانہ اور شان علم کے درمیان برزخ کا درجہ رکھتی ہےلیکن چونکہ اسکی ایک جہت بے رنگ ہے اور وہ ذات تعالیٰ شانہ کی جہت ہے ۔برزخ میں اس کا کوئی رنگ پیدا نہیں ہوتا لہٰذا وہ برزخ میں بھی دوسری جہت کے رنگ میں ہے جو شان العلم کے رنگ سے رنگین ہے پس لازمی طور پر اس کو شان العلم کا ظل کہا گیا ہے۔اور اس طرح ظِل شے مرتبہ دوئم میں ظہورِ شے سے عبار ت ہے اگرچہ وہ شبہ اور مثل ہی کی صورت میں ہو۔

اورچونکہ برزخ کا حصول طرفین کے حصول کے بعد ہے، یقناً یہ برزخ مکاشفہ کے وقت میں،اُس شان کے تحت منکشف ہوتا ہے ، لہٰذا اس ظہور کے اعتبار سےآخر تک ظلیت کا اطلاق مناسب معلوم ہوتاہے۔

❖ اور اولیا اللہ کا ایک وہ گروہ جو آپ ﷺ کے مبارک قدم پر ہے اور وہ اسما جو اُن کے فیض ثانی کے حصول میں اُن کے ارباب ہیں، اس جامع قابلیت کے ظلال ہیں اور اس ظِل مجمل کے لیےتفصیل کے مانند ہیں ۔ اور باقی تمام انبیاء کرام علیھم السلام کے ارباب اور ان کے لیےفیض اول و ثانی کے وصو ل کا واسطہ اتصافِ ذات عز سلطانه کی وہ قابلیتیں ہے جو صفاتِ زائدہ کے ساتھ موجود ہیں ۔ اور وہ گروہ جو ان کے نقش قدم پر ہے ان کے ارباب وہ صفات ہیں جو ان کے لیےفیض اول و فیض ثانی کے وصول کے حق میں ہیں ۔اور آپ ﷺکے لیےفیض اول کے وصول کا واسطہ اور ذریعہ تمام صفات کے ساتھ اتصاف ذات تعالیٰ و تقدس کی قابلیت ہےگویا وہ تمام قابلیتیں جو انبیاء علیہم الصلوٰۃ والسلام کے لیےفیوض کے وسائل ہیں وہ اس قابلیت جامع کے ظلال ہیں اور اس جامع مجمل کے لیےتفصیلات کے مانند ہیں ۔اور وہ گروہ جو آنسرور ﷺکے مبارک قدم پر ہے ان کے لیےبھی فیض اول کے پہنچنے کے لئے ذرائع علیحدہ ہیں کیونکہ وہ صفات ہیں لہٰذا محمدیوں (محمدی المشرب حضرات )کے لیےفیض اول کے وسائل و ذرائع فیض ثانی کے وصول کے ذرائع سے جدا ہیں بخلاف دوسروں کے،کہ ان کے لئے ایک (ہی ذریعہ یعني صفات ) ہے ۔

❖ بعض مشائخ قدس سرہم نے آپ ﷺ کے رب کو قابلیت اتصاف میں منحصر کیا ہے اس کی وجہ صفات اور شیون کے فرق نہ ہونا ہے بلکہ مقام شیون کا عدمِ علم ہے ۔واللہ یحق الحق و ھو یہدی السبیل( اللہ تعالیٰ ہی حق کو ظاہر کر تا ہے اور وہ سیدھے راستے کی طرف کی راہ نمائی کرتا ہے)۔لہٰذا یہ بات تحقیق تک پہنچ گئی کہ آپ ﷺ کا رب مقام شیون میں اور خانہِ صفات میں رب الارباب ہے اور ہر دو فیض کے حصول کا واسطہ ہے۔

اور یہ بھی معلوم ہو گیا کہ آپ ﷺ کے مراتب ولایت کے کمالات کا فیض پہنچنا ( حق تعالیٰ کی ) ذات سے امرِ زائد ( اضافی حکم )کے توسط کےبغیر ہے کیوں کہ شیون عین ِ ذات ٍِ(حق تعالیٰ) ہیں اور ان میں زیادتی کا اعتبار کرنا عقل کے منتزعات (عبارات )ہے۔ لہٰذا تجلی ذاتی آپ ﷺ کے لیے مخصوص ہو گئی،اور آپ ﷺ کے کامل تابعدار چونکہ آپ ﷺ کی راہ سے فیض حاصل کرتےہیں۔اس لیے وہ بھی اس مقام سے بہرہ مند ہوتے ہیں،اور دوسروں کے لیے چونکہ صفاتی واسطےدرمیان میں ہیں اور صفات وجود زائد کے ساتھ موجود ہیں لہٰذا ایک بڑا مضبوط حجاب درمیان میں آ گیا،اور تجلی صفاتی اُن کے نامزد ہوگئی۔

جاننا چاہیے کہ قابلیت اتصاف (صفت سے متصف ہونے کی قابلیت) اگر چہ ایک اعتبار ہے لیکن اس کا کوئی وجود زائد نہیں اور چونکہ صفات موجود ہیں نہ کہ ان کی قابلیت لیکن چونکہ قابلیتیں ذات و صفات بلکہ شیون و صفات کے درمیان برزخ ہیں اور برزخ اپنی دونوں طرف کا رنگ رکھتا ہے اس لیےقابلیتوں نے بھی صفات کا رنگ اختیار کرکے حائلیت کی حیثیت اختیار کرلی۔

فراق دوست اگر اندک است اندک نيست

درون دیدہ اگر نیم مؤست بسیار است

فراق یار اگر کم ہے کم نہیں سمجھو

اگر ہے آنکھ میں کچھ بال کم نہیں سمجھو

❖اس بیان سے واضح ہوگیا کہ ذات تعالیٰ و تقدس کا بے پردہ ظہور تجلی شہودی کی منافی نہیں ہے لیکن تجلی وجودی کے منافی ہے لہٰذا آنسرور ﷺکے لیےکمالات ولایت کے فیضِ( ثانی یعنی شہودی فیض) پہنچنے کی جانب میں کوئی حجاب حائل نہیں ہوا اور فیض( اول) وجودی کے حاصل کرنے کی جانب میں حجاب درمیان میں آگیا جو قابلیت اتصاف سے ظاہر ہے جیسا کہ اوپر گزر چکا ہے ۔ایسا نہ کہا جاۓ کہ جب شیون اور ان کی قابلیتیں عقل کے اعتبار سے ہوں تو ان کا وجود ذہنی ثابت ہوا اور اسی وجہ سے حجاب علمی لازم ہوگیا ۔

خلاصٔہ کلام ❖ یہ ہے کہ صفاتی حجابات خارجی ہیں اور شیون کے حجابات علمی کیونکہ ہم کہتے ہیں کہ موجودِ ذہنی دو موجود خارجی کے درمیان حجاب نہیں ہوسکتا بلکہ موجودِ خارجی کے لیےصرف موجود ِخارجی ہی پردہ ہوسکتا ہےاور اگر اس کو تسلیم بھی کرلیں تو بعض معارف کے حاصل ہونے سے علمی حجابات کا درمیان سے اٹھ جانا ممکن ہے بخلاف خارجی کہ اس کا زائل ہونا ممکن نہیں ۔

❖ جب یہ مقدمات معلوم ہوگئے تو جاننا چاہئے کہ سالک اگر محمدی المشرب ہے تو اُس کے سیر کی انتہاء جو سیر اللہ سے موسوم ہے اُس شان کے ظل تک ہے جو اس کا اسم ہے اور اُس اسم میں فنا ہونے کے بعد فنا فی اللہ سے مشرف ہو جاتاہے ۔ اور اگراُس کو اس اسم کے ساتھ بقا حاصل ہو گئی تو اس کو بقا باللہ بھی میسر ہوجاتی ہے اور وہ اُس فنا اور بقا کے ساتھ ولایت خاصہ محمدیہ علیہ الصلٰوۃ والسلام وتحیہ کے مرتبہ اولیٰ میں داخل ہو جاتاہے اور اگر محمدی مشرب نہیں ہے تو صرف صفت کی قابلیت کے ساتھ یا نفس صفت تک پہنچتا ہے جو اُس کا رب ہے اگر وہ اس اسم میں فانی ہو جائے تو اُس پر فانی فی اللہ کا اطلاق نہیں کرنا چاہئے اور اسی طرح اس اسم کے ساتھ وہ باقی باللہ بھی نہیں ہے کیونکہ اسم اللہ اس مرتبہ سے مراد ہے جو تمام شیون و صفات کا جامع ہے اور چونکہ شیون کے جہت میں ذیادتی صرف اعتباری ہے اس لئے وہ عین ذات ہیں اور ایک دوسرے کا بھی عین ہیں( یعنی وہ امر اعتباری عقلی ہے نہ کہ موجود خارجی) ۔لہٰذا ایک اعتبار میں فنا ہونا تمام اعتبارات میں بلکہ ذات باری تعالیٰ وتقدس میں فنا ہونا ہے ۔ اس طرح ایک اعتبار میں بقا ہونا تمام اعتبارات میں بقا ہونا ہے ۔ پس اس صورت میں فانی فی اللہ اور باقی باللہ کہنا درست ہو جاتا ہے بخلاف صفات کی جانب کہ جو ذات( تعالیٰ )پر وجود زائدہ کے ساتھ موجودہیں اُن کی مغائرت ذات عز و سلطانہ کے ساتھ اور( آپس میں )ایک دوسرے کے ساتھ تحقیقی ہیں نہ کہ اعتباری ۔ لہٰذا ایک صفت میں فانی ہونا تمام صفات میں فانی ہونے کومستلزم نہیں ہے۔اور اسی طرح بقا کا حال ہے۔لہٰذا مجبورا ًاس فانی کو فانی فی اللہ اور باقی کو باقی باللہ نہیں کہنا چاہئے بلکہ مطلق فانی اور باقی کہہ سکتے ہیں یا کسی ایک صفت کے ساتھ مقید کر کے کہہ سکتے ہیں( جیسے) علم کی صفت میں فانی ہے یا صفت علم کے ساتھ باقی ہے لہٰذا ناچار محمدیوں ( محمدی مشرب) کی فنا سب سے اتم اور اُن کی بقا سب سے اکمل ہے۔

❖ اسی طرح محمدی مشرب کا عروج چونکہ شیون کی جانب ہے اور شیون کو عالَم کے ساتھ کچھ بھی مناسبت نہیں ہے کیونکہ عالَم صفات کا ظل ہے نہ کہ شیون کا ظل ۔ لہٰذا سالک کا ایک شان میں فنا ہونا اُس کے فنائے مطلق کو مستلزم ہوگیا ۔اس طرح پر کہ سالک کے وجود کی بقا اور اس کا کچھ اثر باقی نہیں رہے گااوراس طرح بقا کی صورت میں کامل طور پر اُس شان کے ساتھ باقی ہو جاتا ہے بخلاف فانی فی الصفات کے جو مکمل طور پر اپنے آپ سے باہر نہیں آتا اور اس کا اثر زائل نہیں ہوتا کیونکہ سالک کا وجود اسی صفت کا اثر ہے اور اسی کا ظل ہے لہٰذا اصل کا ظہورظل کے وجود کو مکمل طور پر محو کرنے والا نہیں ہوتا اور بقا بھی فنا کے اندازہ کے مطابق ہوتی ہے لہٰذا محمدی( مشرب) والا بشری صفات کی طور لوٹ آنے سے مامون و محفوظ ہوتا ہے اور رد کے خوف سے محفوظ ہوجاتا ہے کیونکہ وہ کلی طور پر اپنے آپ سے نکل کر حق سبحانہ کے ساتھ بقا حاصل کرچکا ہوتا ہے۔ اس مقام پر عود یعنی رجوع کرنا محال ہے بخلاف فنائے صفاتی کی صورت کے کیونکہ اس جگہ وجود سالک کا اثر باقی رہنے کی وجہ سے عود کرنا ممکن ہے اور ہو سکتا ہے کہ مشائخ قدس اللہ تعالیٰ اسرارہم کے درمیان صفات بشری کی طرف واصل کے رجوع کرنے کے جواز یا عدم جواز میں جو اختلاف ہے وہ اسی سبب ہو ،لیکن حق یہ ہے کہ اگر وہ محمدی مشرب ہے تووہ عودسے محفوظ ہے ورنہ معاملہ خطرے میں ہے۔

❖ اور اسی طرح وہ اختلاف جو مشائخ کےدرمیان سالک کے فنا کے بعد وجود سالک کے اثر کے زوال پزیر ہونے میں ہے ۔ بعض (مشائخ )زوالِ عین و اثر کے قائل ہیں( یعنی وہ ذات اور صفات کے زوال کے قائل ہیں) اور بعض نے اثر کے زوال کو جائز قرار نہیں دیا اس معاملے میں بھی( حق بات جاننے کے لئے) تفصیل کی ضرورت ہے۔

اگر وہ شخص محمدی مشرب ہے تو عین اور اثر دونوں کو گُم کر دیتا ہے ۔ اور اگر وہ غیر محمدی ( مشرب) ہے تو اُس (کے وجود) کا اثر زائل نہیں ہوتا کیونکہ وہ صفت جو اُس کی اصل ہے وہ باقی ہے ۔لہٰذا اُس کے ظل کا یا اُس کا بالکلیہ زوال ممکن نہیں ۔

یہاں ایک نازک نکتہ ہے ۔ جاننا چاہئے کہ عین اور اثر کے زوال سے مراد زوالِ شہودی ہے نہ کہ وجودی کیونکہ زوالِ وجودی کا قول الحاد زندقہ(بے دینی) کو لازم آتا ہے ۔ اُس گروہ کے ایک جماعت نے زوالِ وجودی تصور کیا ہے اور ممکن کے اثر کے زوال سے اعراض کیا ہے اور اس کو الحاد و زندقہ سمجھ لیا ہے لیکن حق بات وہی ہے جس کو میں نے حق سبحانہ کے اطلاع دینے پر تحقیق کیا ہے۔

تعجب ہے کہ(یہ لوگ) زوالِ وجودی کے قائل ہونے کے باوجود زوالِ عین کے بھی قائل ہو گئے کیونکہ عین ِوجود کے زوال کا حکم کرنا اثر کے زوال کے رنگ میں مستلزم الحاد و زندقہ ہےمختصر یہ کہ زوالِ وجودی عین و اثر میں محال ہےاور زوالِ شہودی ہر دومیں ممکن بلکہ واقع ہے۔ لیکن یہ زوال محمدی مشرب والوں کے لئے مخصوص ہے کیونکہ محمدی( مشرب والے) کُلی طور پر قلب سے نکل کر مقلبِ قلب تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور غیر ِحق کی غلامی سے مکمل طور پر آزاد ہیں اور دوسروں کو چونکہ وجودِ آثار دامن گیر ہے نيز احوال کی تبدیلی اُن کا نقد وقت ہے اس لئے مقامِ قلب سے خلاصی نہیں پا سکتے کیونکہ ان کا وجود آثار و تبدیلی احوال حقیقتِ جامعہ قلبیہ کے نور کے شاخوں میں سے ہے لیکن دوسروں کا شہود ہمیشہ پردہ میں ہوگا۔ کیونکہ جس قدر بھی سالک کے وجود کا بقیہ حصہ ثابت ہے مطلوب کا پر دہ بھی اُسی قدر ہے اور جب اثر باقی ہے تو وہی اثر پردہ ہے ۔

❖معرفت❖ اگر سالک غیر متعارف سلوک کے راستے سے مراتب سلوک کے اسم میں سے کسی مرتبہ میں پہنچ جائے جو اُسکا رب ہے اور بغیر اس کے کہ اُس اسم میں پہنچے اُس مرتبہ میں پہنچنے سے پہلے ہی فانی اور مستہلک ہو جائے تو ایسی حالت میں بھی فنا فی اللہ کہنا درست ہے اور یہی حال اس مرتبہ میں بقا کا ہے۔ لہٰذا اس اسم کے ساتھ فنا فی اللہ کی تحقیق اس اعتبار سے ہے کہ جو تمام فناؤں کے مرتبوں میں سے پہلا مرتبہ ہے۔

❖معرفت❖ سلوک کی کئی قسمیں ہیں بعض کا سلوک جذبہ پر مقدم ہے اور بعض کا جذبہ سلوک پر مقدم ہے ۔ اور ایک جماعت کو سلوک کی منزلیں طے کرنے کے دوران جذبہ حاصل ہوجاتا ہے اور ایک جماعت کو سلوک کے منازل کا طے کرنا تومیسر ہو جاتا ہے لیکن وہ جذبہ کی حد تک نہیں پہنچتے۔جذبہ کا(سلوک پر) مقدم ہونا صرف محبوبوں کے لئے ہے ۔ اور باقی قسمیں محبین سے تعلق رکھتی ہیں ۔ محبّوں کے راہ سلوک طے کرنے سے مراد دس مشہور مقاما ت کو ترتیب وتفصیل کے ساتھ طے کرنا ہے اور محبوبوں کے سلوک میں دس مقامات کا خلاصہ حاصل ہو جاتا ہےان کو ترتیب و تفصیل کے ساتھ کوئی سرو کار نہیں ہوتی۔ وحدت الوجود اور اس کے مانند احاطہ اور سَرَیان اور معیتِ ذاتیہ کا علم جذبۂ مقدم یا متوسط کے ساتھ وابستہ ہے ۔ لیکن سلوک خالص او رمنتہی حضرات کے جذبہ کو اس قسم کے علوم سے کوئی مناسبت نہیں ہوتی جیسا کہ اوپر بیان کیا گیااور منتہی حضرات کے حق الیقین کو بھی توحید وجودی کے ساتھ مناسبت رکھنے والے علوم کے ساتھ کوئی مناسبت نہیں ۔جس جگہ بھی ارباب توحید وجودی کے مقام کے مناسب حق الیقین کا بیان کیا گیا وہ مجذوبان مبتدی یا متوسط کا حق الیقین ہے نہ کہ منتہی حضرات کا حق الیقین۔

❖معرفت❖ بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ جب طالب کا کام جذبہ تک پہنچ جاتا ہے تو پھر جذبہ ہی اُس کا راہبر بن جاتا ہے اور بس۔ یعنی اُس کو کسی دوسرے راہبر کے توسط کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ وہی جذبہ اُس کے لئے کافی ہے اگر اس جذبہ سے سیر فی اللہ کا جذبہ مراد ہے تو بس یہی کافی ہے لیکن لفظ (راہبر )اس ارادہ کے منافی ہے کیونکہ سیر فی اللہ کے بعد کوئی مسافت (سیر) نہیں ہے کہ جس کو طے کرنے کےلئے راہبر کی ضرورت ہو اس سے جذبہ متقدم بھی مراد نہیں کہ جیساکہ عبارت سے متبادر مفہوم ہوتا ہے۔ (یعنی جذبہ متقدم مطلقاً انجام کار سلوک کی طرف لے جائے یا نہ لے جائے وہ جذبہ ہے) ۔لہٰذا ناچار جذبۂ متوسط ہی مراد ہوگالیکن وہ مطلوب کے وصولی کی پوری کفالت کرتا ہوا معلوم نہیں ہوتا ۔کیونکہ بہت سے متوسط اس جذبہ کے وصول کے وقت فوق کی طرف عروج کرنے سے رہ جاتے ہیں۔ اور جذبہ کو جذبۂ نہایت سمجھ لیتے ہیں ۔ اگر یہ جذبہ کافی ہوتا تو اُن کو راستہ میں نہ چھوڑ دیتا۔ ہاں چونکہ جذبۂ مقدم کا تعلق محبوبوں کے ساتھ ہے اگر کافی حاصل ہوجاۓ تو بھی گنجائش رکھتا ہے کیونکہ محبوبوں کو محض عنایت قلابہ (حلقہ )سے اپنی طرف کھینچ لیتے ہیں اور راستے میں نہیں چھوڑتے لیکن یہ کفایت تما م متقدم جذبات کے حق میں بھی ممنوع ہے صرف وہ جذبہ جو انجام کار سلوک کی طرف کھینچے وہی کافی ہے اور اگر سلوک کی طرف نہیں آیا تو یہ مجذوب ابتر (بے نصیب) ہے اور محبوبوں میں سے نہیں ہے۔

❖ خاتمہ ❖ مشائخ کرام قد س اللہ تعالیٰ اسرارھم کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ تجلی ذاتی شعور کوزائل کرنے والی اور حواس ظاہرہ کو معطل کرنے والی ہے ۔ ان میں سے بعض نے اپنے حال کے نسبت ایسا کہا ہے کہ اُس تجلی ذاتی کے ظہور کے وقت ایک عرصہ تک وہ بے حس وحرکت پڑے رہے اور لوگوں نے اُن کو مردہ خیا ل کر لیا اور بعض دوسروں نے تجلی ذات میں کلام کرنے اور اُس کے سوا سے منع کیا ہے۔۔۔۔ اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ تجلی ذات اسماء میں سے ایک قسم کے پردہ میں ہے ۔ اور پردہ کا باقی رہنا صاحب تجلی کے وجود کے اثر کے بقا کے باعث ہے اور وہ بے شعوری اُس بقیہ( اثر کے) واسطہ سے ہے ۔ اگر وہ کلی طور پ ر ف انی ہوجاتا اور بقا باللہ سے مشرف ہوتا تو وہ تجلی ہر گز اُس کو بے شعور نہ کرتی۔

یحرق النار من یمس بہا ومن ھوالنارکیف یحرق

مطلب یہ کہ

جو چھوئے آگ وہ جلا دے گی جو ہوخود آگ اُسے جلا ۓ کون؟

(اس شعر میں) پہلا شخص جو آگ کو چھونے والا ہے اس لئے آگ اُس کو چھوتے ہی جلا دے گی اور لا شئے (نیست ونابود) کر دے گی ۔دوسرا وہ شخص ہے جو عین آگ ہے تو آگ اُس کو کیسے جلائے گی؟ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ جو تجلی کسی پردے میں ہوتی ہے وہ تجلی ذات نہیں ہے بلکہ تجلی صفات میں دا خل ہے کیونکہ تجلی ذات جو آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہے وہ تجلی بے پردہ ہے اور پردہ کی علامت بے شعوری ہے اور بے شعوری دوری کی وجہ سے ہے اور بے پردگی کی دلیل شعور ہے اور شعور کمال حضور کی شان ہے ایک بزرگ علیہ غفران اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اس تجلی(جو بالاصالت والاستقلال )کے ساتھ ہے کے بارے میں یوں خبر دی ہے ۔

موسیٰ ز ہوش رفت بیک پرتو صفات

تو عین ذات می نہ گری در تبسمی

اک پرتو صفات سے موسیٰ نے کھوئے ہوش

اور آپ عین ذات بھی دیکھے تو مسکرائے

اور یہی تجلی ذاتی جو بے پردہ ہے وہ محبوبوں کو دائمی طور پر حاصل ہوتی ہے اور محبّوں کے لئے برقی (کیفیت رکھتی)ہے کیونکہ محبوبوں کے ابدان ( اجسام )نے اُن کے ارواح کا رنگ اختیار کر لیا ہے اور وہ نسبت اُن میں کلی طور پر سرایت کر گئی اور محبّوں میں یہ سرایت کہیں کہیں ہے( ہر کسی کو میسر نہیں ہے) ا ور جو کچھ کہ حدیث نبوی علیہ الصلٰوۃ اتمھا ومن التحیات اکملھا میں واقع ہوا ہے.( لی معَ اللہ وقت) مجھ کو اللہ کے ساتھ ایک خاص وقت حاصل ہے ۔ اس حدیث میں وقت سے مراد یہ برقی تجلی نہیں ہے کیونکہ تجلی آپﷺ کے حق میں جو تمام مرادوں اور محبوبوں کے بادشاہ ہیں ، دائمی ہے بلکہ وقت سے اس تجلی دائمی کے ایک خاص قسم کی خصوصیت مراد ہے جو بر سبیل قلت( بہت کم) حاصل ہوتی تھی جیسا کہ ارباب طریقت پر پوشیدہ نہیں ہے۔

❖معرفت❖ مشائخ قد سرہ تعالیٰ واسرارہم کے اس حدیث ۔

لی مع اللہ وقت لا یسعونی فیہ ملک مقرب ولا نبی مرسل(مجھ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا وقت حاصل ہے جس میں کسی مقرب فرشتہ یا نبی کی گنجائش نہیں ) کی وضاحت میں دو گروہ ہیں ۔ ایک گروہ نے وقت سے مراد دائمی وقت مراد لیا ہے۔ اور دوسرا گروہ ندرۃ وقت( شاز ونادر) کا قائل ہے ۔ لیکن صحیح بات ہے کہ استمرار وقت( دائمی حضور) کے باوجود شاذ و نادر وقت بھی متحقق ہے جیسا کہ (پیشتر) اس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے۔۔۔۔۔ اور اس حقیر کے نز دیک نادر وقت کی تحقیق نماز اداء کرنے کے وقت میں ہے شائد کہ آپ ﷺ نے حدیث شریف میں( قرۃ عینی فی الصلٰوۃ ) میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے۔ میں اسی طرف اشارہ فرمایا ہو۔ نیز اسی طرح آپﷺ نے فرمایا ( اقرب ما یکون عبد من الرب فی الصلٰوۃ ) سب سے قرب بندہ کو اپنے رب سے نماز میں ہوتا ہے۔ اللہ پاک فرماتے ہیں ( والسجد واقترب)» سجدہ کر اور قربت حاصل کر۔ لہٰذا ہر اُس وقت میں جبکہ قرب الہٰی جل شانہ زیادہ حاصل ہوتا ہے اُس وقت میں غیر کی گنجائش ہر گز نہیں ہوگی۔ اور جو کچھ بعض مشائخ قدس سرہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اپنے حال کی قوت اور اس کے دائمی ہونے کی اس طرح خبر دی ہے ۔ یعنی میرا حال نماز میں بھی ویسے ہی ہوتا ہے جیسا کہ نماز سے قبل ہوتا ہے پس احادیث مذکورہ بلکہ نص مذکورہ مساوات اور استمرار کی نفی کرتی ہیں ۔

جاننا چاہئے کہ استمرار وقت تصدیق شدہ ہے ۔ بات صرف یہ ہے کہ استمرار کے باوجود حالت نادرہ بھی واقع ہوئی ہے یا نہیں ؟ ایک جماعت جس کو ندرتِ وقت کی اطلاع نہیں دی گئی اس کے نفی کے قائل ہو گئے اور دوسری جماعت جس کو اس مقام سے بہرہ ور کیا گیا اُنہوں نے اس نادر وقت کا اقرار کر لیا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ جن کو آپ ﷺ کے طفیل نماز میں جمعیت عطا کی گئی اور اُس قرب میں سے تھوڑا سا حصہ عطا کیا گیا ہے وہ بہت ہی کم ہیں۔

رزقنا اللہ سبحانہ بکمال کرمہ نصیباً من ھٰذا المقام بحرمۃ محمد علیہ و علیٰ آلہ الصلوٰۃ و التحیۃ و السلام۔

❖معرفت ❖ صفات کے منتہی حضرات علوم ومعارف میں مجذوبوں سے نزدیک ہیں اورشہود کی دولت میں بھی دونوں کی شان یک رنگ ہے ۔ کیونکہ دونوں ارباب قلوب میں سے ہیں ۔ البتہ اتنا فرق ہے کہ ارباب صفات تفاصیل سے مطلع ہیں بخلاف مجذوبوں کے( کہ وہ تفاصیل سے مطلع نہیں ہیں) ۔ اور اسی طرح ارباب صفات سلوک اور فوق کی طرف عروج کرنے کی وجہ سے ان مجذوبوں کی نسبت جنہوں نے عروج نہیں کیا زیادہ قرب رکھتے ہیں ۔ لیکن اصل کی محبت ان مجذوبوں کے دامن گیر ہے اگر چہ حجاب درمیان میں ہے ۔ کیا عجب ہے کہ « المرء مع من احب (آدمی اُس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ محبت کرتا ہے )کے تحت مجذوبوں میں بھی اصلی قرب و معیت کا اعتبار کیا جائے کیونکہ مجذوب بھی محبت میں محمدیوں کے ساتھ مناسبت رکھتے ہیں اگرچہ محبت ذاتی میں حجابات حائل ہیں لیکن مجذوبوں میں بھی محبت پائی جاتی ہے ۔

❖معرفت❖ اس گروہ صوفیا کے بعض لوگوں کی عبارت میں واقع ہے کہ اقطاب کے لئے تجلی صفات ہے اور افراد کے لئے تجلی ذات ۔ یہ بات غور طلب ہےکیونکہ قطب محمدی مشرب ہوتا ہے اور محمدیوں کے لئے تجلی ذات ہے ۔ ہاں اس تجلی (ذات )میں بھی بہت فرق ہے ۔ وہ قرب جو افراد کو حاصل ہے وہ اقطاب کو نہیں ہے لیکن دونوں کو تجلی ذات سے حصہ حاصل ہےہاں اگر ہم یہ کہیں کہ قطب سےمراد قطب ابدال ہے یعنی تکوینی قطب جو کہ اسرافیل علیہ سلام کے قدم پر ہوتا ہے نہ کہ آپ ﷺ کے قدم پر تو یہ بات درست ہے۔

❖معرفت❖ اِن اللہ خلق آدم علیٰ صورتِہِ (بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ سلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا) ۔اللہ تعالیٰ بے چون و بے چگونہ ، (بے مثل و بے کیف )ہے ۔ اُس نے آدم علیہ سلام کے روح کو بھی جو آدم علیہ السلام کا خلاصہ ہے ، کو بے چون و بے چگون کی صورت پر پیدا کیا ۔ لہذا جس طرح کے حق سبحانہ و تعالیٰ لا مکانی ہے اسی طرح روح بھی لا مکانی ہےاور روح کو بدن کے ساتھ وہی نسبت ہے جو حق سبحانہ وتعالیٰ کو عالَم کے ساتھ ہے ۔ کہ نہ عالَم میں داخل ہےنہ خارج ہے۔ نہ متصل ہے نہ منفصل ہے۔ اور قیومیت یعنی تدبیر اور تصرف کی نسبت سے زیادہ اورکوئی نسبت معلوم نہیں ہوتی ۔ روح بدن کے ذرات میں سےہر ذرہ کے قیوم اور درست رکھنے والی ہے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ قیوم عالَم (مدبر و متصرف) ہے۔ بدن کے لئے اللہ تعالیٰ کی قیومیت روح کی قیومیت کے واسطے سے ہے جو فیض بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے وارد ہوتا ہے اُس فیض کا محل ورود اولاً و ابتداءً روح ہے، پھر روح کے واسطے سے وہ فیض بدن کو پہنچتا ہے ۔ جبکہ روح بے چون اور بے چگونگی کی صورت پر پیدا کیا گیا ہے تو لازمی طور پر بے چون اور بے چگون حقیقی کی اس میں گنجائش ہو گی۔ جیسا کہ اس حدیث شریفہ سے ثابت ہے «( لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولٰکن یسعنی قلب عبد المؤمن)میری گنجائش نہ میری زمین رکھتی ہے نہ میرا آسمان البتہ میری گنجائش میرے مؤمن بندہ کا قلب ہے)۔ کیونکہ آسمان اور زمین اس قدر وسعت اور فراخی کے باوجود دائرہ مکان میں داخل ہیں۔ اور چونی اور چگونی کے داغ سے داغدار ہیں ۔ اس لئے لا مکانی کی جو چندی اور چونی( کیفیت ،کمیت اور مقدار) سے مقدس اور پاک ہے گنجائش نہیں رکھتے کیونکہ لا مکان مکانی میں سمانےکی گنجائش نہیں رکھتی اور بے چون ،چون میں آرام نہیں حاصل کر سکتا۔ تو لا محالہ عبد مؤمن کا قلب میں جو لا مکانی اور چندی اور چونی سے پاک ومبرا ہے گنجائش متحقق ہو گئی ۔ مؤمن کے قلب کی خصوصیت اس بناء پر ہے کہ غیر مؤمن کا قلب لا مکانی کی بلندی سے نیچے آچکا ہے اور چندی اور چونی میں گرفتار ہو کر اُس کا حکم اختیار کر چکا ہے۔ لہٰذا اس نزول اور گرفتاری کی وجہ سے دائرہ مکانی میں داخل ہوگیا۔ اور چونی پیدا کرکے اس قابلیت کو ضائع کر دیا ہے» اُولٰئِکَ کَالاَنعَامِ بل ھُم اضَّل»۔ یہ لوگ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ اس سے بھی زیاد ہ گئےگزرےہیں۔ جن مشائخ نے اپنے وسعت قلب کی نسبت خبر دی ہے تو اُن کی مراد قلب کی لا مکانیت ہوگی ۔ کیونکہ مکان خواہ کتنا ہی فراخ اور وسیع ہو پھر بھی تنگ ہی ہے عرش اپنی وسعت اور فراخی کے باوجود چونکہ مکانی ہے اس لئے لا مکا نی( روح )کے مقابلے میں رائی کے دانے کا حکم رکھتا ہے بلکہ اس سے بھی کمتر۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ قلب چونکہ انوار قدم (ازل) کی تجلی کا محل بن چکا ہے اور قدیم یعنی اللہ تعالیٰ کے ساتھ بقا حاصل کر چکا ہے اس لئے عرش اور جو کچھ اس میں ہے اگر اس میں ڈال دئیے جا ئیں تو محو اور لا شے ہو جائیں اُن کا کوئی اثر باقی نہیں رہے جیسا کہ سید الطائفہ جنید بغدادی ﷬ نے اس مقام پر فرمایا ہے کہ جب محدث (فانی )قدیم کے ساتھ مل جائےتو اُس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ یہ ایک ایسا یکتا لباس ہے جو خاص روح کی قد پر سیا گیا ہے ملائکہ کو بھی چونکہ یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ بھی دائرہ مکان میں داخل ہے اور چون سے متصف ہے اس لئے انسان خلیفہ رحمان جل شانہ قرار پایا۔

ہاں صور تِ شئے ہی خلیفۂ شئے ہوتی ہے جب تک کہ شئے ( اصل) کی صورت پر پیدانہ کی گئی ہو اُس وقت تک اصل شئے کی خلافت کے شایان نہیں ہو سکتی۔ اور جب تک خلافت کے لائق نہ ہو اصل کے امانت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتی۔ « لا یحمل عطایا الملک الا مطایاہ» بادشاہوں کی اطاعت اُس کی سواری ہی اٹُھا سکتی ہے ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ۔ ““ إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَةَ عَلَی السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَها وَ أَشْفَقْنَ مِنْها وَ حَمَلَهَا الْإِنْسانُ إِنَّهُ کانَ ظَلُوماً جَهُولاً ” (سورۃ الاحزاب )

(بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو اُنہوں نے اس کو اُٹھانے سے انکار کر دیا اور ڈر گئے لیکن انسان نے اُس کو اُٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے)۔ کہ اپنے وجود اور توابع وجود کا حکم اثر کوئی باقی نہیں چھوڑتا اور زیادہ نادان اور جاہل اس اعتبارسے ہے کہ اس کو اپنے مقصود سے متعلق اور کچھ ادراک ہی نہیں اور نہ ہی اس کو اتنا علم ہے کہ اپنے مطلوب کی نسبت معلوم کر سکے بلکہ اس مقام میں ادراک سے عاجز ہونا ہی ادراک ہے ۔ اور جہالت کا اعتراف ہی معرفت ہے۔البتہ جس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی وہ سب سے زیادہ حیرت میں ہوگا۔

تنبیہ ❖ اگر بعض عبارات میں کوئی ایسا لفظ واقع ہو جس سے حق سبحانہ وتعالیٰ کے شان ظرفیت اور مظروفیت ہونے کا وہم ہوتا ہو تو اس کو میدان عبارت کی تنگی پر محمول کرنا چاہئے اور کلام کے مراد کو علماء اہل سنت کے آراء کے مطابق سمجھنا چاہئے ۔

❖معرفت❖ عالَم خواہ صغیر ( انسان) ہو یا کبیر (مجموعہ کائنات) سب اسماء و صفات الٰہیہ جل شانہ کے مظاہر ہیں۔ اور اُس سبحانہ وتعالیٰ کے شیون و کمالات ذاتیہ کے آئینے ہیں ۔ اور وہ سبحانہ وتعالیٰ ایک مخفی خزانہ تھا اور ایک پوشیدہ راز تھا اُس نے چاہا کہ پوشیدگی سے ظہور میں جلوہ گر ہو اور اپنے آپ کو اجمال سے تفصیل میں لے آئے (چنانچہ اُس نے) عالَم کو پیدا کیا تا کہ اپنے اصل پر دلالت کرے اور اپنی حقیقت پر علامت ہو ۔ لہٰذا عالَم کو اپنے صانعِ بے چون کے ساتھ اس کے سوا کوئی نسبت نہیں کہ عالَم(دنیا) اُسکی مخلوق ہے اور اُس ذات وتعالیٰ و تقدس کے پوشیدہ کمالات پر دلیل ہے۔ اور اس نسبت کے علاوہ ہر حکم اتحاد و عینیت ، احاطہ و معیت وغیرہ یہ سب سُکرِ وقت اور غلبۂ حال کی اقسام ہیں۔ مستقیم ا لاحوال اکابر جنہوں نے اُن کےصحو یعنی ہوش کے جام سے گھونٹ پی لیا ہے وہ بھی ان علوم سے بیزار اور استغفار کرتے ہیں اگر چہ ان میں سے بعض کو راہ سلوک کے دوران یہ علوم بھی حاصل ہو جاتے ہیں لیکن آخر کار ان علوم سے گزار دیتے ہیں اور علوم شریعت کے مطابق ان پر علوم لدنی وارد فرماتے ہیں ۔ اس بحث کی تحقیق کے لئے ہم ایک مثال بیان کرتے ہیں ۔ایک نہایت ہوشیار عالِم صاحب فنون جب چاہتا ہے کہ اپنے پوشیدہ کمالات کے خزانےکو ظہور کے میدان میں لائے اور اپنے پوشیدہ فنون کے برملا ظاہر کرے تو حروف ، اصوات اور آواز کو ایجاد کرتا ہے تاکہ ان حروف و آواز کے پردوں میں ان کمالات کے جلوؤں کو ظاہر کر کے اپنے فنون کو ظاہر کرے لہٰذا ایسی صورت میں یہ حروف و اصوات اس کے پوشیدہ معنوں پر دلالت کرنے والے ہوں گے لیکن اس عالِم موجد کے ساتھ اس کے علاوہ اورکوئی نسبت نہیں کہ وہ عالِم ان کا موجد ہے اور یہ سب اُس کے پوشیدہ کمالات پر دلالت کرنے والے ہیں ۔اور ان حروف و اصوات کو اس عالِم موجد کا عین یا ان معانی کا عین کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور اس طرح احاطہ و معیت کا حکم کرنا بھی اس معاملے میں غیر متحقق ہے ۔ معانی اپنی اس پوشید ہ سادگی میں ہیں ہاں جس طرح معنی اور صاحب معنی اور حروف اور اصوات کے درمیان دال و مدلول کی نسبت موجود اور متحقق ہے اس لئے بعض معنی زائدہ غیر واقع تخیل میں آجاتے ہیں ۔ حقیقت میں وہ عالِم اس کے پوشیدہ معنی کے نسبت ظاہر سے منزہ و مبرہ ہے اور یہ حروف و اصوات خارج میں موجود ہیں نہ یہ کہ عالِم و معنی موجود ہیں اور وہ حروف و اصوات محض اوہام و خیالات ہیں پس عالَم جو ماسوائے اللہ سے مراد ہے وجود ظلی اور کون طبعی کے ساتھ خارج میں موجود ہے نہ یہ کہ عالِم اور معانی موجود ہیں اور وہ حروف و اصوات محض اوہام و خیالات ہیں ۔پس عالَم (جو ما سوا اللہ) وجود ظلی و کون تبعی کے ساتھ خارج میں موجود ہے نہ کہ عالَم اوہام و خیالات ہے۔ یہ مذہب بعینہ سو فسطائی مذہب کے مطابق ہے جو عالَم کو اوہام اور خیالات جانتا ہے اور کہتا ہے کہ عالَم میں حقیقت کو ثابت کرنا عالَم کو اوہام وخیالات سے نہیں نکالتا اُس صورت میں حقیقت موجود ہو گی نہ کہ عالَم ۔ کیونکہ عالَم اس حقیقت مفروضہ کے علاوہ ہے۔

❖تنبیہ❖ عالَم کا اللہ تعالیٰ کےاسماء و صفات کا مظہریت اور مرأتیت ظاہر ہونا اور آئینہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ وہ اسماء و صفات کی صورتوں کا مظہر اور آئینہ ہے نہ کہ اسماء وصفات کے آئینےہیں ۔کیونکہ اسم بھی مسمّٰی کے مانند کسی آئینےمیں محدود نہیں ہو سکتا۔ اور صفت بھی اپنے (بے مثل) موصوف کی طرح کسی مظہر میں مقید نہیں ہو سکتی۔

در تنگہاۓ صورت معنی چگونہ گنجد

درکلبۂ گدایاں سلطان چہ کار دارد

❖معرفت❖ آپ ﷺ کی کامل تابعداری کرنے والے اگرچہ آپﷺ کی اتباع کی برکت سے اُس تجلی ذات سےجو باالاصالت آپﷺ کا خا صہ ہے بہرہ مند ہیں اور باقی تمام انبیاء کرام علیھم السلام کے لئے تجلیات صفات ہیں اور تجلی ذات تجلی صفات سے اشرف ہے لیکن جاننا چاہئے کہ انبیاء علیہم السلام کو تجلیات صفات میں قرب کے جو مراتب حاصل ہیں وہ اس امت کے کامل تابعداروں کو بطریق طبیعت تجلی ذات کے حاصل ہونے کے باوجود حاصل نہیں ہیں ۔ مثلاً کوئی شخص جمال آفتاب کی محبت میں عروج کے مدارج طے کرتا ہوا سورج تک پہنچ جائے اور سورج اور اسکے درمیان سوائے ایک باریک پردہ کے کچھ بھی حائل نہ رہے اور ایک دوسرا شخص جو ذات آفتاب کی محبت کے باوجود اُن مراتب تک عروج کرنے سےعاجز ہے اگرچہ اُس شخص کے اور آفتاب کے درمیان کوئی پردہ حائل نہ ہو تو اس میں کوئی شک نہیں کہ پہلا شخص آفتاب سے زیادہ نزدیک ہے اور اُس کے کمالات دقیقہ کو زیادہ جاننے والاہے ۔ پس جس کو قرب زیادہ حاصل ہے وہ معرفت میں بھی زیادہ فاضل تر ہے لہٰذا اس اُمت کے اولیاء میں سے جوکہ خیر الامم ہے کوئی ولی اپنے پیغمبر کی افضلیت کے باوجود انبیاء میں سے کسی نبی کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا اگر چہ اس (ولی) کو اپنے پیغمبر کے متابعت کی وجہ سے اس مقام سے جس کے ساتھ اس کو افضلیت حاصل ہے ، سے بہرہ مند ہو چکا ہو کیونکہ کُلی فضیلت صرف انبیاء کرام کو حاصل ہے اور اولیا ءان کے طفیلی ہیں۔ ہم اس مضمون پر اپنے کلام کو ختم کرتے ہیں۔

الحمد للہ سبحانہ علیٰ ذالک و علیٰ جمیع نعمائِہ و الصلوٰۃ و السلام علیٰ افضل انبیائِہِ و علی جمیع انبیاءِ و المرسلین و الملائِکَ المقربین و علی الصدیقین و الشہداءِ و الصالحین۔۔

 

تسہیل و تشریح

 

ت ت❖ حضرتؒ اس میں فرماتے ہیں:

جیسا کہ دیکھا گیا ہے کہ طریقت کے طالبین میں سے جو کم ہمت ہوتے ہیں وہ اصل سلوک کو ، جوکہ کافی طویل اور محنت طلب ہے ، چھوڑ کر اس راستے کو مختصر کر کے درمیان کی چند چیزوں پر اکتفا کر بیٹھتے ہیں ۔اسی کو ہی مقصود بنا کر ،اس کے حصول پر غرہ کرکے ،پھر اپنے آپ کو منتہی اور کامل بھی خیال کرنے لگتے ہیں اور مزید یہ کہ اس راستے کے کاملین پر خود کو قیاس بھی کرلیتے ہیں۔ حالانکہ انہوں نے اس راستے کے بہت تھوڑےپر قناعت کی ہوتی ہے۔یہ اپنے تخیل میں کسی چیز کو مطلوب سمجھ کر اور پھر اس کو پایا ہوا خیال کرکے مطمٔن بھی ہوجاتے ہیں۔یہ جو مثل ہے، اس کے لیےکوئی مثال گڑھ کر اس پر عا شق ہوجاتے ہیں جس کی مثال ہوتی ہے۔ چونکہ حق تعالیٰ کے لیےکوئی مثال ممکن نہیں اس لیے عارفین فرماتے ہیں کہ جس نے اللہ تعالیٰ کے بارے میں یہ کہا کہ اللہ ایسا ہے یعنی اس کے لیے کوئی مثال ذہن میں رکھ لے تو اس کو کہنا چاہیے کہ اللہ ایسا نہیں(مثلاً خدا تعالیٰ کے بارے میں کسی نور کا خیال کرلیتے ہیں یا کسی اور مقدس چیز کا حالانکہ اللہ تعالیٰ جسم اور مثال سے پاک ہے)۔

ان کے مقابلے میں کچھ حضرات ایسے بھی ہوتے ہیں جو تقلیداً کہہ دیتے ہیں کہ ہم ایسی ذات پر ایمان لاۓ ہیں جس کی کوئی مثال نہیں اور اس بے مثال ذات کے گرویدہ ہوتے ہیں۔ یہ ان پہلی قسم کےسالکوں ، جو سراب کے شیدا ئی ہیں، سے بدرجہا بہتر ہیں کیونکہ یہ حق کو جانتے ہیں اور غلطی نہیں کرہے ہیں ۔پس جس طرح اہل حق اور اہل باطل ایک جیسے نہیں ہوسکتے،اسی طرح صحیح اور غلط بھی ایک جیسے نہیں ہوتے ۔وہ طالب جو صحیح بات تک نہیں پہنچ سکے اور انہوں نے کسی مخلوق کو خالق خیال کیا اور جس کی کوئی مثال نہیں، اس کو کسی مخلوق کی طرح سمجھا ، سخت غلطی میں مبتلا ہیں ۔اگر یہ ان کا کشف ہے اور اس کو صحیح سمجھتے ہیں تواگر ان کو اس غلط کشف کے ماننےپر،معذور سمجھ کر معاف نہ کیا گیا تو پھر ان کے حال پر بہت ہی افسوس ہے۔

ان تینوں کا کردار ایک مثال سے واضح کیا جاسکتا ہے ،مثلاً ایک شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو گیا لیکن راستے میں کسی اور مکان کو کعبہ خیال کرتےہوۓ،ادھر ڈیرہ جمایا ،کیونکہ وہ خانہ کعبہ کا مشابہ تھا ۔اور دوسرا کوئی شخص خانہ کعبہ کی زیارت کو گیا تو نہیں، لیکن جو خانہ کعبہ دیکھ چکے ہیں، ان سے معلوم کرکے خانہ کعبہ کی تفصیلات جانتا ہے ۔ اس دوسرے شخص نے اگر چہ اس کی زیارت کے لیےایک قدم بھی نہیں اٹھایا ہے لیکن وہ اس پہلے دھوکہ کھانے والے شخص سے بہتر ہے کیونکہ اس کا علم صحیح ہےاور وہ گمراہ نہیں ہے۔ تیسرا ایک شخص جوخانہ کعبہ کی زیارت کو گیا ہے اور ابھی پہنچا نہیں وہ اس دوسرے شخص سے بھی بہتر ہے کیونکہ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے وہ عملی قدم اٹھا چکا ہے جبکہ وہ دوسرا اس سے ابھی محروم ہے۔ان تینوں میں سے کوئی بھی اگر اپنے آپ کو خانہ کعبہ کا واصل سمجھے گا تو چونکہ ایسا حقیقت کے مطابق نہیں ہےاس لیے وہ یقیناً گمراہ ہوگا اور اگر اس نے دوسروں کو کہنا بھی شروع کیا کہ یہ خانہ کعبہ ہے تو پھر یہ نہ صرف خود گمراہ ہوگا بلکہ دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا۔

اسی طرح اگر کوئی سالک ابھی راستے میں ہے اور وہ غلطی سے اپنے آپ کو کامل سمجھے جبکہ وہ کامل نہ ہو اور اس کی بنیاد پر پیر بن جاۓ تو جتنے لوگ بھی اس کی طرف رجوع کریں گے تو اپنے نقص کی وجہ سے دوسروں کی اصلاح سے قاصر تو ہوگا ہی ، استعداد والوں کی استعداد بھی ضائع کرے گا خود بھی گمراہ ہوگا دوسروں کو بھی گمراہ کرے گا خود بھی ضائع ہوگا دوسروں کو بھی ضائع کرے گا۔

ت ت

یہ اپنے کامل ہونے کا وہم ایسےمجذوبوں کو زیادہ ہوتا ہےجن کا سلوک ابھی نامکمل ہو،بہ نسبت ان سالکوں کے جو جذب کو حاصل نہ کرسکے ہوں۔کیونکہ سلوک سے راستے کی پہچان ہوتی ہے اور تزکیۂ نفس ہوجاتا ہے اور جذب میں رستے کا پتہ نہیں ہوتا لیکن دل اللہ پر عاشق ضرور ہوتا ہے۔ پس وہ سالکین جو بے شک جذب ابھی حاصل نہ کرچکے ہوں، راستے کی پہچان اور تزکیہ نفس کے ہونے کی وجہ سے ، وہ اپنے آپ کو کامل نہیں سمجھتا۔ جن کو جذب تو حاصل ہو لیکن ان کی نفس کا تزکیہ ابھی نہ ہو چکا ہو ،رستے کی پہچان نہ ہونے کی وجہ سے وہ نفس کے کسی تقاضے سے دب کر شیطان کے اغوا میں آکر غلط فہمی میں پڑ سکتے ہیں کیونکہ شیطان نفس کے اندرونی تقاضوں کو خوب سمجھتا ہے ،اوروہ اس کو کچھ چیزوں کو مطلوب سمجھا کر گمراہ کرسکتا ہے (جیسا کہ خانہ کعبہ والی مثال سے واضح ہے)۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مبتدی مجذوب یعنی جس کوجذب کی ابتدا کی وجہ سے شوق تو ہو لیکن اس کے نفس کا تزکیہ نہ ہوا ہو اور منتہی مجذوب جس کے نفس کا تزکیہ بھی ہوچکا ہو جذب میں تو باہم یکساں نظر آسکتے ہیں لیکن ان دونوں میں بہت زیادہ فرق ہوتا ہے۔ کیونکہ پہلی صورت میں تزکیہ نفس نہ ہونے کی وجہ سے بندہ روحانی طور پر بیمار ہوتا ہے اور نفس سے اثر لے رہا ہوتا ہے۔ اور وہ شیطان کے دھوکے میں آسکتا ہے۔ اور انتہا میں سلوک طے کرنے کے بعد بندہ فانی فی اللہ ہوکر حق کے ساتھ ہوجاتا ہے۔ اس لیےاس کا سب کچھ حق کے لیےہوتا ہے۔ وہ نفس کے داؤ میں پھرعموماً نہیں آتے اور اگر کسی وقت ایسا ہوجاۓ تو اس کو جلدی تنبیہ ہوجاتی ہے اور اس کو فوراً رجوع الی اللہ نصیب ہوجاتا ہے۔

ت ت

❖ طریقہ عالیہ نقشبندیہ میں جذب چونکہ پہلےحاصل ہوتا ہے اورسلوک بعد میں طے ہوتا ہے،اس لیےاس طریقے کے مجذوبوں کو جن کا سلوک ابھی طے نہ ہوا ہو،مذکورہ وجہ کی بنا پر اپنے کمال کا وہم بہت زیادہ لاحق ہوسکتا ہے۔ان میں بعض حضرات کوجذب کی حالت میں جو احوال کی تبدیلی محسوس ہورہی ہوتی ہے ، اس سے وہ سمجھ سکتے ہیں کہ شاید سلوک طے ہورہا ہےاور کبھی کبھا ر اس سے یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ سیر الی اللہ کی تکمیل ہو گئی اور اپنے آپ کو محض مجذوب کے بجاۓ، مجذوب سالک گمان کرلیتے ہیں۔ اسلیےضروری ہے کہ جذب و سلوک کی حقیقت بیان کی جاۓ اور ان میں جو فرق ہے اس کو بھی واضح کیا جاۓ۔نیز اس میںان دونوں کی وہ خاصیتیں بھی بیان کی جائیں جو ان دونوں کا فرق واضح کریں جس سے جذب مبتدی اور جذب منتہی کے درمیان فرق سمجھ میں آجاۓ۔ ایک میں ان معارف کو بیان کیا جاۓ گا جو جذب سے تعلق رکھتے ہیں اور دوسرے میں سلوک کے معارف بیان کیٔے جائیں گے۔

 

پہلا حصہ

ت ت

جنہوں نے سلوک مکمل طور پر طے نہ کیا ہو لیکن قوی جذب رکھتےہوں وہ ارباب قلوب میں سے ہیں چاہے یہ جذب جس طرح بھی حاصل کر چکے ہوں ، کیونکہ جذب کا مقام دل ہے اور یہاں سے مزید ترقی سلوک کے ذریعے ہی ہوسکتی ہے۔پس جب تک نفس کا تزکیہ نہ ہوچکا ہو تو نفس کے اثر کی وجہ سے یہ محبت اللہ تعالیٰ کے لیےخالص نہیں ہوگی اور اس میں کچھ اپنی نفسانی غرض بھی شامل ہوگی۔اس طرح یہ اصلی نہیں ہوگی اس میں کچھ کھوٹ ہوگا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ایسی حالت میں قلب پر نفس اور روح دونوں کا اثر ہوسکتا ہے جس کی وجہ سے ظلمت اور نور دونوں اس میں پاۓ جاسکتے ہیں(فالہمھا فجورھا و تقوٰھا) اس لیےجب تک مجذوبِ محض، سلوک کے ذریعے نفس سے مکمل خلاصی حاصل نہ کرے اور اس کا نفس ، روح سے بالکل جدا ہوکر بندگی اختیار نہ کرے ،اس وقت تک اس کی روح اللہ تعالیٰ کی طرف کامل طور پر متوجہ نہیں ہوسکتی۔

ت ت❖

ان ارباب قلوب کی نظر صرف روح تک ہی پہنچ سکتی ہے کیونکہ قلب سے اوپر روح ہے۔اس لیےاس کی نظر صرف روح تک جاسکتی ہے اور روح سے اوپر جو کچھ ہے، اس تک اس کی نظر نہیں پہنچ سکتی ۔اس لیےان کا مشہود صرف روح ہوسکتا ہے حق تعالیٰ نہیں ۔ان کا مشہود حق تعالیٰ تب ہوگا جب یہ پہلے مقام روح تک پہنچیں گے پھرآگے مزید ترقی کریں گےجیسا کہ اوپر بتایا گیا ہے۔حق تعالیٰ کا شہود ان کو تب حاصل ہوگا جب یہ سالک بن کر فنایٔت حاصل کریں گےجو سیر الی اللہ کی منتہا ہے۔

ت ت ❖

یہ جو اس کو شہود کہا گیا یہ بھی الفاظ کی تنگ دامنی کی وجہ سے مجبوراً کہنا پڑا کیونکہ کیفیات کا الفاظ میں بیان کرنا تقریباً ناممکن ہوتا ہے، ورنہ جو منتہی ہوتے ہیں ان کا شہود تو اللہ تعالیٰ کی ذات کا ورا ء الوراءہونے کا حق الیقین حاصل ہوناہے۔جیسا کہ ان کا مطلوب بے مثل اور بے کیف ہے اسی طرح ان کا اتصال بھی بے مثل و بے کیف ہوسکتا ہے کیونکہ مثل اور بے مثل میں کوئی مناسبت ہو ہی نہیں سکتی۔

اربابِ سلوک کے محققین کے نزدیک منتہی کے لیے حق سبحانہ تعالیٰ کا محیط ہونا ،سرایت کرنا اور اس کے قرب و معیت کی باتیں علمی کیفیات ہوتی ہیں۔
فی الحقیقت ایسا ہونا ناممکن ہےاور یہی علماۓ حق کا مسلک ہے۔ان کے نزدیک قرب ذاتی اور اس طر ح کی دوسری باتوں کا یقین کرنادرست نہیں ۔ایسی باتیں دوری اور بے حاصلی کی نشانی ہوتی ہیں ، یعنی معرفت کے نہ ہونے کی علامت ہیں۔ کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ کی ذات کی معرفت حاصل ہوگی اور اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک ہوگاوہ ان باتوں کو اللہ تعالیٰ کے لیےکیسے ثابت کرےگا۔ایک بزرگ فرماتے ہیں کہ جو یہ کہتا ہے کہ میں اللہ کے قریب ہوں وہ دور ہے اور جو یہ سمجھتا ہے کہ میں دور ہوں وہ قریب ہے اور یہی تصوف ہے۔

ت ت

اور سکر کے ساتھ وحدت الوجود کی باتیں عشق اور مستی کی بدولت محسوس کیفیات ہوتی ہیں ۔کیونکہ جس کو اللہ تعالیٰ سے عشق ہوگا، اس کو عشق کی بدولت صرف اپنے معشوق، یعنی اللہ تعالیٰ ہی کا پتہ ہوگا۔ کسی اور چیز کا اس کو احساس نہیں ہوگا ۔لیکن اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ اور کوئی چیز ہے ہی نہیں۔پس جو ارباب قلوب سلوک کے راستے سے جذب کے بغیر منازل طے کررہے ہیں تو ان کا ان باتوں کی طرف خیال بھی نہیںجاتا ،اور جو مجذوب سلوک کے راستے پہ چل کر مکمل توجہ حق تعالیٰ کی طرف کر چکے ہوں وہ ان سے چونکہ نکل چکے ہوں گے، ان کو بھی ان باتوں سے سروکار نہیں ہوگا۔البتہ ان میں بعض مجذوب ایسے ہوسکتے ہیں جو گو سلوک کے راستے سے آئے ہوں لیکن ان کی نظر راستے کے کسی اور مطلوب چیز پر ہو جس کی وجہ سے وہ مزید آگے بڑھنے سے رہ جائیں اور ان علوم میں سرگرداں ہوجائیں اور بلند مقامات کی طرف توجہ کرنا ان کو نصیب نہ ہو۔

کسی سالک کا اس قسم کی وجودی باتوں سے اعراض، اس عارضی کیفیت سے نکلنے کی، اور تنزیہہ کی علامت ہوتی ہے ۔ اور جس کو تنزیہہ و تزکیہ کے ساتھ مناسبت جس قدرزیادہ ہوگی اس پر مخلوق کا اپنے خالق کے سامنے کچھ نہ ہونا زیادہ ظاہر ہوگا۔ اس حالت میں عالم کو اللہ تعالیٰ کا عین سمجھنایا اللہ تعالیٰ کا عالَم کا محیط بالذات ہونا کیسے ماناجا سکتا ہے؟

ت ت

❖ حضرت خواجہ نقشبند قدس سرہ فرماتے ہیں مانہایت رادر بدایت درج می کنیم ، یعنی ہم نہایت کو بدایت میں درج کرتے ہیں ۔ نقشبندی سلسلے کے بانی حضرت خواجہ نقشبند ؒ کے قول کا مطلب یہ ہے کہ( چونکہ نقشبندی سلسلہ جذب سے شروع ہوتا ہے اور سلوک پر ختم ہوتا ہے جبکہ باقی سلاسل میں پہلے سلوک طے کرایا جاتا ہے پھرجذب کے ذریعے ان کی تکمیل ہوتی ہے) جذب چونکہ قلبی ہوتا ہے اور قلب، نفس اور روح کے درمیان برزخ ہوتا ہے ، اس کے ایک طرف اگر نفس ہے تو دوسری طرف روح ہے۔لہٰذا نقشبندی سلسلہ میں اس جذب کا کچھ حصہ روحی بھی ہوتا ہے جو کہ انتہاء میں منتہیوں کو حقیقتاً حاصل ہوتا ہے ،اس کا اس سلسلے میں ابتدا ہی میں تعارف کرا دیا جاتا ہے جسکو اندراج فرمایا گیا ۔ دوسرے سلاسل کے حضرات کے ہاں اس کا کوئی باقاعدہ طریقہ نہیں ہے۔ اس وجہ سے نقشبندی سلسلہ میں بعض استعداد والے حضرات کو اس مقام میں منازل سلوک طے کیٔے بغیر بھی ارباب سلوک کے مشابہ ایک طرح کی فنا اور بقا حاصل ہوجاتی ہے اور مقام سیر عن اللہ باللہ کے مشابہ ، مقام تکمیل کا کچھ حصہ بھی حاصل ہوجاتا ہے جس کے ساتھ یہ مستعد لوگوںکی تربیت کرتے رہتے ہیں ۔

(نقشبندی سلسلے میں لطائف کے دور کا ایک پورا نظام ہے جو دوسرے سلاسل میں اس طرح نہیں ہے پھرمراقبات کا سلسلہ ہے وغیرہ وغیرہ۔ ۔حضرت تھانویؒ نے ایک موقعہ پر ارشادفرمایا کہ میں ابتدا میں ہی سالک کو واصل کرا دیتا ہوں۔کسی نے کہا کہ ابتدا ہی میں یہ کیسے ہو سکتا ہے ؟فرمایا میں سنت پر لگا دیتا ہوں۔اور سنت میں چونکہ جذب ہےلہذا اللہ تعالیٰ اُسے کھینچ لیتا ہے۔جب اللہ اس کو کھینچ لیتا ہے تو بعد میں پہنچا بھی دیتا ہے،اس سے بہر حال کام شروع ہو جاتا ہے۔ تو یہی بات حضرت تھانویؒ نے بھی فرمائی۔اس لیے کہا جا سکتا ہے کہ آج کل کا معیاری طریقہ یہی ہےکیونکہ آج کل ابتدا سے مجاہدہ کے لیےکوئی تیار نہیں ہوتا ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ مجاہدہ کے لیےبھی کسی قدر جذب کی ضرورت ہے اور اگر یہ نہ ہو تو کوئی مجاہدہ نہیں کرسکتا)

ت ت

❖ روح کو بدن کے ساتھ تعلق حاصل ہونے سے پہلے یعنی عالَمِ ارواح میں اپنے مقصود کی طرف ایک قسم کی توجہ حاصل تھی ۔جب روح بدن میں آگیا تو(بدن کے تقاضوں میں مشغولی کی وجہ سے ) وہ توجہ زائل ہوگئی۔نقشبندی سلسلے کے اکابرین نے اس توجہ کو دوبارہ حاصل کرنے کا ایک کسبی طریقہ وضع کرلیا لیکن روح کے بدن کے ساتھ تعلق کی وجہ سے قلب پر روح اور نفس دونوں کا اثر ہوتا ہے۔ اس لیے جب قلب میں اس توجہ کو دوبارہ حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو وہ روح اور نفس دونوں کی جامع توجہ ہوتی ہے یعنی وہ نفس سےبھی متاثر ہوتی ہے اور روح سے بھی۔اس لیےاس توجہ سے نفس کے اثر کو دور کرنے کے لیےسلوک طے کرنا لازمی ہوتا ہے پس جب سلوک طے کرکے سالک فناۓ نفس کا مقام حاصل کرتے ہوۓ ،روح کی فنا حاصل کرلیتا ہے تو روح کو اب جوتوجہ اپنے مقصود کے طرف حاصل ہوگی وہ اس توجہ سے مختلف ہوگی جو روح کو بدن سے متعلق ہونے سے پہلے حاصل تھی کیونکہ روح کو اس وقت کسبی فنا حاصل نہیں تھی۔ موجودہ توجہ فناۓ نفس وروح کے بعد کسبی طور پر حاصل کی گئی ہے۔البتہ ابتدائے سلوک میں کسباََحاصل ہونے والی توجہ ، صورتاَ َ انتہائے سلوک پر حاصل ہونے والی توجہ کی طرح ہی ہوتی ہے جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہوتا کیونکہ صورت اور حقیقت میں بہت فرق ہوتا ہے۔پس حضرت خواجہ نقشبند ؒکا نہایت کو بدایت میں درج کرنے کا فرمان اس طرف اشارہ ہے کہ توجہ روحی کو حاصل کرنے کا یہ کسبی طریقہ کہیں اور نہیں (لیکن اس پر رکنا نہیں ہوتا کیونکہ اس کی حقیقت کو پانے کے لیےسلوک طے کرنا ہوتا ہے)۔اس ملفوظ کا ان الفاظ میں ذکر شاید اس لیےفرمایا کہ سالکین کو اس کے حاصل کرنے کا شوق ہو ۔

ت ت

❖ بعض سابقین یعنی سبقت کرنے والے، جنہوں نے بغیر کسی عمل اور ظاہری کسب کے ذریعے جذب حاصل کیا ہو ، ان کا جذب بھی قلبی ہوتا ہے اور ان کی روح کی توجہ وہی سابقہ ان کی روح کی توجہ ہی ہوتی ہے جن کا تعلق بدن کے ساتھ ابھی باقی ہے پس سابقہ روحی توجہ کے ظہور کے لیےکسب و عمل کی ضرورت ان کو پڑے گی جو بدنی تعلق کے بعد روح کی توجہ بالکل فراموش کرچکے ہوں لیکن یہ کسب و عمل والے لوگ ان سابقین لوگوںسے جنہوں نے اس روح کی توجہ کو فراموش نہیں کیا زیادہ لطیف استعداد رکھنے والے ہوتے ہیں کیونکہ سابقہ توجہ کو بالکل فراموش کرنا متوجہ الیہ کی طرف توجہ کے ساتھ گم ہونے کی علامت ہے ،اور اس کو فراموش نہ کرنا ایسا نہیں ہے خلاصۂ کلام یہ ہے کہ ان سابقین میں وہ توجہ کلی طور پر ایسی سرایت کرجاتی ہے کہ ان کا بدن بھی روح کی طرح ہوجاتا ہے جیسا کہ محبوبین اور مرادین میں ہوا کرتا ہے لیکن یہ اس کی محض صورت ہوتی ہے حقیقت نہیں اور صورت اور حقیقت میں جو فرق ہوتاہے وہ واضح ہے، ہاں جو محبان واصل ہیں یا مریدان کامل ہیں ان میں یہ حقیقی طور پر کبھی کبھی بجلی کی طرح کوندتی ہے جو دیرپا نہیں ہواکرتی ۔اس کی دیر پا حالت صرف محبوبوں کو ہی حاصل ہوسکتی ہے۔

(یعنی بغیر کسی کسب و عمل کے سابقہ توجہ، انجذاب قلبی کے ساتھ بذریعہ توجہ حاصل تو ہوسکتی ہے لیکن کسب و عمل سے جو حاصل ہوتی ہے وہ محبان واصل اور مریدان کو حقیقی طور پر برقی انداز سے حاصل ہوتی ہے جبکہ کسب کے بغیر توجہ سے محبوبوں کی طرح صورتاً وہ توجہ حاصل ہوسکتی ہے حقیقتاً نہیں،البتہ محبوبوں کو یہ حقیقی اوردائمی طور پر حاصل ہوتی ہے)

ت ت❖معرفت ❖

مجذوبوں میں بعض حضرات کچھ ایسا رسوخ اور تمکین حاصل کرلیتے ہیں کہ ہوش و حواس میں رہ کروہ کچھ لوگوں کو نفع پہنچاسکتے ہیں ۔وہ چونکہ مجذوب ہوتے ہیں اس لیےان کی صحبت میں دوسروں کو بھی جذب حاصل ہوجاتا ہے (لیکن جیسا کہ نمبر9 میں بتایا گیا کہ نفس کی اثر سے نکلنے کے لیےسلوک کا طے کرنا لازمی ہے ) اور انہوں نے چونکہ جذب کے حصول کے بعد سلوک نہیں طے کیا ہوتا ہےاس لیےوہ کامل نہیں ہوتےاور اس لیےدوسروں کو کمال تک نہیں پہنچا سکتے ۔ ان کی عام فیض رسانی البتہ ان ارباب سلو ک سے بھی زیادہ ہوتی ہے جو سیر عن اللہ باللہ کے طریق سے ابھی مقام قلب میں نیچے نہیں آۓ ہوں ۔کیونکہ منتہی جب تک مخلوق کی طرف رجوع کرکے عالَم کے سا تھ مناسبت حاصل نہ کرے مخلوق کو فائدہ نہیں پہنچا سکتا،چاہے وہ کتنا ہی سلوک کی انتہا تک پہنچا ہو اور منتہیوں والا جذب پیدا کرچکا ہو۔

ت ت ❖

(وہ منتہی جن کا رخ مخلوق کی طرف ان کی اصلاح کے لیےموڑا جاتا ہے منتہی مرجوع کہلاتے ہیں ۔اس رجوع کو سیر عن اللہ باللہ بھی کہتے ہیں ۔یہ مخلوق کے اندر رہ کر ان کو نفع پہنچاتے ہیں) ۔ان کو شیخ مقتدا اور برزخ بھی کہتے ہیں کیونکہ وہ مقامِ قلب میں نیچے اتر آیا ہوتاہے جس کے اوپر روح اور نیچے نفس ہوتاہے ۔اس طرح یہ دونوں کے درمیان برزخ ہوتاہے ۔یہاں سے مقتدا روح اور نفس دونوں کے ساتھ رابطہ رکھتا ہے۔ روح کی جہت سے اپنی روحانیت یعنی تعلق مع اللہ سے فائدہ حاصل کرتا ہے اور نفس کی جہت سے وہ نفس سے متاثر لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ تو شیخ خود بھی اس طرح برزخ بن جاتا ہےکیونکہ وہ حق تعالیٰ کی طرف بھی متوجہ ہوتا ہے اور مخلوق کی طرف بھی اور ان دونوں کی طرف بیک وقت متوجہ ہونے میں اس کے لیے کسی قسم کا کوئی حجاب نہیں ہوتا۔

(یہ کتنا ضروری ہے اسکو ایک چھوٹی سی مثال سے سمجھایا جاسکتا ہے، مثلاً ایک شیخ ہے اس کے پاس ایک ایسا شخص آیا ہے جو انٹرنیٹ کے جھانسے میں پھنسا ہوا ہےاور اپنے آپ کو خراب کر چکا ہے۔ وہ اب اپنی اصلاح کے لیے آیا ہے۔ اب کوئی شیخ کی اس کے ساتھ اگر یہ سلوک کرے گا کہ نکل جاؤ خبیث یہ تم نے کیا کر دیا، ایسا کرنا اس کا منصب نہیں اور اگریہ کہے کہ کوئی بات نہیں، ایسا ہوتا رہتا ہے، تو اس سے بھی اس کی اصلاح نہیں ہوگی۔ مطلب یہ ہےکہ اُس کو احساس تو ہو کہ ایسا آدمی جب ان چیزوں میں پھنسا ہوتا ہے تواُس کے کیا احساسات ہوتے ہیں ، اور اس کی مشکلات کیا ہوتی ہیں۔ پھراسکو صرف یہ کہہ دینا بھی کافی نہیں کہ غلط چیزوں سے نکل آؤ، اگر ایسا ہوسکتا تو اللہ کا حکم تو پہلے سے موجود ہے اور اس کی وجہ سے وہ موجودہ حالت سے نکل جاتا ۔ اپنے منصب کے مطابق شیخ کو اب سوچنا ہے ،فکر کرنی ہے کہ میں اس کو کیا طریقہ بتاؤں کہ وہ اس سے نکل آئے۔اس کے لیے پھراُس کے لیول کی باتیں کرنی ہوتی ہیں۔ اُس کے لیول کا طریقہ اختیار کرنا ہوتا ہے۔ یہ وہی کہہ سکتا ہے جو مرید کے لیول پہ آ سکتا ہے۔ ورنہ وہ نہیں کر سکے گا۔ مثال کے طور پہ ایک ہوتا ہے محض عالِم اور ایک ہوتا ہے دل رکھنے والا عالِم۔ جو محض عالِم ہوتا ہے وہ تو مسٔلہ کی بات بتا کر فارغ ہو جائے گا ﴿وما علینا الالبلاغ کہہ کر﴾۔ لیکن جو شیخ ہوتا ہے وہ صاحبِ قلب ہوتا ہے وہ اس کے ساتھ ہو جائے گا، اس کے لیے فکرمند ہو جائے گا۔ اور اس کے ساتھ ایسا رویہ کرے گا کہ اس کے ساتھ چلتے چلتے سائل سمجھے گا کہ یہ میرے ساتھ چل رہا ہے۔ حالانکہ شیخ اُس کو اپنے ساتھ چلا رہا ہو گا۔ اسی کو سیر عن اللہ باللہ کہتے ہیں ۔ )

تو شیخ مقتدا کو نفس کی کشاکشی کا بھی پتہ ہونا چاہیے اور روح تک بھی اس کی رسائی ہونی چاہیے ۔روح کی طرف سے وہ فیض لیتا ہو۔ اور نفس میں پھنسے ہوؤں کو فیض پہنچاتا ہو۔ اور اِس کے ذریعہ سے اِن کو اللہ کے ساتھ مِلاتا ہو۔اس طرح یہ مقام برزخ ہے۔

(اس مقام میں افادہ کے لیے اُوپر سے لیا جاتا ہے، اور نیچے والوں کو دیا جاتاہے۔ یعنی افادہ کے لیےاوپر سے اسکے دل میں مریدین کی اصلاح کے لیے الہامات آتے ہیں ۔ مطلب یہ ہے کہ مرید کے لیے جب شیح متفکر ہوتا ہے اور اس کے حالات محسوس کرکے اللہ کی طرف متوجہ ہوتا ہے کہ میں اِس کے ساتھ کیا معاملہ کروں۔ چونکہ اُس کا دل اللہ کے ساتھ ملا ہوا ہوتاہے، تو اُس وقت اللہ جل شانہ اُس کے دل پر وہ چیز القا فرما دیتے ہیں جو اُس کے مرید کے لیے بہتر ہوتی ہے۔ وہ اپنے مرید کو وہ چیز بتا دیتا ہے جومرید کی حالت کے مطابق ہو،نہ کہ الہام کی حالت کے مطابق۔ الہام کو تو وہ خود سمجھے گا اور مریدکو اُس کی حالت کے مطابق وہ بات بتائے گا جو وہ سمجھ سکے۔ گویا کہ اُوپر کے ساتھ کنکشن ہے شیخ کا لینے کا اور نیچے کے ساتھ کنکشن ہے شیخ کا دینے کا۔ نیچے کا کنکشن ہے مرید کی حالت جاننے کا اور اُوپر کا کنکشن ہے اُس کے مطابق حق تعالیٰ سےمعلوم کرنے کا۔ گویا کہ اِن دونوں کے درمیان ایک سلسلہ قائم ہے اوروہ خود ان میں برزخ ہے۔ اسی کے ذریعہ رابطہ interaction ہو گا اِن دونوں کا)۔

بعض مشائخ اس برزخیت کو برزخیت بین الخلق و الحق بھی کہتے ہیں اور شیخ جامع کو جامع بین التشبیہ و التنزیہہ کہتے ہیں۔

(اس میں تشبیہ او تنزیہہ کا سمجھنا ذرامشکل چیز ہے لیکن تھوڑی سی کوشش سے سمجھ میں آسکتا ہے۔ تشبیہ میں یہ ہوتا ہے کہ جب تک آپ کے سامنے مثال نہ ہو، آپ نہیں سمجھ سکتے۔ تنزیہہ یہ ہے کہ آپ اُس کی کوئی مثال دے نہ سکیں۔ اس طرح تشبیہ اور تنزیہہ کے درمیان جمع کرنا کافی مشکل ہے ۔اس صورت میں شیخ کا خود اپنا معاملہ تو تنزیہہ کا ہو گا۔ اور نیچے والوں کے لیے تشبیہ کو استعمال کرتاہو گا اور اس طریقہ سے استعمال کرتا ہو گا کہ اُن کو آہستہ آہستہ تشبیہ سے تنزیہہ کی طرف لارہے ہوں گے۔ احادیثِ شریفہ میں تھوڑا سا غور کریں تو سمجھ میں بات آجائےگی۔ حدیث شریف میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی سے پوچھیں گے کہ میں بیمار تھا تو عیادت کے لیے کیوں نہیں آیا؟ میں جب بھوکا تھا تو مجھے کیوں نہیں کِھلایا؟ بندہ کہے گا کہ یا اللہ تُو تو خالق ہے تُو نے تو سب کو پیدا کیا ہے تُو بیمار کیسے ہو سکتا ہے؟ تب اللہ پاک فرمایں گے کہ میرا فلاں بندہ بیمار تھا جب تُو اس کی تیماداری کرتا تو مجھے وہاں پاتا۔ میرا فلاں بندہ بھوکا تھا اگر تم اُس کو کھلاتے تو مجھے وہاں پاتے۔ اللہ تعالی تو ان ساری چیزوں سے پاک ہے لیکن اللہ پاک نے اس میں مخلوق کی حالت کے مطابق کلام فرمایا ہے ۔

صحیح بات تو یہ ہے کہ اُوپر کا رخ اتنا پاک ہوتا ہے کہ ہم اس کاتصور نہيں کر سکتے۔ اُور نیچے کا رخ اتنا گندہ ہوتا ہے کہ ہم اس کا بھی تصور نہيں کر سکتے۔ اب کیسا مشکل کام ہے کہ بندہ ظاہری طور پر توادھر ہو اور یہاں کے حالات کو پورا پورا سمجھتا ہو اوراُدھر کے ساتھ ایسا باطنی تعلق بھی ہو کہ جیسا یہاں کے ساتھ کوئی تعلق ہی نہیں ،واقعی یہ اس طرح کاجامع ہونا بڑا مشکل کام ہے۔ لیکن شیخ کو ایسا کرنا پڑتا ہے۔ کیونکہ اُسے اِسی کام لے لیے چن لیا گیا ہے۔ وہ انبیاء کے نقش قدم پر ہوتاہے، فرشتوں کے قدم پر نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے جیسے انبیاء کفار کے لیے آتے تھے شیخ گناہگاروں کے لیے آتے ہیں۔ اب ظاہر ہے کفار کا کیا لیول تھا اور انبیاء کا کیا لیول ہے۔ تو اب اُن کے لیے نرمی کے ساتھ کلام کرنا پڑتا ہے۔ فرعون کے پاس موسیٰ علیہ السلام کو بھیجا جا رہا ہے اور فرمایا جا رہا ہے کہ دیکھو! نرمی کے ساتھ کلام کرنا۔ مامون الرشید کے ساتھ کسی نے سختی کے ساتھ کلام کیا۔ وہ عالِم تھے تو اس نے کہا: کہ دیکھو فرعون کے پاس موسٰی علیہ السلام کو بھیجا گیا تو فرمایا کہ نرمی کر ساتھ کلام کرنامیں فرعون سے زیادہ برا نہیں ہوں اور تُو موسٰی علیہ السلام سے اونچا نہیں ہے تو تُوکیوں مجھ سے اس طرح سے کلام کر رہا ہے؟ اس سے پتہ چلا کہ ہم جذبات میں آ جاتے ہیں اور شیخ کو جذبات کو قابو میں کرنا ہوتا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ مسجد میں اگر کسی نے کوئی غلطی کر دی تو کہا جاتا ہے کہ یہ تو نے کیا کر دیا اور ان کو سختی کے ساتھ ڈانٹتے ہیں؟اس سے اصلاح نہیں ہوتی بلکہ اس سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے۔ بحث شروع ہو جاتی ہے۔

مثال کے طور پر اگر ایک بیماری مجھ میں نہیں ہے اور کسی اور میںدیکھ کر مجھے اتنا غصہ آجائے کہ برداشت نہ ہو۔ حالانکہ عین اسی وقت اور بہت سی خطرناک بیماریاں مجھ میں ہوسکتی ہیں جو ممکن ہے کسی وجہ سے میری نظر سے اوجھل ہوں تو کیا اس صورت میں میرا غصہ درست ہوگا ؟ اگر نہیں تو دوسرے کے ساتھ مختلف معاملہ کیوں ہے؟تو جو عارف ہوتا ہے وہ ان سب چیزوں کو دیکھتا ہے۔ کمال کی بات یہ ہے کہ جس کے اندر وہ خامیاں نہیں ہوتیں ،وہ تو نرم ہو تے ہیں اور جن میںخامیاں ہوتی ہیں وہ غصہ اور سختی کرتے ہیں ۔ حق تو ان کا تھا کہ وہ سختی کرتے لیکن یہاں معاملہ اُلٹ ہے جو پاک ہو تے ہیں وہ نرم ہو تے ہیں اور دوسرے سخت ۔ دوسروں کی اصلاح کے لیےبرزخ ہونا ضروری ہے لیکن برزخ کوئی تب ہی بن سکتا ہے جب اسے فناۓ نفس حاصل ہو ۔ کیونکہ فناۓ نفس سے پہلے یہ چیز حاصل نہیں ہوتی۔ فناۓنفس جب تک نہیں حاصل ہوتا اس وقت تک کوئی اپنے آپ سے نہیں نکل سکتا۔ وہ اپنے نفس کا غلام ہوتا ہے، لہٰذا جب بھی کوئی خیر کا کلمہ کہتا ہے تو اس میں بھی شر پنہاں ہوتا ہے)

اگر کسی کو فناۓنفس تو حاصل ہو گیا لیکن ابھی وہ سُکر کی حالت میں ہو اور ہوش میں نہیں ہو،تو اس وقت بھی اس کو شیخ نہیں بنایا جاسکتاکیونکہ شیخ کے لیےصاحبِ صحو ہونا ضروری ہے۔( جیسا کہ اوپر لکھا گیا کہ ا س کے لیے نیچے والوں کے حالات کاجاننا ضروری ہے جس کے لیےحالت صحو لازم ہے پس اگر وہ ابھی نشے کی کیفیت میں ہے، اس کو کیا پتہ ہوگاکہ دنیا میں کیا کچھ ہو رہا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ کسی کو کوئی تکلیف ہو تو شیخ اس تکلیف کا احساس کر سکے۔اگر یہ نہ ہو تو حیران ہوکر یہ کہے گا کہ یہ اتنا بھی نہیں کر سکتا؟ ۔ کسی کام کے نہ ہو سکنے کے لیے بھی علم کی ضرورت ہوتی ہے۔ کسی پروجیکٹ کی جو فیزبلٹی رپورٹ feasiblity report اس لیے بنتی ہے کہ پتہ چلے کہ آیا یہ چیز فیزبلfeasible ہےبھی یا نہیں۔ تو یہ بھی تو وہی جان سکتا ہے جو عالِم ہو گا اُس چیز کا۔ جو عالِم نہیں ہو گا وہ تو نہیں جان سکے گا)۔

اس وقت اس کا نفس و روح کے انوار کی وجہ سے بے ہوش ہوتاہے اور روح کے انوار نے اس کومبہوط کر دیا ہوتاہے۔ (وہ اپنے آپ میں نہیں ہوتا۔ اس لیےاس کا نفس فی الوقت اس کو پریشا ن نہیں کر رہا ہوتاوہ معطلِ محض ہوتاہے اس حالت عروج میں ،دوسروں کا جن کا نفس فعال ہے، ان کی کیفیات کو صحیح طور پر محسوس نہیں کرسکتا اس لیے وہ دوسروں کو فائدہ بھی نہیں پہنچا سکتا)

پھرجب وہ مقام قلب میں اترتا ہے تو وہاں کی برزخیت میں روح اور نفس کی آپس میں علیحدگی ہوجاتی ہے اور سکر نہیں رہتا یعنی صحو واپس آجاتا ہے ۔اسی کو نزول کہتے ہیں ۔اس وقت وہ مشیخت کے قابل ہوجاتا ہے۔

اور جب شیخِ کامل کو مقامِ قلب میں نیچے لایا جاتا ہے تو اس کو برزخیت کی وجہ سے عالَمِ دنیا سے مناسبت پیدا ہو جاتی ہے اور وہ مستحق طالبوں کے لیے حصولِ کمالات کا ذریعہ بن جاتا ہے،اس حالت میں اس کو منتہی مرجوع کہتے ہیں( میرے ایک ساتھی تھے جو اب فوت ہو گئے ہیں۔ اس نے خواب میں دیکھا کہ ہمارے شیخ مولانا اشرف صاحبؒ ایک تار پر چل پڑے پھرمسکراتے مسکراتے واپس چلے آئے۔ تو یہی وہ چیز ہے کہ لوگوں کی طرف لوٹا دیئے جاتے ہیں ۔ پہلے سالک کو صرف اللہ کی طرف توجہ کرنی ہوتی ہے۔ اس وقت اس چیز کا خیال رکھنا بھی کہ میں لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں گا،یہ شرک فی لطریقت کہلاۓ گا۔ لیکن جس وقت اسے واپس لوٹا دیا جاتا ہے اُس وقت پھر اس سے انکار کرنا اچھا نہیں ہوتا۔ وقت کے تقاضے کی پہچان بہت ضروری ہے کہ کون سا وقت کس چیز کا ہے۔ ایک دفعہ ایک بزرگ کے پاس ایک مرید آیا ۔ بزرگ نے کافی زور لگایا لیکن وہ ٹس سے مس نہیں ہوا۔ وہ پریشان ہو گیا کہ یہ معاملہ کیا ہےتو اس بزرگ نے دُعا کی کہ یااللہ اس کی حالت مجھ پر کھول دے۔پھرمرید کو بلا کر پوچھا کہ آپ میرے پاس کس نیت سے آئے ہیں؟ تو اس نے کہا کہ اللہ نے آپ کو بہت کچھ دیا ہے، بہت سی مخلوق آپ سے فیض لے رہی ہے، ہمیں بھی آپ سے فیض مل رہا ہے۔ میری خواہش ہے کہ جس طرح آپ سے لوگوں کو فائدہ پہنچ رہا ہےاس طرح میں بھی لوگوں کو فائدہ پہنچاؤں۔ بزرگ نےفرمایا « اُفوہ ، ابھی سے پیر بننے کی خواہش ہے۔ نکالو اس بت کو۔ اللہ کا بندہ بنو۔»

یہ بات آسانی سے سمجھ میں نہیں آتی ہے۔ اصل میں اُس وقت جو اس مرید تھا ، وہ فناۓ نفس کا تھا ۔ اگر کسی کانفس زندہ ہے تو دوسروں کو دعوت دیتے ہوئے بھی اس کے اندر بزرگی ہو گی کہ میں اِس سے اچھا ہوں۔ اور جس وقت یہ خیال آجائے کہ میں اِس سے اچھا ہوں تو اس وقت نہ داعی کو فائدہ ہو گا نہ مدعوکو۔ مفتی رفیع عثمانی دامت برکاتہم نے ایک دفعہ اپنے بیان میں فرمایا کہ ان کے شیخ ڈاکٹر عبدالحئ رحمة اللہ علیہ نے ان پر اور مولانا تقی عثمانی صاحب دامت برکاتہم پر پابندی لگائی کہ تقریر نہیں کرنی ۔ پھرجب اللہ نے اُن کو وہ نعمت عطا فرمائی جس کا ڈاکٹر صاحبؒ کو انتظار تھا تو پھرفرمایا کہ بھئی !وہ ہمارے فیصل آباد میں ساتھی ہیں مولانا نذیر صاحب، آپ اُن کے ہاں جا کر بیان کر لیں، بیان کی اجازت دے دی یعنی گویا ان کو آہستہ آہستہ اس رُخ پر ڈال دیا۔ اس سے پہلے قطعاً پابندی تھی۔ اب انہوں نےچونکہ پابندی کی تھی لہٰذا جب بیان کرتے تھے تو لوگوں کو فائدہ ہوتا تھا اور ان کو نقصان نہیں ہوتا تھا۔

بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ لوگوں کو فائدہ ہوتا ہے لیکن بیان کرنے والے کی اپنی ناقص نیت کی وجہ سے نقصان ہوتا ہے۔ دونوں باتیں ضروری ہیں۔دوسروں کو فائدہ بھی ہونا چاہیے اور بیان کرنے والے کا نقصان بھی نہیں ہونا چاہیے۔ موتی اگر نالی میں گر جائے تو اُس کا اُٹھانا ضروری ہے، لیکن اُس کو اُٹھانے کے لیےجس وقت نالی میں کوئی اُترے گا تو اُس وقت صابن،پانی اور تولیہ کا ہونا ضروری ہے۔ کیونکہ کوئی نالی میں نیچے اُترے گا تو اس کے اپنے کپڑے خراب ہوں گے اور جراثیم زدہ بھی۔اس لیےاگراس کے پاس نہانے کا اور صاف ستھرے کپڑے پہننے کا انتظام نہ ہو تو موتی تو ہاتھ آجائے گا لیکن اس کو نقصان بھی ہوگا۔ اسی وجہ سے بعض دفعہ دوسروںکوتو فائدہ ہو جاتا ہے لیکن خود کو نقصان ہو جاتا ہے۔ اس لئے اپنے آپ کو اور دوسروں کو نقصان سے بچانے کے لئے فناۓ نفس کا ہو نا ضروری ہے۔)

مجذوبِ متمکن بھی چونکہ مقامِ قلب میں ہوتا ہے اس لیے وہ بھی عالَم یعنی مخلوق کے ساتھ مناسبت رکھتا ہے اور اپنی توجہ کے ذریعے ان کو فائدہ پہنچاتا ہے۔ کیونکہ جذب سے اِس کو وافر حصہ حاصل ہوا ہوتا ہے۔ لہٰذا اس طرح وہ مخلوق کو اپنا فیض پہنچا سکتاہے۔بلکہ ہم کہتے ہیں کہ مجذوبِ متمکن کے فیض کی مقدار منتہی مرجوع سے بھی زیادہ ہوتی ہے کیونکہ منتہی مرجوع کو بھی اگرچہ عالَم کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے لیکن وہ ظاہری صورت میں ہوتی ہے حقیقت میں وہ عالَم سے جدا ہوتاہے اور اصل رنگ میں رنگا ہوتاہے اور اس کےساتھ بقا حاصل کر چکا ہوتاہے۔جبکہ مجذوب کی عالَم کے ساتھ حقیقی مناسبت ہونا ابھی باقی ہوتی ہے اور جملہ افرادِ عالم میں سے ایک ہوتاہے۔ وہ اُس بقا کے ساتھ باقی ہے جس کے ساتھ عالَمَ باقی ہے۔ اس لیےطالبین اس مناسبت حقیقی کے باعث مجذوب سے زیادہ فائدہ حاصل کر لیتے ہیں اور منتہی مرجوع سے کم فائدہ حاصل کرتے ہیں لیکن کمالاتِ ولایت منتہی مرجوع سے ہی حاصل ہوسکتے ہیں لہٰذا فائدہ پہنچانے کی کیفیت میں منتہی مرجوع کا پہلو راجح اور حال غالب ہے۔

(مقامِ قلب میں جو متمکن ہے اس کو بھی شروع کے حالات کے ساتھ زیادہ قُرب ہے۔ لہٰذا لوگوں کے افادہ کے لیے جب وہ سوچتا ہے تو لوگوں کو فائدہ پہنچا سکتاہے اور لوگ اُس سے متأثر بھی زیادہ ہوتے ہیں۔ مجذوب متمکن کی طرف گو کہ بہت سارے لوگ متوجہ ہوتے ہیں اور منتہی مرجوع کی طرف کم متوجہ ہوتے ہیں کیونکہ منتہی مرجوع اگرچہ عالَمَ کے ساتھ مناسبت حاصل کر چکا ہے لیکن لوگوں کو اُن کے ساتھ اتنی مناسبت نہیں ہوتی ہے۔ لوگ اِن کو اپنے سے جدا سمجھتے ہیں حالانکہ وہ لوگوں کو اپنے سے جدا نہیں سمجھتے۔ اس وجہ سے لوگ اُس طرح سے فائدہ حاصل نہیں کر سکتے۔ پس لوگ مجذوب متمکن کی طرف زیادہ متوجہ ہوتے ہیں اور جہاں تک ہو سکے کثیر تعداد میں لوگ اُن سے فائدہ حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن جو اصل فائدہ ہے مقامات تک پہنچانا ، صحیح رہنمائی کرنا، اسکے لیے منتہی مرجوع ہونا ضروری ہے ۔ یہ مجذوب متمکن نہیں کر سکتا ۔ منتہی مرجوع کے پاس تھوڑے لوگ آتے ہیں لیکن فائدہ بہرحال اُن کو ہی زیادہ ہوتا ہے۔ مثلاً تبلیغی جماعت میں بعض اوقات لوگ جان مال وقت لگا کر مجذوب ہو جاتے ہیں ۔جب یہ جذب کی باتیں کرتے ہیں تو لوگ ان سے بہت متاثر ہوتے ہیں، اور جو تبلیغ کے اندر منتہی حضرات ہوتے ہیں ان سے لوگ زیادہ متاثر نہیں ہوتے۔مثال کے طور پر تبلیغی جماعت میں اس قسم کے ایک مجذوب متمکن تھے انہوں نے بیان فرمایا کہ اگر کوئی سٹیشن پر جا رہا ہو اور اُس کے پاس ٹکٹ کے پیسے نہیں اور اُس کی جیب کے اُوپر نظر ہے کہ میرے پاس پیسے نہیں ہیں تو اس کا کلمہ ابھی نہیں بنا۔ دوسرے صاحب جو منتہی مرجوع تھے انہوں نے یہ بیان کیا کہ اگر کسی کی تشکیل ایسی جگہ ہو جائے جہاں کے لیے اُس کے پاس پیسے نہیں ہیں تو وہ تشکیل والوں سے اپنی تشکیل تبدیل کروائے کیونکہ اس کے پاس اگر پیسے نہیں ہوں گے توخود اپنے لیے بھی مصیبت بنے گا اور دوسروں کے لیے بھی مصیبت بنے گا۔عام لوگ پہلے والے سے زیادہ متاثر ہیں لیکن فائدہ دوسرے والے سے زیادہ ہو گا۔

ایک دفعہ تبلیغی جماعت کے امیر صاحب جو ایک حقانی سلسلے میں بیعت تھے جماعت لے کے چل رہے تھے۔ایک جگہ ان کی جماعت کا ایک ساتھی بیان کر رہے تھے وہ شایدمجذوب تھے۔ اُس نے بیان میں چیزوں سے ایسی نفی شروع کی کہ اس سے بھی نہیں ہوتا، اس سے بھی نہیں ہوتا، اس سے بھی نہیں ہوتا۔ بیان جب ختم ہوا اور سب کھانا کھا رہے تھے تو امیر صاحب نے اسے ہنس کر کہا کہ آپ نے تو مجھ کو ڈرا دیا تھا۔ میں سمجھ رہا تھا کہ اَب آپ کہیں گےکہ اللہ کے راستے سے بھی کچھ نہیں ہوتا کیونکہ وہ ذرا بذلہ سنج واقع ہوۓ تھے۔ تو اصل میں واقعتاً جذباتی باتوں سے لوگ زیادہ اثر لیتے ہیں لیکن فائدہ ان لوگوں کی باتوں سے ہوتا ہے جو جذبات سے باہر آچکےٰ ہوں اور حقیقت کی دنیا میں رہتے ہوں ، یعنی نفس اُن کا ختم ہو چُکا ہو اورحقیقت شناس ہوں۔یہ سب منتہی مرجوع کی خاصیتیں ہیں ۔ مجذوبوں سے لوگ زیادہ متاثر ہوتے ہیں لیکن ان کوحقیقی فائدہ منتہی مرجوع سے ہوسکتا ہے۔ اُس کی باتیں اگرچہ پھیکی پھیکی لگتی ہیں کہ یہ کیا باتیں کر رہا ہے۔ اسباب کی باتیں کر رہا ہے۔ اللہ سے ہوتا ہے کہ اسباب سے ہوتا ہے؟ اللہ سے ہونے کی بات تو ایک حقیقت ہے، لیکن اسباب سے جو ہوتا نظر آتا ہے وہ بھی تو اللہ تعالیٰ ہی کرارہا ہے کیونکہ اسباب بھی تو اللہ تعالیٰ نے ہی بناۓ ہیں۔ اگر انسان ان چیزوں کو جاننے والا ہو تو جو اہلِ حق ہوتے ہیں، وہ اسباب کو پورا پورا استعمال کرتے ہیں لیکن پورے استعمال کے دوران بھی ان کی نظر اسباب پر نہیں ہوتی بلکہ اللہ تعالیٰ پر ہوتی ہے اور یہی چیز بہت مشکل ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ اسباب کو اللہ کا حکم سمجھ کر اختیار کرنا ،لیکن اس دوران بھی نظر اللہ پاک پر رکھنا کاملین کا کام ہے۔ قرآن پاک میں بھی اس کی دلیل ہے۔ قرآن پاک میں فرمایا کہ یعقوب علیہ السلام نے اپنے بیٹوں سے کہا کہ اے میرے بیٹو ! جب جاؤ تو ابوابِ متفرقہ سے داخل ہو جاؤ تاکہ نظر نہ لگے کیونکہ بارہ بیٹے تھے تو نظر تو لگ سکتی تھی۔ لیکن ساتھ فرمایا کہ ہو گا وہی جو اللہ چاہے گا۔تو کیسے دونوں کو ساتھ ساتھ جمع کیا۔ کہ اسباب بھی اختیار کیے اور رُخ بھی اللہ کی طرف کیا۔ یہی وجہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے موقع پر جنگ کی پوری ترتیب بنا لی، صف بندی ہو گئی، سارا کچھ جب ہو گیا اس کے بعد دعا فرمائی ۔ اور بہت لجاجت کے ساتھ دُعا کی۔

عارفین فرماتے ہیں کہ اللہ والے جب اسباب اختیار کرتے ہیں تو لوگ ان کو دہریہ سمجھتے ہیں کہ شاید یہ اللہ پر یقین نہیں رکھتے اس لیے اسباب کا اتنا دھیان ہوتا ہے۔ لیکن جس وقت دُعا کرتے ہیں تب پتہ چلتا ہے کہ یہ تو اسباب کو کچھ بھی نہیں سمجھتے ۔ یہ اصل میں واقعتاً مشکل کام ہے کہ اسباب کو اختیار کر کے اسباب پر نظر نہ ہو۔ ہمارے شیخ مولانا اشرف رحمة اللہ علیہ نے فرمایا کہ یہ توکل تو بچہ بھی کر سکتا ہے کہ جیب میں کچھ نہ ہو اور کہہ دے کہ اللہ سے سب کچھ ہوتا ہے۔ فرمایا کہ بینک بھرے ہوں اور پھرکہے کہ اللہ سے ہوتا ہے یعنی بینک میںسب کچھ موجود ہو لیکن دل میں یہ ہو کہ اللہ جب چاہے گا تو پھرہو گا، ورنہ نہیں ہو گا۔تو ان دونوں چیزوں کو جمع کرنا بہت ضروری ہے۔ )

ت ت❖ منتہی توجہ سے اتنا کام نہیں لیتے جتنا مجذوب متمکن لیتا ہے اور اس ذریعے سے طالب کے کام کو ترقی دے کر آگے پہنچاتا ہے اگرچہ کمال تک نہیں پہنچا سکتا ،کیونکہ منتہی کی نظر اللہ پر ہوتی ہے اپنی توجہ پر نہیں ۔( وہ مخلوق کی طرف اتنا متوجہ ہو ہی نہیں سکتا کہ خالق سے نظر ہٹا لے)۔اور مجذوب متمکن صاحبِ ہمت اور توجہ ہوتا ہے اس لیے لوگ اس سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔

طالبوں کو مجذوبوں سے جو توجہ حاصل ہوتی ہے وہ روح کی وہی سابقہ توجہ ہوتی ہے جو انہوں نے فراموش کر دی تھی۔ اور ان مجذوبوں کی صحبت میں پھران کو یاد آجاتی ہے جیسا کہ پہلے آچکا ہے کہ روح جب صرف روح تھی اُس وقت اللہ کی طرف یعنی اپنے مقصد کہ طرف متوجہ تھی۔ جس وقت روح بدن کے ساتھ شامل ہو گئی( یعنی ہم پیدا ہو گئے)، اُس وقت وہ توجہ جسم کے اندر آکر نفس کے ساتھ شامل ہو گئی تو وہ توجہ ختم ہو گئی۔ وہ بھول گئی ، نسیان ہو گیا۔ یہ جو نسیان ہے یہ اب ہمیں ختم کرنا پڑے گا۔ تو یہ حضرات جو توجہ دیتے ہیں وہ توجہ سے اُس پردے کو ہٹا دیتے ہیں۔ نتیجتاً پھردوبارہ گزشتہ توجہ حاصل ہو جاتی ہے۔

اس کے مقابلے میں جو توجہ منتہیوں کی صحبت میں حاصل ہوتی ہے۔ وہ پہلے سے ان میں موجود نہیں تھی اور وہ روح کی فنا بلکہ اُس کے وجودِ حقانی کی بقاء پر موقوف تھی۔لہٰذا لازمی طور پر پہلی توجہ حاصل کرنا آسان ہے اور دوسری توجہ حاصل کرنا مشکل ہے کیونکہ اس میں خود محنت کرنی ہوتی ہے ۔جو چیز آسان ہوتی ہے وہ زیادہ ہوتی ہے اور جو چیز دُشوار ہوتی ہے وہ کم سے کم ہوتی ہے اس لیے کہا گیا ہے کہ جذب کے ذریعے حاصل کرنے میں شیخِ مقتداکا واسطہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ نسبت طالب کو پہلے سے حاصل تھی وہ صرف وقتی طور پر دب گئی تھی جس کو حاصل کرنے کے لیےتعلیم کا محتاج ہو گیا ۔ لہٰذا ایسے شیخ کو شیخِ تعلیم کہا جاسکتا ہے نہ کہ شیخِ تربیت۔ اوراس لیےسلوک کو طے کرنے کے لیے شیخِ مقتدا یقیناً درکار ہے اور اس سے تربیت لینی ضروری ہے۔

( مجذوب توجہ کرتا ہے۔ توجہ کرنے سے جو چیز پہلےسے موجود ہے وہ سامنے آجاتی ہے۔تاہم اس میں آپ کو کوئی نئی چیز نہیں ملتی ،جبکہ منتہی کی صحبت میں جو چیز حاصل ہوتی ہے وہ ایک نئی چیز ہے اس کے لیٔےباقاعدہ سلوک طے کرنا پڑتا ہے یعنی ایک نئی چیز سیکھنی پڑتی ہے۔ سالک کو راستے کی تمام چیزیں دکھائی جاتی ہیں اور جو راستہ اس نے دیکھا نہیں اُس راستے پر اس کو چلنا سکھایا جاتا ہے۔اس میں تربیت ہے یعنی راستہ بتانا، سلوک طے کروانا۔ اور پہلے میں کیا ہے؟ اس میں اس کو صرف گزشتہ چیز یاد دلانا ہوتی ہے جو نسیان کی وجہ سے ضائع ہو گئی تھی۔پس پہلے والی توجہ کو حاصل کرنا آسان اور دوسری قسم کی توجہ مشکل ہے اس لیےمجذوب سے لوگ زیادہ متاثر ہوتے کیونکہ لوگ محنت سے گھبراتے ہیں۔)

ت ت❖ شیخِ مقتدا کو چاہیے کہ اس قسم کے مجذوبِ متمکن کو افادہ عام کی اجازت نہ دے اور نہ ہی اس کو تکمیل اور پیری کے مقام پر بٹھائے۔ کیونکہ بعض طالبوں کی استعداد بلند ہوتی ہے اور کمال تک پہنچنے کی قابلیت اپنے اندر خوب رکھتے ہیں اس لیے اگر وہ اس مجذوب کی صحبت میں اگر آجائیں تو احتمال ہے کہ ان کی استعداد ضائع ہو جائے اور قابلیت بھی ختم ہو جائے۔

کیونکہ بےشک یہ لوگوں کو متاثر کر سکتا ہے، بےشک یہ لوگوں کو حق کی دعوت دے سکتا ہے اور اس کی دعوت بڑی موثر ہوتی ہے لیکن چونکہ یہ تربیت نہیں کر سکتا یعنی سلوک نہیں طے کرا سکتا اس لیےپیر نہیں بن سکتا ۔ اجازت تو تربیت کے لیے دی جاتی ہے تو چونکہ تربیت نہیں کرا سکتا لہٰذا اس کو افادہ عام کی اجازت نہیں دینی چاہیے اگرچہ اس کی دعوت موثر ہے اور جزوی طور پر اس سے فائدہ بھی ہو سکتا ہے لیکن اسکو اجازت نہیں دینی چاہیے کیونکہ ابھی فی الحال وہ ان چیزوں کو حاصل نہیں کر چکا جو دوسروں کو بتانی ہو تی ہیں۔

یہ بہت گہری بات ہے مطلب یہ ہے کہ جو مجازیب ہیں ان کے پاس آنے کی وجہ سے عین ممکن ہے کہ طالب کسی ایک رُخ کی طرف چل پڑے اور باقی چیزوں کی نفی کرنے لگے اور اپنی استعداد کو ضائع کر دے۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو جواستعداد دی ہے وہ ضائع نہ ہو جائے۔ تو اگر کوئی اس کو پیری کے منصب پر بٹھاۓ گا تو وہ جو صاحبِ استعداد لوگ ہیں اُن کی استعداد ضائع کر دے گا۔)

مثلاً وہ زمین جس میں کاشت کی عمدہ قابلیت ہو اگر اس میں گندم کا اچھا بیج ڈالا جائے تو بیج کی استعداد کی قابلیت کے مطابق پیداواراچھی ہو گی اور اگر زمین میں خراب گندم یا چنے کا بیج ڈالا جائے تو اچھی کاشت تو کجا اسکی پیداوار کی استعداد بھی ضائع ہو جائے گی۔ اور بالفرض شیخِ مقتدا اسکو اجازت دینے میں کوئی بہتری و مصلحت دیکھے، اس میں فائدہ پہنچانے کی کوئی معنویت دیکھےتو اسکے افادہ کو بعض شرائط اور قیود کے ساتھ مُقید کر دے مثلاً افادہ کے طریق پر طالب کی مناسبت کا ظاہر کرنا ، اُس کی صحبت میں طالب کی استعداد کا ضائع نہ ہونا اور اس کی اقتداء و ریاست میں اس کے نفس کا سرکش نہ ہونا ۔ کیونکہ تزکیہ نفس نہ ہونے کی وجہ سے ابھی اسکو فناۓ نفس حاصل نہیں ہوا ہے۔ اور جب اس مجذوبِ متمکن کو معلوم ہو جائے کہ اس سے طالب کو جتنا فائدہ ہونا تھا ،ہو چکا ہے اور اس طالب کی استعداد میں ترقی کی قابلیت کافی موجود ہے تو اس کو چاہیے کہ اُس کو کسی اور شیخ جو منتہی مرجوع ہو ،سے اپنا بقیہ کام کی تکمیل کا کہہ کر اس کو رخصت کردے اور اس کو سمجھاۓ کہ وہ فی الحال اپنے آپ کو منتہی نہ جانے اور اس حیلہ و بہانے سے لوگوں کی رہزنی نہ کرے۔ اس طرح جو اس حالت کے مناسب ہو وہ بیان کر کے ان باتوں کی وصیت کرکے اس کو جانے دے۔

(مختصر یہ کہ مجذوب متمکن کو پیری کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ تزکیہ نفس نہ ہونے کی وجہ سے اس کو فناۓنفس حاصل نہیں ہوا ہےاور ابھی اس کےنفس کا اثر اس کے اندر موجود ہے ۔لہٰذا وہ لوگوں کو اپنے نفس کا طالب بنا سکتا ہے لیکن اس کی صلاحیت کو ضائع بھی نہیں کرنا چاہیے تو اس طریقے سے گویا اس کو اس کا بتایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ ان کے ساتھ مناسبت رکھتے ہوں ان کو بنیادی تعلیمات سے آگاہ کرلیا کریں اور جب وہ چلنے کے لیےتیار ہوجائیں تو جن جن مشائخ سے ان کو پھرمناسبت ہو ان سے کہا جاۓ کہ وہ اُن کے پاس پہنچ جائیں۔ ان کو یہ درمیان کی ڈیوٹی دے دی جائے۔ تبلیغی جماعت کا بنیادی مقصد مولانا الیاسؒ کے ذہن میں یہی تھا کہ لوگ مشائخ کےپاس جاتے نہیں تھے۔ طلب ختم ہو گئی تھی ، مشائخ لوگوں میں آتے نہیں تھے تو ان کوجوڑ نے کے لیے حضرت نے یہ کیا کہ تبلیغ میں عوام کے اندر دین کا علم حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی طلب پیدا کی جاۓ اور جب ان میں طلب پیدا ہوجاۓ تو ان کو پھرعلماء تک پہنچائیں کہ علم حاصل کر سکیں اور مشائخ تک پہنچائیں تاکہ تربیت حاصل کر سکیں۔ اس پر حضرتؒ نے خود عمل کیا ہے۔ ایک دفعہ حضرت کے ہاں کچھ لوگ چار ماہ کے لیے آگئے تو حضرتؒ نے ان کا ایک چلہ حضرت شاہ عبدالقادررائے پوریؒ کی طرف بھی لگوایا تھا۔ تو اس سے پتہ چلا کہ حضرت کا اس سے کیا مقصود تھا۔ تو اب بات یہ ہے کہ اگر درمیان کے لوگوں کو ہی فائنل کہا جاۓ گا کہ یہی فائنل لوگ ہیں تو وہ تو راستے میں رہ گئے۔ اور اگر اُن کو یوں کہا جاۓ کہ آپ کام ضرور کریں لیکن ان کو صحیح لوگوں تک بھی پہنچا دیں، ان کی تکمیل ہو جاۓ گی اور بڑا فائدہ حاصل ہو جاۓ گا۔ آج کل اگر دیکھاجاۓ تو نقصان جہاں بھی ہو رہا ہے یہی ہو رہا ہے کہ لوگ اپنے آپ کو فائنل سمجھ لیتے ہیں تو وہاں نقصان ہو جاتا ہے۔ جنہوں نے اپنے آپ کو فائنل نہیں سمجھا ، ان کا علماء کے ساتھ تعلق کرا دیا ، مشائخ کے ساتھ تعلق کرا دیا اور اس کے لیے ذریعہ بن گئے تو سبحان اللہ انہوں نے بڑا کام کیا ۔ ہمارے ایک بزرگ ڈاکٹر محمد فدا صاحب دامت برکاتھم جو تبلیغی جماعت کے بھی بزرگ ہیں ، وہ ہمارے پیچھے دوڑاکرتے تھے۔ کبھی کبھی گشت میں بھی ساتھ لے جایا کرتے تھے ۔ ایک دفعہ ہاسٹل میں تشریف لائے تو میں کہیں جا رہا تھا، پوچھا کہاں جا رہے ہو؟ میں نے کہا کہ دوست سے ملنے جا رہا ہوں تو خفگی سے فرمایا جاؤ جاؤ۔ میں چلاگیا تو دوست اپنی جگہ پہ نہیں تھا ، خیر میں واپس آگیا کہ حضرت آئے ہوئے ہیں گشت کے لیٔے، اگر دوست ہوتا تو پھربھی ایک بات تھی۔سوچا واپس جاؤں، تو جب میں واپس گیا تو پوچھا واپس آگئے ہو میں نے کہا جی، تو پوچھا دوست نہیں تھا میں نے کہا نہیں تھا تو فرمایا میں نے دُعا کر لی تھی کہ نہ ہو۔ تو یہ ان کی جاگتے کی رپورٹ ہے اور سوتے کی رپورٹ بھی بتاتا ہوں۔ رمضان المبارک کے آخری عشرہ میں جماعت میں جب وقت لگا رہا تھا تو اشراق کے بعد جب ہم سو رہے تھے، میں نے ایک خواب دیکھا ۔ اس میں دیکھتا ہوں کہ مولانا اشرف صاحب رحمةاللہ علیہ سامنے ہیں اور میں اور ڈاکٹر فدا صاحب بیٹھے کوئی فروٹ کھا رہے ہیں تو مولانا صاحبؒ نے مجھے اشارہ کیا ڈاکٹر فدا صاحب کی طرف کہ یہ جو ہے ،طریقہ بتانے والوں میں سے ہے،اصلاح کرنے والوں میں سے نہیں ۔،الفاظ مجھے صحیح یاد نہیں۔ جب میری آنکھ کھل گئی تو ساتھ ہی ڈاکٹر صاحب کی بھی آنکھ کھل گئی۔ پوچھا خواب دیکھا ہے؟ میں نے کہا جی ۔کہا آؤ میرے ساتھ۔ گشت کے لیے ساتھ نکل گئے۔ پوچھا کہ کیا دیکھا ہے؟ جب بتایا تو فرمایا کہ کیا ہم آپ کو نہیں کہتے کہ مولانا اشرفؒ سے بیعت ہو جاؤ ،یہی وہ طریقہہے جو ہم بتاتے ہیںکیونکہ اصلاح تومشائخ کرتے ہیں ۔ اب جب ہم کہتے ہیں کہ مولانا صاحب سے بیعت ہو جاو توآپ مانتے نہیں، یہ کتنی غلط بات ہے۔ نہ جانے کتنے لوگوں کو حضرت نے اس طرح تیار کیا ہو گا اور مشائخ کے پاس پہنچا دیا ہوگا۔ تو یہی بات ہمیں دیکھنی چاہیے کہ ہمارے چلنے کا مقصد کیا ہے؟یہ کہ میں جس چیز کو اچھا سمجھ رہا ہوں وہ ہو جائے یا یہ کہ اللہ جس چیز کو اچھا سمجھ رہا ہے وہ ہو جائے؟ میں اپنے نفس کو درمیان میں کیوں لاؤں۔ اللہ تعالیٰ جب اس چیز سے خوش ہوتا ہے کہ میں اپنے نفس کی اصلاح کر لوں، تزکیہ کر والوں تووہی کرلوں۔ کیونکہ قرآن پاک میں آیا ہے "قدافلح من زکّٰھا وقد خاب من دسّٰھا "تو اگر میں "قدافلح من زکٰھا" کا ذریعہ بن جاؤں، تزکیہ کی لائن میں کسی کو لگا دوں تو اللہ تعالیٰ اس سے کتنے خوش ہوں گے۔یہ کروں یا میں اپنے آپ کو خوش کردوں ۔ دوسری بات یہ کہ اگر ایک کام میں خود نہیں کر سکتا مثلاً میں ڈاکٹر نہیں ہوں لیکن کسی اچھے ڈاکٹر کو جانتا ہوں۔ اس کے باوجود میں خود کسی کا علاج شروع کر دوں تو یہ کیسا رہے گا؟ اس سے اگر میں کسی کو مار دوں تو پھر کیا ہوگا؟۔ اس کے بجائے اگر میں کسی کو صحیح ڈاکٹر کا پتہ بتا دوں تو اُس کا بھی فائدہ ہوگا اورمیں بھی غلطی سے بچ جاؤں گا۔اس پر اجر بھی انشاء اللہ ملے گا۔یہی بنیادی بات ہے۔یعنی یوں کہا جا سکتا ہے کہ ایسے حضرات کو مشائخ تک پہنچانے کی اجازت دینی چاہیے ، شیخ بننے کی نہیں۔

ت ت

❖ لیکن مجذوب متمکن کے برعکس منتہی مرجوع فائدہ اور تکمیل میں کسی قسم کے شرائط کا محتاج نہیں ہے کیونکہ اس کو جامعیت کی وجہ سے تمام طریقوں کی استعداد اور مناسبت حاصل ہے۔ لہٰذا ہر شخص اس سے اپنی استعداد اور مناسبت کے حساب سے فائدہ اُٹھا سکتا ہے۔ اگرچہ شیوخ اور مقتداؤں کی صحبت میں مناسبت کے قوی یا ضعیف ہونے کے اعتبار سے جلدی یا دیر میں فیض یاب ہونے میں فرق ہے۔ لیکن اصل فائدہ پہنچانے میں جملہ مشائخ ایک جیسے ہیں (یعنی منتہی مرجوع کے اُوپر اِن پابندیوں کی ضرورت نہیں ہے۔ بلکہ وہ یہ ہے کہ جب ان کے پاس کوئی پہنچ جائے تو سالک کی حالت ان پر کھل جائے گی لوگوں کی رہنمائی کر سکیں گے اور مکمل اصلاح ان کی ہو سکے گی۔ لہٰذا ان کو پابند نہیں کیا جا سکتا ۔)

ت ت

❖ شیخِ مقتداکے لیے لازم ہے کہ طالب کو فائدہ پہنچانے کے وقت میں حقِ تعالیٰ کی بارگاہ میں التجا کرتا رہے اور اس کی حبل متین یعنی مضبوط رسی کو پکڑے رہے اور شہرت کے ضمن میں جس میں مکرو استدراج پوشیدہ ہو اس میں حق تعالیٰ کے خوف سے پناہ مانگےاور یہ التجا صرف اس معاملے میں نہیں بلکہ تمام معاملات اور تمام اوقات میں جو اللہ تعالیٰ نے عطا فرما دیئے جو اوقات میں سے کسی وقت میں اور افعال میں سے کسی فعل میں اس سے جدا نہیں ہوتی۔

"ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء واللہُ ذوالفضل العظیم"۔

(بات سبب اور مسبب الاسباب والی ہے اور وه یہ کہ اسباب تو تربیت کے شیخ ڈٹ کر استعمال کرلے لیکن ان کو کافی نہ سمجھیں بلکہ طالبین کو نفع پہنچنے کا مسب الاسباب یعنی اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا رہے ۔ اپنے آپ کو فائنل اتھارٹی نہ سمجھیں بلکہ صرف اللہ پاک کے فضل کو لینے کا ذریعہ بننے کی کوشش کر لیں کہ میں تو اللہ تک پہنچانے کی کوشش کر سکتا ہوں۔باقی میں تو صرف کوشش کر سکتا ہوں ۔پہنچانے والاتو اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ لہٰذا اللہ تعالیٰ سے التجا کرتا رہے اور کسی وقت بھی اس سے غافل نہ ہو۔)

پہلا طریقہ جذب کا تھا ، دوسرا طریقہ سلوک کا طریقہ ہے ۔اس میں ان معارف کا بیان ہے جوسلوک سے تعلق رکھتے ہیں۔

دوسرا حصّہ

ت ت

❖ تو اگر وہ اپنےاسمِ مربی ( اللہ تعالیٰ کا وہ نام،جو اُس کارب ہے یعنی طالب کی تربیت کے لیےخاص ہے) تک پہنچ جائےاوراُس میں فانی اور مستہلک ہو جائے یعنی اس پر فدا ہوجاۓ تو اُس پر فنا کا اطلاق درست ہوجاتا ہے یعنی اس کو ہم فانی کہہ سکتے ہیں پھراگرطالب کو اس پر بقا بھی حاصل ہوئی تو اس کو ہم باقی کہہ سکیں گےاور اس فنا اور بقا کے حصول کے بعد ولایت کا پہلا مرتبہ اس کوحاصل ہوجاۓ گا۔(اللہ تعالیٰ کے بعض نام ایسے ہیں جو مخلوق کے لیے بھی بولے جاتے ہیں،جن میں سے ایک نام رب بھی ہے اللہ تعالیٰ ربُ الاعلیٰ ہے ، اس کا مطلب یہ ہے کہ رب کا لفظ مخلوق کے لیےبھی بولا جاسکتا ہے۔ ربُ البیت کا لفظ مشہور ہے،تواللہ تعالیٰ کے پاک ناموں میں بھی بعض لوگوں کا بعض ناموں کے ساتھ ایک خاص تعلق ہوتا ہے،جیسے صحابہ کرامؓ میں ساری صفات موجود تھیںاور آپ ﷺ کے رنگ ان میں موجود تھے،لیکن کسی میں کوئی رنگ زیادہ واضح ہوتا تھا کسی میں کوئی ،جیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ میں صدق،عمر ؓ میں فاروقیت ،عثمان ؓ میں جود وسخا،نرمی اور صلہ رحمی،علیؓ میں شجاعت اور علم، اس طرح مختلف صحابؓہ میں مختلف رنگ تھے،تو اپنے رنگ میں ترقی کے ذریعےطالب اللہ پاک کے ساتھ جلدی واصل ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا جو نام کسی کا رب ہو یعنی جس اسم سے بنیادی طور پر فیض حاصل کرتا ہو ، اُس کے ذریعے سے وہ بہت کچھ حاصل کر سکتا ہے،جیسے کسی شخص کے گھر میں پانچ انچ کا پائپ بھی ہے،دو انچ کا بھی ہے، ایک انچ کا بھی ہے ،آدھی انچ کا بھی ہے اور دو سوتر کابھی ہے تو اُس کو یقیناً پانچ انچ والے پائپ سے ہی پانی زیادہ ملے گا۔اس نےاگر وہ کھول لیا تو اس کا کام بن جاۓگا۔پس جو اپنے اسم ِ مربی میں فانی و مستہلک ہو جائے، یعنی اُسی ایک صفت میں اپنا سب کچھ بھول جائے، مثلاً کوئی صفت علم کے ساتھ ، کوئی کرم کے ساتھ وغیرہ وغیرہ یہاں تک کہ اُس میں اپنا سب کچھ داؤپر لگا دے، اس کو مستہلک ہونا کہتے ہیں۔عموماً دیکھا گیا ہے کہ کوئی کام محض اللہ تعالیٰ کے لیےکرنا آسان نہیں ہوتا،مثلاً کسی دنیاوی مسٔلے کے لیےکوئی وظیفہ کرنا ہو تو اس کو آسانی کے ساتھ لوگ کرلیتے ہیں لیکن اگر اللہ کو پانے کے لیےکچھ بتایا جاۓ تو اس کے لیےاس کا دسواں حصہ بھی کرنا مشکل ہوجاتا ہے۔اس کے باوجود بھی) اگر کوئی خوش نصیب اپنے اسم مربی میں اپنا سب کچھ گم کردے تو اُسکو فانی، اور اُس اسم کے ساتھ بقا ءبھی حاصل کرے تو اس کو باقی بھی کہا جاسکتا ہے۔اس فنا اور بقا کے حصول کے بعد سالک ولایت کے مرتبِۂ اولٰی کے ساتھ مشرف ہو جاتا ہے لیکن یہاں کچھ تفصیل ہے جس کو بہت وضاحت کے ساتھ بیان کرنے کی ضرورت ہے۔

ت ت

❖ دو قسم کے فیض حق تعالیٰ سے پہنچتے ہیں ۔ ایک کا تعلق دنیاوی امور سے ہوتا ہےمثلاً مختلف تکوینی امور جیسے پیدا کرنا ،مارنا ،رزق دینا وغیرہ۔ دوسری قسم کا تعلق آخرت کے ساتھ ہےمثلاً ایمان معرفت اور مراتب ولایت میں ترقی عطا کرنا وغیرہ۔ پہلی قسم کا فیض سب طالبین کو صفات کے ذریعے عطا ہوتا ہے اس لیےاللہ تعالیٰ کے ناموں کے ذريعے ان کا حصول ہوتا ہے۔دوسری قسم کا فیض محمدی مشرب کے حضرات کو شیونا ت کے ذریعے اور باقی حضرات کو صفات کے ذریعے عطا ہوتا ہے۔

(شیونات کیا ہیں؟ اس کے لیےکچھ وضاحت کی ضرورت ہے۔اللہ تعالیٰ کی ہر لمحے ایک نئی شان ہوتی ہے۔اس سے اللہ تعالیٰ کی صفات وجود میں آتی ہیں۔ اور ان صفات سے اللہ تعالیٰ کے نام وجود میں آتے ہیں۔تو جن کو شیونات کے ذریعے سے دوسری قسم کا فیض پہنچتا ہے، تو وہ ان حضرات سے مختلف ہیں جنہیں صفات کے ذریعے یہ فیض پہنچتا ہے۔ شیونات اور صفات میں یہ فرق ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کا اپنا وجود ہے جو ہمیں محسوس ہوتا ہے اور ان کی اسماۓ الٰہی کے ساتھ ایک پہچان ہوتی ہے جبکہ شیونات کا تعلق محض اللہ تعالیٰ کے ذات سے ہے ۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ہم میں سے جب کوئی کسی لفظ کو بولنے کا ارادہ کریں تو ارادہ ہمارے ساتھ ہوتا ہے لیکن جو لفظ زبان سے باہر آتا ہے اس کا وجود باہر موجود ہوتا ہے اوراس کو باقی لوگ سنتے ہیں ۔الفاظ ہمارے ہی ہوتے ہیں ان کی نسبت ہماری طرف کی جاتی ہے لیکن وہ ہمارے خارج میں اپنی علیحدہ پہچان کے ساتھ بھی موجود ہوجاتے ہیں ۔اس کے برعکس ،ارادے کا خارج میں کوئی وجود نہیں ہوتا، اس کا تعلق صرف ذات کے ساتھ ہی ہوتا ہے۔اسی طرح) اللہ تعالیٰ کی شان کے مطابق جو صفات وجود میں آئی ہیں وہ صفات باقاعدہ موجود ہوتی ہیں، نظر آتی ہیں، محسوس کی جاتی ہیں کیونکہ وہ خارجی طور پر موجود ہیں۔ اور شيونات اللہ تعالیٰ کی ذات میں صرف اعتبارات کے درجے میں ہیں اور بس ۔اس کے علاوہ اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا جاسکتا۔

ت ت

❖ شیونات کی اعتبارات والی بات چونکہ ذرا مشکل ہے اس لیےاس کےسمجھانے کیلیے پانی کی مثال دی جاسکتی ہے پانی نیچے کی طرف آتا ہے اور اس کی کوئی واضح شکل نہیں ہوتی اور یہ جس طرح پھیلتا رہتا ہے اور کم ہوتا رہتا ہے ایسے ہی کسی وقت کسی میں زیادہ ہے اور کسی وقت کسی میں کم ہے ۔نہ ہی اس کی کوئی مخصوص شکل یا ہیٔت ہوتی ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے موجود ہونے کا علم ہےکہ پانی کی طرح اس علم کی بھی کوئی ہیٔت نہیں۔ کسی میں زیادہ ہوتا ہے کسی میں کم ۔جس طرح پانی کی کو ئی شکل نہیں ہے، جس شکل میں کوئی ڈھالے وہ ڈھل جاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ کی ذات کا علم بھی مختلف صورتوں میں ظاہر ہوتا ہے ۔ ہمیں علم ہے کہ اللہ موجود ہے اور ہمارا اس پر ایمان بھی ہے لیکن جب اللہ تعالیٰ کی صفات کا ظہور ہوتا ہے تو اس پر پانی کی مثال اس طرح صادق آتی ہے کہ جیسے جیسے اس کا ظہور ہوتا جاتا ہے ایسے ایسے ہی انسان کو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوتا جاتا ہے، جتنا جتنا وہ بڑھتا رہتا ہے اتنا اتنا انسان اپنی نظروں میںنیچے آتا جاتا ہے تو پانی کے نیچے آنے کی مثال ایسی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے بارے میں کسی کا علم جتنا جتنا بڑھتا ہے اتنا اتنا وہ اپنی نظروں میں گر رہا ہوتا ہے۔اس کواپنی کمزوریوں کی پہچان ہونے لگتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ ایک طرف اس کو اپنی کمزوریوں کا پتہ چلتا ہے دوسری طرف اس کواللہ تعالیٰ کی عظمت کا ادراک ہونے لگتا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ اپنی نظروں میں گر رہا ہوتا ہے۔

(یہ احساس دنیاوی طور پر کیسے ہوتا ہے یہ بات مجھے ایک دُنیا دارمیٹلرجی کے پروفیسر کی آپ بیتی نے سمجھائی، اور بڑی اچھی طرح سمجھائی، اُس نے اپنا واقعہ سُنایا تومیں تو حیران ہوگیا کہ یہ تو بڑا عجیب آدمی ہے۔اُس نے کہا کہ میں اپنی پی ایچ ڈی سے پہلے پڑھا رہا تھا تو میں نے اپنی کلاس میں کہا کہ مجھ سے میٹلرجی کے متعلق کوئی بھی سوال کریں میں اس کا جواب دوں گا۔ اس وقت یہ اُس کے عروج کی کیفیت تھی، صوفیاء پر بھی یہ کیفیت آتی ہے۔ پھر کہاکہ میں پی ایچ ڈی کے لیے چلا گیا اور جب میں نے کام شروع کیا تو میں اپنے دوسرے ساتھیوں کے کاموں کو نہیں سمجھ سکتا تھا۔تو میں حیران تھاکہ یہ کیا ہو رہا ہے۔میری میٹلرجی کدھر گئی،یہ سارے کام میٹلرجی کے ہیں اور میں بھی میٹلرجسٹ ہوں پھرمجھے یہ کیوں سمجھ میں نہیں آتے؟کہتا ہے کہ اُس وقت مجھے عقل آنی شروع ہو گئی، کہ میں تو ابھی بہت کچھ نہیں جانتا۔اور یہ میرے نہ جاننے کی کیفیت روز بہ روز بڑھتی رہی، حتٰی کہ میں نے پی ایچ ڈی کا کام پورا کر لیا، اور تھیسز جمع کرا دیا۔ اور جس وقت میں viva کیلیےوہاں گیا تو میں بہت سے سوالوں کے جواب نہیں دے سکا۔ میں نے کہا کہ میں یہ نہیں جانتا کہ میں جو کہہ رہا ہوں وہ ٹھیک ہے یا غلط۔ میرا کام آپ کے سامنے ہے ۔ لیکن حقیقت کیا ہے میں نہیں جانتا۔کہتا ہے کہ جب میں نے اس قسم کے جوابات دیےتومیں سمجھ گیا کہ مجھے پی ایچ ڈی کی ڈگری نہیں ملے گی۔ جب باہر آیا تو تھوڑی دیر کے بعد مجھے ڈاکٹر کہہ کر بلایا اور کہا گیا مبارک ہو ، آپ کی پی ایچ ڈی مکمل ہو گئی ہے، آپ تھیسزمیں یہ یہ تبدیلی کر لیں اور جمع کرا دیں ۔ پہلے میں سمجھا کہ یہ میرے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، میں تو پاس ہونے کے قابل نہیں تھا۔ لیکن جب مجھے پی ایچ ڈی کا کاغذ مل گیا، تو مجھے یقین ہو گیا کہ مذاق نہیں کر رہے تھے لیکن میں یہ معمہ حل نہیں کر سکا کہ مجھے پی ایچ ڈی کیوں بنایا گیا۔ میں نے کہا کہ تو صحیح ڈاکٹر ہے۔آج ہماری ا ہماری ایک صحیح پی ایچ ڈی کے ساتھ ملاقات ہو گئی۔ تو جو علم کسی کے اندر پھونک پیدا کرے اُس کو علم کی ہوا بھی نہیں لگی، وہ علم کو پہچان ہی نہیں سکا کہ علم کیا ہوتا ہے؟ جس علم نے کسی کےاندر یہ پھونک پید ا کی کہ وہ بھی کچھ ہے ، وہ اصل میں کچھ بھی نہیں ہے اوراُس کو کچھ بھی حاصل نہیں ہوا۔ اور جس کو پوری عمرمیں یہ حاصل ہوجاۓ کہ میں کچھ بھی نہیں،اُس کو سب کچھ حاصل ہوا۔ یہ میرا قول نہیں ہے، حضرت گنگوہیؒ کا قول ہے۔حضرت شیخ الہندؒ نے فرمایا کہ برسوں پڑھنے پڑھانے کا نتیجہ یہ برآمد ہوا کہ ہم جہلِ مرکب سے جہلِ بسیط میں آگٰئے ۔جتنا جتنا کسی کا علم بڑھتا ہے اتنی اتنی معرفت بڑھتی ہے جس سے وہ اپنی نگاہوں میں کم ہوتا جاتا ہے۔اُس کو پتہ چلتا ہے کہ میں کچھ بھی نہیں ہوں۔ یہ میرے ساتھ بھی ہو گیا تھا۔ میرا ساتھ یہ ہو گیا کہ پیاس (سی این ایس) کی بڑی قدر ہے پاکستا ن کی نمبر ۱ یونیورسٹی ہے جس وقت ہم نے اس سے گریجوایشن کر لی تو ہم نے خیال کیا کہ شائد ہم نے بہت معرکہ سر کر لیا ہے ۔ میں نے خواب دیکھا کہ ایک صاف پانی کاسمندر ہے ، جس کا کسی طرف کوئی کنارہ بھی نظر نہیں آرہا ہے۔ اُس کے اوپر ایک بہت لمبا پُل ہے جس کا ابتدائی اور انتہائی کنارا نظر نہیں آرہا ۔اُس پل پر ہم چل رہے ہیں، بارش بھی ہورہی ہے اور ساتھ اُس پُل کے ساتھ کنارے پر ایک فٹ ضرب ایک فٹ پانی ہے ، کوئی کہتا ہے، یہ سی این ایس ہے یعنی آج کل کا پیاس PIEASہے ۔ میں جب جاگ گیا تو کہا کہ سمجھا دیا گیا۔ کیونکہ صاف سفید پانی خواب میں علم کی طرف اشارہ ہوتا ہے اور علم لامتناہی ہے، چل رہا ہے سمندر ہے اور بارش ہو رہی ہے مطلب اس میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔ روز بہ روز ایجادات، تحقیقات، تفصیلات بڑھ رہی ہیں۔ اور ایک محدود جگہ کو کہہ دیا کہ یہ سی این ایس ہے اور اس کا اتنا سا حصہ ہے۔ پھرمجھے پتہ چلا کہ میں کدھر ہوں۔ بس یہ بات ہے کہ انسان کو علم اگر یہ سکھا دے کہ تو کچھ بھی نہیں ہے تو اُس نے واقعی کچھ پا لیا۔اُس نے کچھ علم حاصل کر لیا۔اور اگر یہ نہیں حاصل کر سکا تو اس کا مطلب ہے کہ اُسے پتہ بھی نہیں لگا کہ علم ہوتا کیا ہے؟ کیونکہ اس کو جو تھوڑا سا علم حاصل ہوا وہ تو اسے معلوم ہے اور جو اس کے علاوہ علوم و فنون کے خزانے بکھرے پڑے ہیں ان کا وہ ادراک نہیں کرسکا یعنی وہی خانہ کعبہ والی بات کہ راستے میں بیٹھ گیا اور کہا کہ یہی خانہ کعبہ ہے۔ جو اصل عا لم ہوتا ہے وہ اوپر نہیں دیکھتا بلکہ وہ اپنی نگاہوں میں نیچے آ رہا ہوتا ہے)

جب یہ بات سمجھ آ گئی کہ پانی نیچے کی طرف آتا ہےاور ثقلِ علم کی وجہ سے عالِم بھی نیچے آتا ہےتو اب جیسے علم حیات کے تابع ہے ، یعنی کوئی زندہ ہو گا تو اُس میں علم ہوگا اسی طرح ارادہ علم کا تابع ہے کہ علم ہوگا تو صحیح ارادہ کرسکے گا۔اورقدرت اردہ کے تابع ہے کیونکہ ارادہ کے استعمال سے جتنی بھی چیزیں مقدور ہو سکتی ہیں اُن میں سے کسی کو چُننا اور اختیار جوکرنا ہوتاہے وہ قدرت ہے۔تو پتہ چلا کہ یہ سب صرف آپس میں صرف اعتبار کےذریعے جڑے ہوئے ہیں یہ آپس میں ایک دوسرے پر منحصر ہیں لیکن پانی کے ساتھ ان کا تعلق اعتباری ہے حقیقی نہیں۔ پانی کو زندہ ، عالِم، قادر اورمرید نہیں کہہ سکتے کیونکہ یہ صفات پانی کے اندر موجود نہیں ہیں لیکن پانی کے ساتھ ان کا اعتباری تعلق ضرور ہے۔

اب اس پانی کو اگر کوئی گلاس میں دیکھے گا تو اس کو پانی گلاس کی طرح نظر آۓ گا اور اگر کوئی گھڑے میں دیکھے گا تو اس کو پانی کی شکل گھڑے کی طرح نظر آۓ گی لیکن جس کو صحیح علم ہوگا کہ پانی کی کوئی شکل نہیں تو وہ تو سمجھ رہا ہوگا کہ یہ اس کی اپنی شکل نہیں کہ یہ مجھے اس لیےایسا نظر آرہا ہے کہ میں نے اس کی ایسے ہی حد بندی کی ہے ۔اس طرح اللہ تعالیٰ کی بھی کوئی مثال نہیں دی جاسکتی بس جس کو جس طرح اس کا ادراک ہوتا ہے تو اسی طرح اس کو نظر آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا علم ایسا ہے۔یہ کسی کی کم علمی ہوگی کہ وہ اس کو کوئی نام دیتا ہے یا اس کو کوئی شکل دے دیتا ہے۔یہ ابھی ناپختگی کی علامت ہے۔جب وہ اس سے آگے بڑھے گا تو پھراس کو اندازہ ہوگا کہ یہ چیز تو لا محدود ہے اور اس کی کوئی مثال نہیں ۔اس سے اس کا تحیر بڑھے گا۔ جب اس علم کو لامحدود سمجھے گا تو اس سے اس کا پانی کی طرح نزول ہوگا اوراس کا اپنی کم علمی کا احساس بڑھتا رہے گا جس سے اس کے تحیر میں اضافہ ہوگا۔

پس پانی کی اس مثال میں جو اعتبارات پاۓ گئے ہیں ، یہ شیونات کی طرح ہیں کیونکہ شیون جو ہیں وہ اعتباری انداز میں موجود تو ہوتے ہیں لیکن اُن کا کوئی نام نہیں ہوتا۔ جیسا کہ پانی کو ان اعتبارات کی بنیاد پر زندہ ، عالِم، قادر اورمرید نہیں کہہ سکتے اس طرح جو اللہ کی شان ہیں ان کے نام نہیں ہوتے۔ یہ درست ہے کہ صفات شیونات کے ذریعے سے وجود میں آتی ہیں لیکن شان کسی خاص صفت کے حوالے سے نہیں بلکہ ذات کے حوالے سے پکاری جاۓ گی۔ جتنی بھی صفات ہیں ان کا الگ الگ اثر ہوتا ہے لیکن شان ان سب سے جدا ہوتی ہے اور اس کا تعلق صرف ذات کے ساتھ ہوتاہے۔

ان کی جتنی بھی اصل صفات ہوں گی ان کا وجود الگ الگ ہوگا جیسا کہ اس کا میٹھا ہونا کڑوا ہونا شفاف ہونا وغیرہ وغیرہ ہوتا ہے لیکن اس کا جو اعتباری تعلق حیات ،علم ،قدرت اور اردے کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اس سے اس کے لیےیہ نام ان ان اعتبارات کی بنیاد پر نہیں پکارے جاسکتے کیونکہ اس کے لیےان کی اپنے لحاظ سے جدا موجودگی کا ثبوت درکار ہوگا ور اگر بعض مشائخ نے اعتباری قسم کے نام پانی کے لئے تجویز بھی کیٔے ہیں تو وہ شیونات اور صفات کا فرق نہ جاننے سے ہوگا اور اس طرح پانی کی بعض ثابت شدہ صفات کی نفی بھی اس اس فرق کے نہ جاننے کی وجہ سے ہوسکتی ہے۔

(جو سالکین مقامِ صفات والے ہوتے ہیں ان پر جب کسی خاص صفت کا غلبہ ہوتاہے تو باقی صفات ان کی نظروں سے چھپ جاتی ہیں ، وہ اُسی کے اندر فنا ہو جاتےہیں مثلاً کوئی ایک آدمی ہے وہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ہی بیان کر رہا ہے اُس پر اللہ تعالیٰ کی رحیم ہونے کی صفت کھل چکی ہے ، دوسرا شخص اللہ تعالیٰ کی کسی اور صفت کے بارے میں بیان کر رہا ہے، تو مقامِ صفات والا سالک کسی خاص صفت کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ باقی صفات سے وہ اُس وقت محجوب ہوتا ہے۔ جبکہ مقامِ شیون والا صفات کی طرف نہیں ، بلکہ براہ راست اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے ۔ اُس کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ میں کس صفت کی طرف ہوں، علم کی طرف ہوں خلق کی طرف ہوں، کرم کی طرف ہوں ، بس وہ اللہ کی ذات کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔ اور باقی تمام کی تمام صفات اس کو ذات کے حوالے سے ایک خلاصے کی طرح نظر آتی ہیں، اس کی مثال کچھ یوں دی جاسکتی ہے کہ آدمی اگر کسی شخص سے اس کی سخاوت کی صفت کی وجہ سے متاثر ہوجاۓ اور اس کی وجہ سے اس پر عاشق ہوجاۓ۔ تو عاشق تو ہوۓ اس پر کسی خاص صفت کی وجہ سے لیکن جب عاشق ہو گئےتو پھروہ اس صفت کو بھی بھو ل گئے۔ صرف اس کی ذات پر عاشق ہو رہے تو اب اس کو اس شخص کی دوسری صفات نظر تو آئیں گی لیکن ایک خلاصے کی شکل میں ہی، اصل میں اس کومحبوب کی ذات سے ہی محبت ہوگی ۔پس شیون والا صاحب شان کے سامنے رو بررو ہوتا ہے، اُس کو مزید چیزوں کا ادراک اس قدر تفصیلی نہیں ہوتا۔ یہ ایک کیفیت والی بات ہے جو انسان سمجھا نہیں سکتا۔ یہ حال جس انسان پر طاری ہوتا ہے،اس وقت وہ اللہ کی طرف جس طرح متوجہ ہوتا ہے ، اُس حالت کو سمجھایا نہیں جا سکتا کیونکہ یہ کیفیات ہیں اور کیفیات کو الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا، لہٰذایہ بات اس میں ہمیشہ چلے گی کیونکہ اس قسم کی چیزیں پورے طور پر بیان نہیں ہوسکتیں بلکہ تشنگی برقرار رہتی ہے)۔

مختصراً صفات میں مختلف اوقات اوقات میں مختلف صفات کی تجلیات کی وجہ سے تغیر ہے اور شیون میں ایک ہی ذات کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے پختگی اورتمکین ہے کیونکہ جو صفات کے مشاہدہ میں ہے اس پر کبھی ایک صفت کی تجلی زیادہ ہوتی ہے کبھی دوسری صفت کی ۔اور شیون میں بس اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف ہی توجہ ہوگی۔

ت ت

❖ آپ ﷺ اور جو اولیاۓ کرام ؒ آپ ﷺ کے قدم پر ہیں ان کو محمدی مشرب کہتے ہیں ان سب کو فیض ثانی ، شیونات کے ذریعے ملتا ہے۔ جبکہ دوسرے انبیاء کرام﷨ اور جو اولیاۓ کرام ؒ ان کے قدم پر ہیں ان کو دونوں طرح کے فیوضات یعنی اول اور دویٔم قسم کے فیض، صفات کے ذریعے ملتےہیں ۔یہ پہلے بتایا گیا ہے کہ پہلی قسم کا فیض ،آپ ﷺ اور محمدی مشرب اولیاۓ کرام کو بھی صفات کے ذریعے ملتا ہے۔اس میں ابتدا میں ایسا ہوتا ہے کہ سالک کے اوپر کسی خاص صفت کی تجلی ہوتی ہے اور آپ ﷺ کے توسط سے ہوتی ہے تو اس سے پھراس صفت میں پختگی حاصل کرتے کرتے آگے سفر کرتے ہیں ۔

اللہ تعالیٰ کا وہ نام جو آپ ﷺ کا رب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی شانِ علم کا ظل یعنی سایہ ہےجو کہ تمام اجمالی اور تفصیلی شیون بشمول شانِ علم کی قابلیت کے لیےہے یعنی جس کے ذریعے ساری شان ظاہر ہورہی ہیں ۔اللہ تعالیٰ کی ذات تو بے مثل و بے کیف ہے لہٰذا یہ قابلیت جو حق تعالیٰ اور شان علم کے درمیان برزخ ہے بھی شان علم کے رنگ میں مکشوف ہوتی ہے کیونکہ بے رنگ اورکوئی رنگ مل کر وہی رنگ بنتا ہے اس لئے اس کو ظل کہا گیا اور جن چیزوں کا اس سے ظہور ہورہا ہے ان کو بھی ظل کہنا مناسب ہے۔ اصل میں اللہ پاک بھی سارے حجابات نہیں اٹھاتے ۔ایک حجاب علم کا باقی رکھا جاتا ہے وہ نہیں اٹھاتے۔(شاید اس لیےکہا گیا ہے العلم حجاب اکبر)ہمیں ایک طرف سے اپنا علم جس سے تصور بنتا ہےنظر آرہا ہوتا ہےلیکن اس تصور کے پیچھے ہوتے اللہ پاک ہی ہیں کیونکہ اگر سایہ نظر آرہا ہے تو جس کا سایہ ہے وہ بھی موجود ہونا چاہیے تو اگر اللہ پاک کا علم نظر آرہا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ پاک بھی موجود ہے۔جیسا کہ کھڑکی سے کسی کو سایہ نظر آ رہا ہو تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ سورج بھی موجود ہے، اگر سورج موجود نہ ہو تو سایہ کیسے موجود ہو؟ پس ہمیں جو چیز نظر آ رہی ہے تو گویا کوئی ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ اُس کے ساتھ وہ بھی ہے جس کی وجہ سے یہ ہے۔

یہ ساری کشفی باتیں ہیں اور کشف ہر ایک کی اپنی استعداد ، حالات اور اللہ تعالیٰ کی مشیت کے مطابق مختلف ہوسکتا ہے خصوصاً اللہ تعالیٰ کی ذات اور صفات کے متعلق جو باتیں ہیں اور جو چیزیں نظر آرہی ہیں وہ اللہ تعالیٰ خود تو نہیں ہے۔ان میں اصل تو نہیں ،سایہ ہی نظر آرہا ہے کوئی اس کی کچھ ہیٔت بیان کرے گا اور کوئی اور ہیت بیان کرے گا کسی کو کچھ نظر آۓ گا کسی کو کچھ ، اپنی اپنی بساط کے مطابق جو اللہ تعالی کسی کو دکھا نا چاہتا ہے وہ اس کو دیکھے گا۔

(حضرت ؒ یہ ساری تفصیلات کیوں بتا رہے ہیں؟ اس لیےکہ بہت بڑا مشکل سوال ہر صوفی اور عارف کے سامنے ہے، وہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ موجود بھی ہے لیکن نظر نہیں آتا، بہت سے لوگ ایمان سے اس لیے محروم ہوتے ہیں وہ اللہ کو دیکھ نہیں پاتے، ایک فلسفی قسم کا نومسلم ہمارے مفتی مختاردین شاہ صاحب مدظلہٗ کے پاس آیا تھا۔اُس نے سوال کیا کہ اللہ کیسے ہیں، مجھے اللہ دکھاؤ، وہ چونکہ نو مسلم تھا اور نو مسلم اس طرح کی باتیں کر سکتے ہیں،مفتی صاحب نے دل میں کہا کہ یا اللہ میں اس کو کیسے قائل کروں، پھر اس کو کہا کہ کھانا کھائیں ، نماز پڑھیں ، اس کے بعددیکھیں گے۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ میں نے نماز پڑھی اور اللہ پاک سے دعا کی کہ یا اللہ یہ تو بہت مشکل سوال ہے اس کا جواب مجھے سمجھا دیں، تاکہ میں اس کو سمجھا سکوں۔دیکھیں دعوت و تبلیغ کے ساتھ علم کی ذمہ داری ایک اچھا خاصہ مشکل کام بن جاتا ہے ۔ ایک محض عالِم ہوتا ہے جو "وما علینا الا البلاغ" کہہ کر بات ختم کرلیتا ہے۔ کہ بات یہ ہے ، چاہے مانو یا نہ مانو۔ لیکن جس کا دل چاہتا ہو کہ سائل لائن پر رہے، واپس نہ جائے ، اس سے اگر کوئی اس طرح کے سوالات کرنے لگے جس کا جواب اس عالِم کے پاس نہ ہو، تو اُس عالِم کو بہت ٹینشن ہوتی ہے ، اور وہ ٹینشن یہ ہوتی ہے کہ اُس کا جواب نہیں آ رہا ہوتا ہے لیکن وہ اُس کو چھوڑنا بھی نہیں چاہتا۔ یہ ضابطے کا جواب کہ بس ماننا پڑھے گا ، یہ سوچ کر کہ کہیں یہ ٹوٹ نہ جائے، اُس کے لیے مشکل ہوتا ہے، ۔تو حضرت مفتی صاحب کا بھی بھی یہ حال تھا۔ خیر جب مفتی صاحب دوبارہ تشریف لائے تو کہا دیکھو، آپ تو ماشا اللہ تصور کرنے میں میں کافی آگے ہیں، تو آپ ابھی یہ تصور کر لیں کہ ایک بہت بڑا باغ ہے اور وہ میرا ہے۔ اُس باغ کے اندر چمن بنائیں، درخت لگائیں، پھل لگا دیں ، پھول لگا دیں۔اس نو مسلم نے کہاکہ لگ رہے ہیں یعنی اس کی تصور میں لگ رہے تھے، مفتی صاحب نے کہا کہ اُس باغ میں اب انسان بھی بنائیں، کہا بن گئے، کہا اُن کو پھرچلتا پھرتا تصور کریں، کہا چل پھررہے ہیں ، لوگ آپس میں مل رہے ہیں۔ مفتی صاحب نے پھر اس سے پوچھا کہ یہ جو آپ کے تصور میں لوگ ہیں، کیا یہ آپ کو دیکھ سکتے ہیں؟کہنے لگا کہ یہ کیسے مجھے دیکھ سکتے ہیں،یہ تو میری تخلیق ہے۔مفتی صاحب نے کہا کہ بس یہی بات ہے، کہ ہم اللہ کو نہیں دیکھ سکتے کیونکہ ہم اللہ تعالیٰ کی تخلیق ہیں۔اس طرح وہ قائل ہو گیا۔ یہ بات تو صحیح ہے،یہ باتیں مشکل ہیں لیکن جب انسان کسی اشکال میں پھنس جاتا ہے تو پھراس کو جواب چاہیے ہوتا ہے۔اور جس کو جواب چاہیے ہوتا ہے وہ پھر مشکل کو نہیں دیکھتا ، اس کو ان تحقیقات کی قدر ہوتی ہے۔ورنہ دین تو بہت آسان ہے لیکن جب کسی انسان سے کوئی غلطی ہوتی ہے تو اس کا حکم معلوم کرنے کے لیےبعض دفع کتابیں ڈھونڈنی پڑتی ہیں ۔ اُس وقت اگر اس کو کوئی ایسا مل جائے جو اس کو وہ جزیہ بتادے تو اس کواس وقت بڑی خوشی ہوتی ہے۔بعینہ اللہ تعالیٰ کی معرفت کے طالبین کے لیےیہ باتیں بہت قیمتی ہیں ۔اللہ تعالیٰ سب کو اس کا نفع پہنچاۓ۔یہ ساری باتیں معرفت الٰہی کی ہیں اور شروع ہوئی ہیں آپ ﷺ کی اسم مربی سے جو کہ شان علم کا ظل ہے اور اس کے ذریعے ہم سب کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی ہے ۔یہ واضح ہورہا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت بغیر آپ ﷺ کے واسطے کے حاصل نہیں ہوسکتی ۔یہ بات حقیقت محمدی کی طرف جاتی ہے اور خصوصی طور پر نوٹ کرنے کے قابل ہے۔)

ت ت

❖ محمدی مشرب اولیاء کے لیےفیض ثانی کے اسماۓ مربی بیسویں پیرے میں مذکوراس جامع قابلیت کے ظلال ہیں اور اس کے لیےتفصیلات ہیں جبکہ باقی انبیاٖء کے اسمائے مربی وہ ہیں جو ذات باری تعالیٰ کی صفات کی قابلیتوں سے وجود میں آۓ ہیں۔ اور وہ گروہ جو ان انبیاء کے نقش قدم پر ہے ان کے ارباب وہ صفات ہىں جو ان کے لىٔے فىض اول و فىض ثانى کے وصول کا ذریعہ ہىں ۔

آپ ﷺ کے لیےفیض اول کے وصول کا واسطہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے ساتھ متصف ہونے کی قابلیت ہے ۔ گوىا وہ تمام قابلىتىں جو انبىاء علىہم الصلوٰۃ والسلام کے لىٔے دونوں قسم کے فىوض کے وسائل ہىں وہ اس قابلىت جامع کے ظلال ہىں اور اس کے لىٔے تفصىلات کے مانند ہىں ۔ محمدی مشرب اولیاء کے لیےفیض اول کے حصول کا ذریعہ وہ صفات ہیں جن کے اسماء ان کے مربی ہیں۔

اسی کو بعض مشائخ نے آپ ﷺ کے لیےفیض دوم کا واسطہ بھی مانا ہے لیکن وہ صفات اور شیون کا فرق نہ جاننے کی وجہ سے ہوگا۔ نیز وہ تمام قابلیتیں جو تمام انبیاء ﷨ کے لئے فیوض کے حصول کے واسطے ہیں وہ اس جامع قابلیت کے ظلال ہیں اور تفصیلات کی طرح ہیں ۔اس سے یہ بات پایۂ تحقیق تک پہنچ گئی کہ آپ ﷺ کا رب صفات و شیون کا رب الارباب ہے اور کسی کے لئے بھی دونوں فیوض کے حصول کا واسطہ ہے(یہ بات بھی حقیقت محمدیہ کی طرف جارہی ہے)۔

(مطلب یہ ہے کہ جو اللہ تعالیٰ کی ذات کی طرف متوجہ ہوتے ہیں وہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی طرف متوجہ نہیں ہوتے، یا اگر ہوتے ہیں تو اجمالی طور پر ہوتے ہیں۔مگر جیسے ہی وہ اِن چیزوں کی طرف غور کرتے ہیں،تو جو صفات ہوتی ہیں وہ اُن کو تفصیلات نظر آتی ہیں۔ اور جو دوسرےانبیاء کرام﷩ کے مبارک قدموں پر ہیں ان کو صفات کے ذریعے دونوں فیض ملا کرتے ہیں ۔)

چونکہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی معرفت رکھنے والی ذات آپ ﷺ کی ہے اور آپ۬ﷺ کی امت کو معرفت آپ ﷺ کی توسط سے ملی ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی صفات کا ظہور سب سے زیادہ آپ ﷺ کی امت پر ہوا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ﷺ کے رفقاء اور قریبی اولیاء اللہ کی معرفت باقی امتوں کی اولیاء کی معرفت سے اور آپ ﷺ کی امت کی معرفت باقی امتوں کی معرفت سے بہتر ہے ۔مختصراً یہ کہ اللہ تعالیٰ کی صفات باقی امتوں پر اتنی نہیں کھولی گئیں جتنی آپ ﷺ کی امت پر کھولی گئیں ۔ہر صفت کی ایک قابلیت ہوتی ہے جیسے صفت ِ علم کی قابلیت، صفتِ رزاقیت کی قابلیت ،صفتِ رحیمیت کی قابلیت۔جس قابلیت سے تمام صفات کا اجرا ہو اُس کو جامع قابلیت کہتے ہیں۔

جو اولیاء اللہ صرف صفات کے ذریعے فیض لیتے ہیں وہ بھی آپ ﷺ کے حکم کے مطابق ہی ہے کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کو اس کی صفات سے پہچانو۔ تو انہیں ان ہی صفات کے ذریعے سے معرفت ملتی ہے ۔جواولیا ءاللہ صفات سے آگے شیونات میں بھی جاتے ہیں ، انہیں بھی آپ ﷺ کے توسط سے ملتا ہے۔ اس وقت انہیں یہ صفات والی چیز تفصیلات معلوم ہوتی ہے کیونکہ اللہ پاک کے سامنے حضوری کی کیفیت میں صفات کی طرف دھیان نہیں جاتا۔پس دوسری قسم کے اولیاء اللہ کے لیے صفات ،تفصیلات ہیں جبکہ پہلی قسم والے اولیا اللہ کے لیے یہ راستہ ہیں۔پس محمدی مشرب والے حضرات، فیض اول تو صفات کے ذریعے حاصل کرتے ہیں اور فیض دوم شیونات کے ذریعے، جبکہ دوسرے انبیاء کے مشرب والے دونوں فیو،ض ،صفات کے ذریعے حاصل کرتے ہیں ۔

آپ ﷺ کی ذات چونکہ جامع ہے اس لیٔےآپ ﷺ کو دونوں قسم کے فیض دیے گئے تھے۔ دونوں قسم کے اولیا اللہ کو فیض آپ ﷺ کے توسط سے ہی ملتا ہے لیکن آپ ﷺ کے توسط سے کچھ اولیا اللہ صفات کے ذريعے اور کچھ شیونات کے ذریعے سے لیتے ہیں۔

ت ت

❖ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے جو فیض ملتا ہے اس کے مابین کوئی اضافی حکم نہیں آتا کیونکہ شیون عین ذات ہیں اس لئے تجلی ذاتی آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہوگئی اور آپ کے کامل تابعدار چونکہ آپ ﷺ کی راہ سے فیض حاصل کرتے ہیں وہ بھی اس مقام سے بہرہ مند ہوتے ہیں دوسروں کے لئے چونکہ صفاتی واسطے درمیان میں ہیں اور صفات ، ذات سے مختلف ہیں اس لئے ان کے لئے یہ حجاب بن جاتا ہے اور ان کے لئے تجلی صفاتی ہے۔یہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے متصف ہونے کی جو قابلیت ہے اس کا کوئی علیحدہ وجود نہیں ۔اگر چہ صفات موجود ہیں نہ کہ ان کی قابلیت لیکن قابلیت ، اللہ جل شانہ اور صفات کے درمیان برزخ ہے اور برزخ کا رنگ دونوں طرف کے رنگ کا مجموعہ ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات کی بے رنگی اور اس کی صفات کے رنگ کے مجموعے نے صفات کا رنگ لے لیا اس طرح یہ قابلیت بھی صفات کی طرح حائل ہوجاتی ہے۔

چونکہ آپ ﷺ کو معرفت بغیر کسی حجاب کے ملی تو جو اس رستے پر ہے وہ تو آپ ﷺ کے رستے پر ہے اور دوسرے حضرات صفات کے ذریعے پہنچتے ہیں۔لیکن یہ صفات کی طرف دھیان ان کے لیےحجاب بن جاتا ہے۔قابلیت اتصاف یعنی صفت سے متصف ہونے کی قابلیت، اگر چہ ایک اعتبار ہے لیکن اس کا کوئی وجود زائد نہیں اور چونکہ صفات موجود ہیں نہ کہ ان کی قابلیت ،لیکن چونکہ قابلیتیں ذات و صفات بلکہ شیون و صفات کے درمیان برزخ ہیں اور برزخ اپنی دونوں طرف کا رنگ رکھتا ہے اس لیےقابلیتوں نے بھی صفات کا رنگ اختیار کرکے حائلیت کی حیثیت اختیار کرلی۔

فراق دوست اگر اندک است اندک نیست

درون دیدہ اگرنیم مؤست بسیار است

ابو بکر صدیقؓ بغیر کسی دلیل کے ایمان لاۓ وہ اور آپؓ کی طرح کے حضرات، شیونات کے ذریعے فیض لیتے ہیں اور کچھ صحابہؓ ظواہر کی بنیاد پر تحقیق کرنے کے بعد ایمان لائےوہ صفات والے ہیں۔ اس طرح اولیاءکرام میں سے بعض نے بغیر کسی دلیل کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی اور اور بعض نے عقل کو استعمال کرکے صفات کے اندر غور کرکے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کی، تو جو بغیر کسی دلیل کے اللہ تعالیٰ کے ساتھ محبت کرتے ہیں اور اللہ پر ایمان رکھتے ہیں وہ شیونات کے ذریعے فیض دوم لیتے ہیں اور جنہوں نے اس کے لیےعقل کو استعمال کیا مثلاً کائنات کے اندر اور دنوں کے الٹ پھیر میں غور کرکے اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کی وہ صفات کے ذریعے اللہ تعالیٰ سے دونوں فیض لیتے ہیں لیکن ان کی عقل ان کے لیےایک حجاب ضرور بنے گی ۔

ت ت

❖ اس تمام بحث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ شہودی فیض یعنی فیض ثانی شیونات کے ذریعے لے رہے ہیں جس کے لئے تو حجاب ثابت نہیں ہوا اور وجودی فیض یعنی فیض اول صفات کے ذریعے لے رہے ہیں جس کے لئے برزخی طور پر حجاب کی بات گزر گئی ہے ۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا بے حجاب ظہور تجلی شہودی کے منافی نہیں بلکہ تجلی وجودی کے منافی ہے اس سے کوئی یہ مراد نہ لے کہ شیون اور ان کی قابلیتیں جب عقل کے اعتبار سے ہیں تو ان کا وجود ذہنی ثابت ہوا ۔اس وجود ذہنی کے اشتباہ سے بچانے کے لیے علم کا حجاب ہونا لازمی قرار پایا تاکہ وجود کی طرف ذہن نہ جائے۔ خلاصہ کلام ىہ ہے کہ صفاتى حجابات خارجى ہىں وہ قائم رہتے ہىں اس مىں کبھى مکمل معرفت نہىں ہوتى اور شىونى حجابات علمى اور کشفى ہىں ان مىں بعض اوقات باقى سارے حجابات اٹھادىٔے جاتے ہىں لیکن یہ علمى حجابات بھى بڑے ثقىل لگتے ہىں اس لىٔے بعض دفعہ بغىر علم کے بھى ذات حق کا مشاہدہ کراىا جاتا ہے۔

ت ت❖ ان مقدمات کے معلوم ہونے کے بعد، یہ کہا جاسکتا ہے کہ اگر کوئی سالک ،محمدی مشرب ہےاسکے سلوک کی انتہاء اس کے اسم مربی کی شان کا ظل ہے ۔پس اگر وہ اپنے اسم مربی تک پہنچ گیا اور اس میں فنا ہوگیا تو وہ اس اسم پہ رُکے گا نہیں بلکہ اُس اسم کی صفت تک جائے گا اور اُس صفت سے آگے شان تک جائے گا ۔مثال کے طور پر اگر کوئی کسی کی کسی صفت سے متاثر ہوا اور پھراس کی وجہ سے وہ محبوب بن گیا پھراُس کے بعد اس کی نظر اُس صفت پر بھی نہیں رہے گی جس صفت کی وجہ سے وہ اس پر عاشق ہوا ہے بلکہ اسے وہ صفت یاد بھی نہیں رہتی ،اسے تو صرف اپنا محبوب یاد ہے۔ یعنی وہ اُس صفت کا نہیں بلکہ صفت والے کا عاشق ہوگا۔ اس لیےوہ صفت میں فنا نہیں ہے بلکہ اس ذات میں فنا ہے لہٰذا اگر یہ سب کچھ اللہ کے لیےہو تو اُس کو فنا فی اللہ کہا جاۓ گا اور جو شخص اس فنا کے ذریعے سے اللہ کے ہاں باقی بن جاتاہے یعنی اُس کی فنا مقبول ہو جاتی ہے اور پھراُس کو استقرار حاصل ہوجاتا ہے اور اللہ جل شانہ اُس کو اُس حیثیت میں لوٹا دیتا ہے تو پھریہ باقی بااللہ بن جاتاہے ۔ یعنی اُس اسم کے ساتھ فانی فی اللہ بھی بن جاتاہے اور باقی باللہ بھی ۔ لیکن یہ فنا فی اللہ ہے، بقاباللہ ہے، فنا فی العلم نہیں ہے ، فنا فی الرزاقیت نہیں ہے، فنا فی الحکیمیت نہیں ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ سارے اسماء مبارکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی اپنی جگہ پر کامل انداز میں موجود ہیں لیکن وہ صفات کا عاشق نہیں ہے وہ ذات کا عاشق ہے لہٰذا وہ جو ذات کا عاشق ہے اسے سوائے اُس ذات کے کچھ نظر نہیںآئے گا ۔ لہٰذا یہ فنا فی اللہ بن جاتاہے۔اوروہ اس فنا وبقا کے ساتھ ولایتِ خاصہ محمدیہ علیٰ صاحبھا الصلٰوۃ و السلام والتحیۃ کے مرتبۂ اولٰی میں داخل ہوجاتاہے۔

اور اگر محمدی مشرب نہیں ہے تو صفت کی قابلیت یا صرف صفت کے نام تک پہنچتا ہے جو اس کا رب ہے، اور اگر وہ اس اسم میں فانی بھی ہوجائے تو اُس پر فنا فی اللہ کا اطلاق نہیں کرنا چاہئے کیونکہ وہ اسی صفت پر ٹھہر گیا ہے جو ذات سے مختلف ایک خارجی وجود ہے۔وہ آگے ذات تک نہیں پہنچا ۔ وہ صفت پر عاشق ہے وہ صفت میں فانی ہے وہ فانی فی اللہ نہیں ہے بلکہ فانی فی صفت ہے۔مثال کے طور پر فانی فی الرحیمیت ہے یا فانی فی الکریمیت ہے ۔ مطلب یہ ہے کہ جو بھی اسم اس کا اسم مربی ہے اگر وہ اُس تک پہنچ گیا ہے اگروہ اُس کے اندر فانی ہے ۔تو فنا فی اللہ اُس کو نہیں کہا جا سکتا۔ اور اس طرح اس اسم کے ساتھ بقا کی صورت میں باقی باللہ بھی اس کو نہیں کہا جاسکتا کیونکہ اسم اللہ سے وہ مرتبہ مراد ہے جو تمام شیون و صفات کا جامع ہے اور شیون کی جہت میں زیادتی صرف اعتباری ہوتی ہے۔ جیسےکوئی کسی پہ عاشق ہوجاۓتو ممکن ہے کہ اُس کے ساتھ اس کاعشق روز روز بڑھتا جائے ،مزید مزید کھلتا جائے لیکن وہ پہلے روز بھی اسی پہ عاشق ہے آخری روز بھی اُسی پہ عاشق ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ نہیں کسی ایک حصے کے ساتھ ہے اور کسی دوسرے حصے کے ساتھ نہیں جیسا کہ صفات کے معاملے میں ہے کہ رحیمیت کی تجلی پر نظر ہو کریمیت پر نہیں بلکہ تھوڑے اور زیادہ کا فرق ہوسکتا ہے پس اگر تھوڑا بھی ہے تو اُس کا ہے اور اگر زیادہ ہے تو بھی اُس کا ہے لہٰذا درمیان میں جو بات ہے وہ اصل میں اعتباری اور عقلی ہے نہ کہ موجود وجود خارجی۔ لہذا ایک اعتبار میں فنا ہونا تمام اعتبارات میں بلکہ ذات تعالیٰ و تقدس میں فنا ہونا ہے۔ اس طرح ایک اعتبار میں بقا ہونا تمام اعتبارات میں بقا ہونا ہے۔ پس اس صورت میں فانی فی اللہ اور باقی باللہ کہنا درست ہو جائے گا ۔

اس کے مقابلے میں صفات کی ذات سے علیحدہ اپنی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ ان میں اور ذات الٰہی میں جو فرق ہے وہ تحقیقی ہے نہ کہ اعتباری۔ کیونکہ اگر دیکھیں کہ جو صفت ہے وہ اُ س سے مختلف یعنی جُدا چیز ہے۔ جیسے مثا ل کے طور پر اللہ پاک نے ارادہ کیا وہ چیز بن گئی تو جو چیز بن گئی وہ تو اللہ تعالیٰ نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ اُس کی کوئی نسبت نہیں ہے۔ لیکن جو اسکا بنانے کا جو ارادہ ہے وہ تو اللہ ہی کا ہے تو شان اللہ کے ساتھ ہے شان اور ذات میں علیحدگی نہیں لیکن صفات اور ذات میں علیحدگی ہے ۔ اُن کا اپنااپنا مستقل وجود ہے۔ لہٰذا ایک صفت میں فانی ہونے سے کوئی تمام صفات میں فانی نہیں ہوتا ۔ اسی طرح ان کے ساتھ بقا کا بھی حال ہے۔ لہٰذا مجبورا ً اس فانی کوفانی فی اللہ اور باقی کو باقی باللہ نہیں کہنا چاہئے بلکہ مطلق فانی اور باقی کہہ سکتے ہیں ۔یا ایک صفت کے ساتھ مقید کر کے کہہ سکتے ہیں جیسے علم کی صفت میں فانی ہے یا صفت علم کے ساتھ باقی ہے جبکہ محمدیوں یعنی محمدی مشرب کی فنا سب سے اتم اور اُن کی بقا سب سے اکمل ہے۔

ت ت

❖ محمدی مشرب والے حضرات شیون میں فنا ہوتے ہیں اور شیون کا عالم کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوتا کیونکہ عا لم کو اللہ کی صفات کے ساتھ تعلق ہے مطلب یہ ہے کہ چونکہ شان کا تعلق اللہ تعالیٰ کی ذات کے ساتھ ہے اوراللہ تعالیٰ خالق ہے اور عالَمَ مخلوق ۔ تو ان میں کوئی مناسبت نہیں ہوسکتی البتہ عالَم یعنی کائنات کا ظہور اللہ تعالیٰ کی صفات کے ساتھ ہوا ہے تو اس کا صفات کے ساتھ تعلق واضح ہے پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی کسی شان میں فنا ہوگیا تو اس کی فناۓ مطلق ثابت ہوگئی کیونکہ اللہ کی کسی ایک شان میں فنا ہونا شیون کے آپس میں اعتباری تعلق کی بنیاد پر سب شیون میں فانی ہونا ہے لیکن اگر کوئی کسی ایک صفت میں فانی ہوگا تووہ اس صفت میں تو فانی ہوگا لیکن باقی چیزوں کو موجود پاۓ گا اوراس کی فنا مکمل نہیں ہوگی ۔سب سے زیادہ جس فنا کی ضرورت ہے وہ اپنی فنا ہے تو جب تک اپنی فنا نہیں ہے اور انسان کا وجود بھی کائنات کی وجود کے اندر ہے تو اس کی فنا کامل نہیں ۔ شیون والے حضرات کی نظر صفات تک جاتی ہی نہیں اس لیےاس کے لیےہر چیز فنا ہوجاتی ہے جس میں وہ خود بھی شامل ہیں۔

اس تفصیل سے واضح ہوا کہ شیون والے حضرات کی فنا چونکہ کامل ہوتی ہے اس لیےان کی بقا بھی کامل ہوتی ہے اس لئے جب ان کا نزول ہوتا ہے اور بشری تقاضوں کی طرف ان کو لوٹایا جاتا ہے تو ان کا پھراپنے آپ کی طرف التفات نہیں ہوتا ۔ ان کی فنا اتنی کامل ہوتی ہے کہ ان کی بشری صفات ان کو اس طرح نقصان نہیں دیتی ہیںاور وہ اس وقت اپنی بشری صفات پر حاوی ہوتے ہیں کیونکہ وہ حق تعالیٰ کے ساتھ بقا حاصل کرچکے ہوتےہیں اس لیےان کو نفس کی خواہشات کے مقابلے کا اجر تو ملتا ہے لیکن بشری صفات کی وجہ سے دوبارہ نفس کے جال میں نہیں آتے۔اس لیےفرمایا گیا کہ ان کو عود کا خطرہ نہیں رہتا ۔ ان کے برعکس صفات والے حضرات کی فنا ایک یا چند صفات میں ہوتی ہے اس لیےجب ان کا زوال ہوجاتا ہے تو ان کی نظر پھراپنی صفات پر جاسکتی ہے کیونکہ ان کی صفات فنا نہیں ہوئی ہیں ۔اس لیےان کا خطرہ واپس لوٹنے کا موجود رہتا ہے۔بعض مشائخ جو فنا کے بعد رد کے قائل ہیں اور بعض نہیں اس کی وجہ حضرتؒ فرماتے ہیں کہ شاید یہی ہو۔

ت ت

❖ مشائخ کا اختلاف بھی ان کی اپنی اپنی استعداد اور ان کی پرواز کے مطابق ہوتا ہے اس لیےان میں جو جہاں پہنچے ہوں گے اتنی اتنی ان پ ر بات کھلی ہوگی۔اس لیےجو شیونات میں ہیں ان کو اورکچھ نظر آۓ گا اور جو صفات میں ہیں وہ صرف اس حد تک بات کرسکتے ہیں ۔

جو صرف اللہ تعالیٰ کی ذات میں فنا ہوگیا اس کی نظر سے پوری کائنات بشمول اپنے آپ کے ،اوجھل ہوگی اور اگر وہ نہیں ہوئی تو پھرکچھ نہ کچھ تو باقی ہوگا اور اس کی ذات کا اثر بھی موجود ہوگا یعنی اپنے آپ کا بھی کچھ نہ کچھ ظاہر ہوگا اس لیےوہ فنا نہیں ہوگی۔

یہاں ایک نازک نکتہ ہے ۔جتنے بھی اعیان ثابتہ ہیں ان کا ان کے آثار کے زوال سے مراد زوال شہودی ہے نہ کہ وجودی ۔اس کا مطلب یہ ہےکہ ماسوا اللہ کا وجود اللہ تعالیٰ کے عشق کی وجہ سے محسوس نہ ہونا لیکن علما ًان کی موجودگی کا ادراک ہونا زوال شہودی ہےکیونکہ زوال وجودی کے قول کا قائل ہونا الحاد اور زندقہ میں مبتلا کرتا ہے۔یہ اس لیےکہ اگر کوئی وحدت الوجود کا قائل ہو کر ہوش و حواس میں ماسوا اللہ جو اللہ کی صفات کی وجہ سے موجود ہیں ان کی موجودگی کا انکار کر بیٹھے تو یہ بات بہت خطرناک ہے کیونکہ اللہ پاک کی صفات تو موجود ہیں جب اللہ پاک موجود ہے تو اگر کوئی یہ کہہ دے کہ یہ صفات فنا ہو گئیں تو وہ اس کے ساتھ دانستگی یا نادانستگی میں اللہ تعالیٰ کے وجود کا انکاری بھی بن جاۓ گا جو زندقہ ہے ۔ ہاں اگر اس کا قائل ہو کہ اصل میں تو اللہ تعالیٰ کے صفات موجود تو ہیں لیکن انسان کی نظر صرف ذات تک پہنچ کر رک جاۓ اور اس کو اس کی صفات نظر نہیں آئیں تو یہ شہود بن جاتا ہے یعنی اللہ تعالیٰ کے صفات تو موجود ہیں اس پر ایمان ہے لیکن نظر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہوتی ہے۔اس گروہ کے ایک جماعت نے اس سے زوال وجودی تصور کیا ہے اور ممکن کے اثر کے زوال سے اعراض کیا ہے اور اس کو الحاد و زندقہ سمجھ لیا ہے لیکن حق بات وہی ہے جس کو میں نے حق سبحانہ کے اطلاع دینے پر تحقیق کیا ہے۔

حضرتؒ اس پر تعجب فرماتے ہیں کہ زوال وجودی کے قائل لوگوں نے زوال وجودی کے ساتھ عین وجود کا زوال بھی مانا ہے۔

مختصر یہ کہ بے پردہ زوال شہودی محمدی مشرب والوں کا شعار ہے کیونکہ محمدی مشرب والے کُلی طور پر قلب سے نکل کر مقلب قلب یعنی اللہ تعالیٰ تک پہنچ جاتے ہیں ۔ اور ماسوا کا ان پر کوئی اثر نہیں ہوتاجبکہ صفات والے اگر کسی صفت میں فنا بھی ہوجائیں تو جن صفات میں فنا نہیں ہوتے ان کا اثر باقی ہوتا ہے اس لیےان کیفیت شہود روح و نفس کی کشمکش کی وجہ سے بقدر اپنے وجود کے اثر کے پردے میں ہوتی ہے مثلاً کسی کو علم ہے کہ اللہ تعالیٰ رزاق ہے لیکن اس کی نظر اس صفت پر ہو کہ میرا رزق بڑھتا ہی رہے تو بات تو غلط نہیں لیکن اگر اس کی نظر ذات پر ہوگی پھروہ اس چیز کو نہیں دیکھے گا کہ میرا رزق بڑھے وہ صرف اللہ تعالیٰ کی خوشنودی پر نظر رکھے گا۔تو وہ یہ کہے گاکہ اللہ تعالیٰ کی ساری صفات موجود ہیں لیکن میری نظر صرف اللہ تعالیٰ کی ذات پر ہے تو یہ کیفیت شہود ہوگی اور اگر کوئی یہ کہہ دے کہ مجھے رزق اس لیٔےنہیں چاہیے کیونکہ یہ صفت ہی موجود نہیں ہے تو یہ ایک حقیقت سے انکار ہوجاۓ گا جو بہت خطر ناک بات ہے۔

(حضرت با یزید بسطامی ﷬ کو خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوا تو اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ یا اللہ تجھ تک پہنچنے کا آسان راستہ کیا ہے؟ فرمایا» دع نفس و تعال» اپنے نفس کو چھوڑو اور میرے پاس آجاؤ۔) تو جو اپنے نفس سے بالکل نکل گیا وہ اللہ تعالیٰ تک پہنچ گیا۔ اور جو اپنے نفس کے اندر ملوث ہے وہ اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچا۔ لہذا جتنا وہ اپنے نفس کے اندر دھنسا ہوا ہے اُتنا ہی وہ محجوب ہے۔ مطلب یہ ہے کہ محمدی مشرب والےاللہ جل شانہ کے ساتھ تمکین حاصل کر چکے ہوتے ہیں اس لیےغیر حق ان کو اب متاثر نہیں کر سکتا۔ ہمارا نفس بھی غیر حق ہے تو جو بھی اس کی غلامی سے آزاد ہوگیا وہ محفوظ ہے یعنی کوئی قلبی طور پر اللہ کو تب دیکھ سکتا ہے جب وہ اپنے آپ کو فنا کر دے اور جو کوئی بھی اپنے نفس کے اندر ملوث رہا وہ اللہ تعالیٰ تک نہیں پہنچا۔ لہذا جتنا وہ اپنے نفس کے اندر دھنسا ہوا ہے اُتنا وہ پردہ میں ہے۔

ت ت ❖ معرفت ❖

اگر کوئی سالک کسی غیر متعارف طریقے سے اپنے اسم مربی تک پہنچنے کی کوشش کررہا ہو اور اس سے پہلے کہ وہ اُس اسم میں پہنچے ، وہ فانی اور مستہلک ہو جائے تو ایسی حالت میں بھی اس کے لیے فنا فی اللہ کہنا درست ہوگا اور یہی حال اس مرتبہ میں بقا کا بھی ہے۔البتہ وہ فنا فی اللہ کے مرتبوں میں سے پہلے مرتبے میں ہوگا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی اپنے اسم مربی تک پہنچنے کی کو شش کر رہا ہے لیکن اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے ہی وہ فانی ہو جائے تو اُس کو بھی ہم فانی فی اللہ اور باقی باللہ کہہ سکتے ہیں لیکن ایسا چونکہ ابتداء ہی میں ہوا ہے لہٰذا اُسی درجے کا اُس کو فنا اور بقا حاصل ہوا ہے۔ شیون کے بارے میں یہ بات پہلے اسی طرح ہوئی تھی پس اگر روز روز اُس کی یہ کیفیت بڑھتی رہی تو اس کی معرفت اعتباری لحاظ سے بڑھے گی لیکن بہرحال پہلے بھی وہی ہوگی اورآخر میں بھی وہی ہوگی۔ مثلاً ایک آدمی زندہ ہے تو اُس کوجتنی جتنی صحت حاصل ہو رہی ہے تو اُس کی زندگی زیادہ مؤثر ہوتی جاتی ہے۔ لیکن یہ بات ہے کہ اُس کو پہلے بھی زندہ کہہ سکتے ہیں ، آخرمیں بھی زندہ کہہ سکتے ہیں۔ مطلب یہ کہ اُس کی زندگی کے تحقق میں فرق تو نہیں ہوگا۔

ت ت ❖معرفت❖

سلوک کی قسمیں ہوتی ہیں ۔

جن کا سلوک جذب پر مقدم ہے یعنی سالک مجذوب۔

 جن کا جذب سلوک پر مقدم ہوتا ہے یعنی مجذوب سالک ۔

 بعض کو سلوک کی منزلیں طے کرنے کے دوران جذب حاصل ہوجاتا ہے۔

 بعض سلوک کی منزلیں طے کرلیتے ہیں لیکن ان کو جذب حاصل نہیں ہوتا ہے۔

جن کو پہلے جذب حاصل ہوتا ہے وہ محبوبین ہوتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو چُن لیتے ہیں ان کی سلوک کے ذریعے بعد میں تکمیل ہوجاتی ہے ۔ باقی قسمیں محبین سے تعلق رکھتی ہے ۔ جو محبین ہوتے ہیں ان کو راہ سلوک طے کرنے کے لیےدس مشہور مقامات کو ترتیب وتفصیل کے ساتھ طے کرنا ہوتا ہے جبکہ محبوبوں کو سلوک کے ان دس مقامات کا خلاصہ حاصل ہو جاتا ہے۔ اس کی ترتیب و تفصیل کے ساتھ اُن کو کوئی سرو کار نہیں ہوتا۔

جو خالص سلوک طے کررہے ہوتے ہیں یا منتہی حضرات جن کا جذب کے بعد سلوک بھی مکمل ہوچکا ہوتا ہے ان کو توحید وجودی کے ساتھ مناسبت نہیں ہوتی البتہ جذب مقدم اور متوسط اس سے گزرتے ہیںکیونکہ ان کو محبت کے جذبے نے بے ہوش کر دیا ہوتا ہے یعنی وہ سکرمیں مبتلا ہوتے ہیں ۔خالص سلوک کا تو یہ راستہ ہی نہیں ہے وہ اس طرف جائے گا کیوں ۔ اور منتہی حضرات کا جذب کنٹرول میں ہوتا ہے ۔ اس طرح منتہی حضرات کے حق الیقین بھی توحید وجودی سے متعلق علوم سے آزاد ہوتا ہے ۔ منتہی حضرات کے حق الیقین کو سمجھنے کے لیےپہلے یقین کے درجات جاننے چاہیٔں۔ علم الیقین یہ ہےکہ جیسے مثا ل کے طور پر کسی کو ملیریا کا پتہ چلا کہ ملیریا بھی ہوتا ہے اور اس طرح ہوتا ہے کتاب میں پڑھ لیا۔ یہ علم الیقین ہے ملیریا کا ۔ پھراُس کے بعد وہ اگر ڈاکٹر ہے اور اُس نے ملیریا کا مریض دیکھ لیا اور کتاب کے مطابق ملیریا کی ساری نشانیاں نوٹ کر لیں۔ اس کو پتہ چلا کہ ملیریا میں کیا کیا ہوتا ہے ، یہ ملیریا کا عین الیقین ہے اور اگر اُس کو خود ملیریا ہو جائے تو یہ اس کاتیسرا درجہ ہےجو حق الیقین کہلاتاہے۔پس منتہی حضرات کا حق الیقین یوں ہوتا ہے کہ یہ کیفیت ان کو خود نصیب ہوچکی ہوتی ہے ۔ ایک ہوتا ہے علم ہونا اور ایک ہوتا ہے محسوس ہو جانا۔ تو مطلب یہ ہے کہ اُن کو محسوس بھی ہوگیا ہولیکن اُن کو توحید وجودی کے ساتھ کوئی سروکار نہیں ہوتا۔ تو جس جگہ بھی وحدت الوجود والے حضرات کاحق الیقین بیان کیا گیا ہوگاوہ مجذوبان مبتدی یا متوسط کا حق الیقین ہوگا نہ کہ منتہی حضرات کا حق الیقین ، کیونکہ یہ کیفیت صرف ان کو ہی حاصل ہوسکتی ہے۔

ت ت

❖معرفت ❖ بعض مشائخ نے فرمایا ہے کہ جب طالب جذب تک پہنچ جاتا ہے تو پھر جذب ہی اُس کا راہبر بن جاتا ہے اور بس۔ یعنی اُس کو کسی دوسرے راہبر کے توسط کی ضرورت نہیں ہوتی بلکہ وہی جذب ہی اُس کے لئے کافی ہوجاتاہے۔اس کی تین صورتیں ممکن ہیں ،جذب متقدم یا جذب مبتدی، جذب متوسط اور جذب منتہی۔ اب اگر اس جذب سے سیر فی اللہ کا جذب یعنی جذب منتہی مراد ہو تو سیر الی اللہ تو سلوک کی انتہا ہے، وہی کافی ہے ۔ لیکن پھر لفظ راہبر فقرے کے ساتھ جوڑ نہیں کھاتا کیونکہ سیر فی اللہ کے بعد کوئی سیر نہیں ہوتی کہ جس کو طے کرنے کےلئے کسی راہبر کی ضرورت ہو۔ اس سے جذب متقدم جیسا کہ نقشبندی حضرات کو ابتدا میں ہوتا ہے، بھی مراد نہیں ہوسکتا،کیونکہ اسکی دو صورتیں ممکن ہیں پہلی یہ کہ یہ جذبہ متقدم مطلقاً بالاخر سلوک کی طرف لے جائے دوسری صورت یہ ہے کہ نہ لے جائے ۔پس اگر سلوک پر نہیں لا سکا تو تکمیل نہیں ہوگی اس لیے کافی نہیں ہوا اور اگر لایا تو سلوک کے لیےراہبر کی ضرورت ہوتی ہے ۔لہٰذا مجبوراًیہ کہنا پڑے گا کہ اس سے جذبۂ متوسط ہی مراد ہوگا،لیکن اس سے بھی مطلب پورا نہیں ہوتا ۔کیونکہ بہت سے متوسط اس جذب کے وقت مزید ترقی سے رہ جاتے ہیںاور اس کو ہی جذب منتہی سمجھ لیتے ہیں ۔ اگر یہ جذب کافی ہوتا تو اُن کو راستہ میں نہ چھوڑ دیتا اس لیےاس سے متوسط کا معنیٰ لینا بھی مناسب نہیں ۔ ہاں اگرجذبۂ متقدم کا تعلق محبوبوں کے ساتھ ہو اور یہ کافی حاصل ہوجاۓ تو گنجائش ہوسکتی ہے کیونکہ محبوبوں کو محض لطف و کرم سے اپنی طرف کھینچ لیا جاتا ہے اور راستے میں نہیں چھوڑا جاتالیکن یہ تب کہا جاسکے گا جب یہ مجذوب کوبالآخر سلوک کی طرف کھینچے۔ اور اگر اس مجذوب کو سلوک کی طرف نہیں آیا تو یہ مجذوب ابتر اوربے نصیب ہے اور محبوبوں میں سے نہیں ہےکیونکہ شریعت پر آنا ضروری ہے جیسے بھی ہو۔

ت ت

❖خاتمہ ❖

مشائخ کرام قد س سرہ تعالیٰ کے ایک گروہ نے کہا ہے کہ تجلی ذاتی شعور کوزائل کرنے والی یعنی حواس ظاہرہ کو معطل کرنے والی ہے ۔ ان میں سے بعض نے اپنے بارے میں بھی فرمایا کہ وہ اس تجربے سے گزر چکے ہیں کہ اُس تجلی ذاتی کے ظہور کے وقت کافی عرصہ تک بے حس وحرکت پڑے رہے اور لوگوں نے اُن کو مردہ خیا ل کر لیا ۔ بعض دوسرے مشایٔخ نے تجلی ذات میں کلام کرنے اور اُس کے سوا سے منع کیا ہے۔ اس بات کی حقیقت یہ ہے کہ تجلی ذاتی سے بے شعوری ہو بھی سکتی ہے اور بعض کو نہیں بھی ہوتی ہے۔ جن کو ہوتی ہے ،وہ ان کے مکمل فنا فی اللہ نہ ہونے کی علامت ہے کیونکہ جو ذاتِ الٰہی میں مکمل فان ی ہوتا ہے وہ تجلی ذاتی سے بے شعور نہیں ہوتا ۔ اگر صاحبِ تجلی کے وجود کا ا ثر کچھ بھی باقی ہو تو پھرتجلی ذاتی کا وہ تحمل نہیں کرسکے گا۔

یخرق النار من یمس بہا

ومن ہو النار کیف یخرق

جو چھوئے آگ کو وہ تو اسے جلادےگی

جو خود ہی آگ ہو اس کو جلاۓ کیسے آگ

 

پس جو تجلی کسی پردے میں ہوتی ہے وہ تجلی ذاتی نہیں بلکہ تجلی صفاتی ہے۔ کیونکہ جو تجلی ذاتی آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہے، وہ تجلی بے پردہ ہے ۔پردہ کی علامت بے شعوری ہے اور بے شعوری دوری کی وجہ سے ہوتی ہے۔ بے پردگی کی دلیل شعور ہے اور شعور کمال حضور کی شان ہے۔ ایک بزرگ علیہ غفران اللہ تعالیٰ نےاس تجلی(جو اصالت والاستقلال کے ساتھ ہو )کے بارے میں یوں خبر دی ہے ۔

موسیٰ ز ہوش رفت بیک پرتو صفات

تو عین ذات می نہ گری در تبسمی

 

ایک پرتو صفات سےموسیٰ نے کھوئے ہوش

اور آپ عین ذات بھی دیکھیں تو مسکرائے

 

اور یہی تجلی ذاتی محبوبوں کو دائمی طور پر حاصل ہوتی ہے اور محبوں کے لئے برقی کیفیت رکھتی ہے یعنی کبھی ہوتی ہے کبھی نہیں جیسے چمک سی گزر جاۓ۔ کیونکہ محبوبوں کے بدنوں اور جسموں نے اُن کی روحوں کا رنگ اختیار کر لیا ہوتاہے اور وہ نسبت اُن میں کلی طور پر سرایت کر گئی ہوتی ہے جبکہ محبوں میں یہ سرایت کہیں کہیں ہوتی ہے ، ہر کسی کو میسر نہیں ہوتی ۔اس کا مطلب یہ ہے محبوبین کےبدن اور روح ایک جیسے ہو جاتے ہیں لہٰذا روح کی صفات حاصل ہونے کی وجہ سے اُن کو بے پردہ تجلی کا تحمل ہوسکتاہے ۔ اور جو کچھ کہ حدیث نبوی علیہ صلوٰۃ والسلام میں واقع ہوا ہے "لی مع اللہ وقت" مجھ کو اللہ کے ساتھ ایک خاص وقت حاصل ہے ۔ اس حدیث میں وقت سے مراد یہ برقی تجلی نہیں کیونکہ آپﷺ تو تمام مرادوں اور محبوبوں کے بادشاہ ہیں اس لیےآپ کی تجلی دائمی ہے بلکہ اس وقت اس تجلی دائمی سےایک خاص وقت کی خصوصیت مراد ہے جو کبھی کبھی حاصل ہوتی تھی یعنی اُس تجلی کے اندر ایک خاص وقت میں ایک خاص رنگ آتا ہے ۔ تو اس وجہ سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ « لی مع اللہ وقت» وہ ایک خاص قسم کی تجلی ہوتی ہے جو ایک خاص وقت میں ہی آتی ہے ۔

ت ت ❖

مشائخ قد س سرہ تعالیٰ واسرارہم کے اس حدیث «" لی مع اللہ وقت لا یسعونی فیہ ملک مقرب ولا نبی مرسل"( مجھ کو اللہ تعالیٰ کے ساتھ ایک ایسا وقت حاصل ہے جس میں کسی مقرب فرشتہ یا نبی کی گنجائش نہیں) کی وضاحت میں دو گروہ ہیں ۔ ایک گروہ نے وقت سے دائمی وقت مراد لیا ہے یعنی ہر وقت ایسا ہوتا ہے۔ اور دوسرا گروہ اس کے شاذ ونادر ہونےکے قائل ہیں ۔ لیکن صحیح بات یہ ہے کہ دائمی حضوری کے باوجود اس کا شاذ و نادر ہونا بھی ایک طرح سے ممکن ہے جیسا کہ پہلےاس کی طرف اشارہ کیا جا چکا ہے ۔ نادر وقت کی تحقیق نماز ادا کرنے کے وقت میں ہے کہ شائد آپ ﷺ نے حدیث شریف میں" قرۃ عینی فی الصلٰوۃ" «

(میری آنکھ کی ٹھنڈک نماز میں ہے) میں اس طرف اشارہ فرمایا ہو۔ نیز اس طرح آپﷺ نے فرمایا ہے»" اقرب ما یکون عبد من الرب فی الصلٰوۃ" (بندہ کو اپنے رب سے سب سے زیادہ قرب نماز میں ہوتا ہے) اوراللہ پاک فرماتے ہیں "والسجد واقترب"(سجدہ کر اور اس کے ذریعے قربت حاصل کر) لہٰذا ہر اُس وقت میں جبکہ قرب الہٰی جل شانہ زیادہ حاصل ہوتا ہے اُس وقت میں غیر کی گنجائش ہر گز نہیں ہوگی۔ اور جو کچھ بعض مشائخ قدس سرہ تعالیٰ نے فرمایا ہے اور اپنے حال کی قوت کی اور اس کے دائمی ہونے کی اس طرح خبر دی ہے کہ ان کاحال نماز میں بھی ویسے ہی ہوتا ہے جیسا کہ نماز سے قبل ہوتا ہے حالانکہ احادیث مذکورہ اور نص مذکورہ اس قسم کی یکساں کیفیت کی نفی کرتی ہے ۔اس کا مطلب یہ لیا جا سکتا ہے کہ اس کی ہمیشگی میں تو اختلاف نہیں ۔اختلاف صرف اتنی بات میں ہے کہ ہمیشگی کے باوجود ، وہ حالت نادرہ بھی واقع ہوئی ہے یا نہیں؟ ایک جماعت جنہوں نے اس خاص حالت میں خاص کیفیت کو نہیں پایا وہ اس کے نفی کے قائل ہو گئے اور دوسری جماعت جس کو اس مقام سے بہرہ ور کیا گیا اُنہوں نے اس کا اقرار کر لیا۔ اور سچی بات یہ ہے کہ ایسے لوگ جن کو آپ ﷺ کے طفیل نماز میں جمعیت عطا کی گئی ہو یعنی اُس قرب میں سے تھوڑا سا حصہ عطا کیا گیا ہو وہ بہت ہی کم ہیں۔ اس لیےاس نادر وقت کا پتہ کم لوگوں کو ہی چل سکتا تھا۔

ت ت ❖ معرفت ❖

صفات کے منتہی حضرات، علوم ومعارف میں مجذوبوں سے نزدیک ہوتے ہیں ۔ صفات کے منتہی میں دو لفظ پاۓ جاتےہیں یعنی صفات اور منتہی ۔ اگر صفت اور شان کا فرق ذہن میں ہو تو پھربات سمجھ میں آۓ گی کہ جو صفات میں منتہی حضرات ہیں ان کا نفس فنا ہوچکا ہوتا ہے اس لیےان پر نفس کا اثر نہیں ہوتا اور مجذوبوں کی بھی یہی شان ہوتی ہے اور شہود کی دولت بھی دونوں کو ایک طرح حاصل ہوتی ہے ۔ یہ دونوں اربابِ قلوب ہوتے ہیں ۔ البتہ ان میں اتنا فرق ہوتا ہے کہ اربابِ صفات تفصیلات سے زیادہ واقف ہوتے ہیں کیونکہ انہوں نے سلوک تفصیل سے طے کیا ہوتا ہے جبکہ مجذوب تفاصیل سے اتنے مطلع نہیں ہوتے ۔ اُن کو تو ذات میں مشغولی کی وجہ سے صفات کا خلاصہ حاصل ہوجاتا ہے ۔ اسی طرح اربابِ صفات، سلوک اور فوق کی طرف عروج کرنے کی وجہ سے ان مجذوبوں کی نسبت جنہوں نے عروج نہیںحاصل کیا ہوتا ہے، زیادہ قرب رکھتے ہیں ۔ لیکن اصل محبت ان مجذوبوں کو ہوتی ہے اگر چہ کچھ حجاب درمیان میں ہو ۔ کیا عجب ہے کہ "المرء من احب " آدمی اُس کے ساتھ ہے جس کے ساتھ محبت کرتا ہے، کے تحت مجذوبوں میں بھی اصلی قرب و معیت کا اعتبار کیا جائے کیونکہ مجذوبوں کومحبت میں محمدیوں کے ساتھ مناسبت ہوتی ہے اگرچہ محبت ذاتی میں حجابات حائل ہیں لیکن مجذوبوں میں بھی محبت پائی جاتی ہے کیونکہ مجذوب ہوتے ہی محبت کی وجہ سے ہیں۔

ت ت ❖معرفت ❖

اس گروہِ صوفیاء کے بعض لوگوں کی عبارات میں واقع ہے کہ اقطاب کے لئے تجلی صفات ہے اور افراد کے لئے تجلی ذات۔ یہ اولیاء اللہ کی دو قسمیں ہیں ۔ اقطاب قطب کی جمع ہے اور قطب اصل میں وہ ہوتا ہے جسکو انگریزی میں" pole " کہتے ہیں اور اس کے گرد پورا نظام چل رہا ہوتا ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ قطب محمدی مشرب ہوتا ہے اور محمدیوں کے لئے تجلی ذات ہے تو ان کے لیےتجلی صفات کیسے ہوسکتی ہے؟ یاد رہے کہ اعتباری کیفیت ہونے کی وجہ سے اس تجلی ذات میں بھی بہت فرق ہے ۔ وہ قرب جو افراد کو حاصل ہے وہ اقطاب کو نہیں ہے لیکن دونوں کو تجلی ذات سے ہی حصہ ملا ہوتا ہے لیکن حضرتؒ فرماتے ہیں کہ اگر قطب سےمراد قطب ابدال ہے یعنی تکوینی قطب جو کہ اسرافیل علیہ سلام کے قدم پر ہوتا ہے نہ کہ آپ ﷺ کے قدم پر، تو یہ بات درست ہے۔ مطلب یہ ہے قطب ابدال جس کو قطب تکوین بھی کہا جاتا ہے وہ چونکہ ملائکہ کے قدم پر ہوتا ہے جو محمدی مشرب نہیں ہوتا اس لیے اُن کے لئے تجلی ذات نہیں بلکہ تجلی صفات ہوتی ہے۔

ت ت❖معرفت ❖

" انَّ اللہَ خلق آدمَ علیٰ صورتہِ" (بے شک اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ سلام کو اپنی صورت پر پیدا فرمایا )۔اللہ تعالیٰ کے بارے میں کوئی یہ نہیں کہہ سکتا ہے کہ وہ کیسے ہے ، وہ بے مثل و بے کیف ہے ۔ اُس نے آدم علیہ سلام کی روح کو بھی جو آدم علیہ سلام کا خلاصہ ہے ، کو بے مثل اور بے کیف پیدا کیا ۔ لہذا جس طرح کے حق سبحانہ و تعالیٰ لا مکانی ہے اسی طرح روح بھی لا مکانی ہےاور روح کو بدن کے ساتھ وہی نسبت ہے جو حق سبحانہ وتعالیٰ کو عالَم کے ساتھ ہے ۔ کہ نہ عالَمَ میں داخل ہےنہ خارج ۔ نہ متصل ہے نہ منفصل۔ اور قیومیت یعنی تدبیر اور تصرف کی نسبت سے زیادہ اورکوئی نسبت معلوم نہیں ہوتی۔اس طرح روح بھی بدن کے ذرات میں سےہر ذرہ کا قیوم ہےاوراسکو درست رکھنے والی ہے۔ جس طرح اللہ تعالیٰ قیومِ عالَم یعنی مدبرا ور متصرف ہے۔ بدن کے لئے اللہ تعالیٰ کی قیومیت روح کی قیومیت کے واسطے سے ہے ۔ جو فیض بھی اللہ تعالیٰ کی طرف سے بدن پر وارد ہوتا ہے اُس کا محلِ ورود اولاً و ابتداءً روح ہوتاہے، پھرروح کے واسطے سے وہ فیض بدن کو پہنچتا ہے ۔ چونکہ روح بھی بے مثل اور بے کیف ہے تو لازمی طور پر بے مثل اور بے کیف کی اس میں گنجائش ہو گی۔ جیسا کہ اس حدیث شریفہ سے ثابت ہے"لا یسعنی ارضی ولا سمائی ولٰکن یسعنی قلب عبد المؤمن" میری گنجائش نہ میری زمین رکھتی ہے نہ میرا آسمان البتہ میری گنجائش میرے مؤمن بندہ کا قلب ہے۔ کیونکہ آسمان اور زمین اس قدر وسعت اور فراخی کے باوجود مکان کے ساتھ محدود ہے اور بے مثل اور بے کیف نہیں ہے۔ اس لئے کیفیت ،کمیت اور مقدار جیسی نسبتوں سے مقدس اور پاک، لا مکانی کی گنجائش نہیں رکھتے کیونکہ لا مکان، مکانی میں سمانےکی گنجائش نہیں رکھ سکتا اور بے مثل کیلیےمثال نہیں تو لا محالہ عبد مؤمن کے قلب میں بے مثل اور بے کیف لا مکانی کی گنجائش ثابت ہو گئی ۔ ہمارے ایک ساتھی کو خواب میں اللہ تعالیٰ کا دیدار ہوا۔ خواب میں اللہ کا دیدار ہوسکتا ہے تو دیکھا کہ وہاں پر ایک اور نور ہے ۔ اُس نے اللہ تعالیٰ سے پوچھاکہ یا اللہ یہ کونسا نور ہے؟ یعنی آپ کے پاس یہ نورکیسےآگیا۔ تو اللہ پاک نے فرمایاکہ یہ مؤمن کے قلب کا نور ہے ۔ اس لئے ہمارے حضرات فرماتے ہیں کہ جو لطائف ہیں وہ یہاں نہیں ہیں بلکہ ملاء اعلیٰ میں ہیں ۔ یہاں انہیں صرف محسوس کیا جاتاہے یعنی یہ ان کے سینسنگ پوائنٹس "sensing points "ہیں۔مؤمن کے قلب کی خصوصیت اس لیے ہے کہ غیر مؤمن کا قلب لا مکانی کی کیفیت سے ممتاز نہیں ہوتا نیز وہ کیف اور مثل و تعداد و کمیت سے ملوث ہو کر اُسی کا حکم اختیار کر چکا ہوتا ہےجس کی وجہ سے وہ دائرہ مکانی میں داخل ہو کر اس قابلیت کو ضائع کر چکا ہوتا ہے " اُولٰئِکَ کَالاَنعَامِ بَل ھُم اَضَلّ" یہ لوگ چوپایوں کے مانند ہیں بلکہ اس سے بھی زیاد ہ گئےگزرےہیں۔ جن مشائخ نے اپنے وسعتِ قلب کی نسبت خبر دی ہے تو اُن کی مراد قلب کی لا مکانیت ہوگی ۔ کیونکہ مکان خواہ کتنا ہی فراخ اور وسیع ہو پھربھی تنگ ہی ہے۔ عرش اپنی وسعت اور فراخی کے باوجود چونکہ مکانی ہے اس لئے لا مکا نی( روح )کے مقابلے میں رائی کے دانے کا حکم رکھتا ہے بلکہ اس سے بھی کمتر۔ بلکہ ہم کہتے ہیں کہ قلب ، خدا کا گھر بن چکا ہوتا ہے کیونکہ اس کے ساتھ بقا حاصل کر چکا ہے اس لئے عرش اور جو کچھ اس میں ہے اگر اس میں ڈال دئیے جا ئیں تو محو ہو جائیں، اُن کا کوئی اثر باقی نہ رہے جیسا کہ سید الطائفہ حضرت جنید بغدادی﷬ہ نے اس مقام پر فرمایا ہے کہ جب محدث ( فانی )قدیم کے ساتھ مل جائےتو اُس کا کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ یہ ایک ایسا یکتا لباس ہے جو خاص روح کے قد پر سیا گیا ہے ملائکہ کو بھی چونکہ یہ خصوصیت حاصل نہیں ہے کیونکہ وہ بھی دائرہ مکان میں داخل ہیں اور چون سے متصف ہیں اس لئے انسان ہی خلیفۂ رحمان جل شانہ قرار پایا۔

حقیقت میں کسی چیز کی صورت ہی اس کا خلیفہ ہوسکتی ہے جب تک کسی کو اپنے اصل کی صورت پر پیدا نہ کیا گیا ہو وہ اپنے اصل کی خلافت کا اہل نہیں ہوسکتا ۔اور جب تک اصل کی خلافت کے لائق نہ ہو تووہ اصل کی امانت کا بوجھ نہیں اُٹھا سکتا۔" لا یحمل عطایا الملک الا مطایاہ" بادشاہوں کی عطاؤں کو اُس کی سواریاں ہی اٹُھا سکتی ہیں ۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے ۔

" إِنَّا عَرَضْنَا الْأَمانَۃَ عَلَی السَّماواتِ وَ الْأَرْضِ وَ الْجِبالِ فَأَبَیْنَ أَنْ یَحْمِلْنَھا وَ أَشْفَقْنَ مِنْھا وَ حَمَلَھا الْإِنْسانُ إِنَّہُ کانَ ظَلُوماً جَھولاً (سورۃ الاحزاب "

بے شک ہم نے امانت کو آسمانوں ، زمین اور پہاڑوں پر پیش کیا تو اُنہوں نے اس کو اُٹھانے سے انکار کر دیا اور ڈر گئے لیکن انسان نے اُس کو اُٹھا لیا بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔

انسان اپنے نفس پر اس حیثیت سے بہت ظلم کرنے والا ہے کہ اپنے وجود اور توابع وجود کا کوئی اثر باقی نہیں چھوڑتا، بلکہ نیست و نابود کر دیتا ہے ۔ تو جس چیز کو نیست و نابود کر دیا جاتا ہے اس کو ظاہراً اس پر ظلم ہی کہا جاسکتاہے اور زیادہ نادان اور جاہل اس اعتبارسے کہا گیا ہے کہ اس کو اپنے مقصود سے متعلق اور کسی چیزکا ادراک ہی نہیںہوتا ۔ وہ کہتا ہےکہ بس میں تو اپنے محبوب کے علاوہ اور کوئی بات جانتا ہی نہیں ۔ تو باقی لوگ جن کو اُس کےمحبوب کے ساتھ مناسبت نہیں ہوگی تو اس کو تو وہ جاہل ہی کہیں گے ۔اب ذرا اگر تھوڑا سا حدیث شریف پہ غور کریں۔ (اتنا ذکر کرو، اتنا ذکر کرو کہ لوگ تم کو پاگل کہیں )۔ اور اس کو اس آیت کے ساتھ ملا کر پڑھیں گے تو معلوم ہوگا کہ قرآن میں ایسے شخص کو جاہل کن معنوں میں کہا گیا ۔ کیونکہ اگر کوئی اس مقام کو پا چکا ہےکہ اتنا ذکر سکتا ہے تو باقی لوگوں کو چونکہ اس کے ساتھ مناسبت نہیں تو وہ اس کو پاگل ہی کہیں گے ہاں جن کو مناسبت ہو وہ کبھی پاگل نہیں کہیں گے۔ وہ تو اس کو سب سے زیادہ عقل مندکہیں گے۔ حضرت خواجہ نجم الدین کبرٰی ﷬ کے ایک خلیفہ تھے ۔حضرتؒ اُن کے والد صاحب کے پاس حضرت تشریف لاۓ ۔حضرتؒ نےان سے فرمایا کہ اپنے بچوں کو میرے سامنے پیش کریں۔ جب بچوں کو پیش کیا گیا توحضرت ؒ نے کہا کہ اس کے علاوہ اوربھی کوئی ہے؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ایک آوارہ سا ہے وہ کبھی کدھر ہوتا ہے کبھی کدھر ہوتا ہے اُس کو دیکھ کے آپ کیا کریں گے ۔ توحضرت ؒ نےکہا کہ مجھے وہی چاہئے اسے ہی لے آؤ۔جب وہ آگئے تو اُنہوں نے کچھ فارسی کا شعر پڑھا جس کا مطلب تھا کہ میری طرف توجہ فرمائیں تو حضرت نے فرمایا کہ ٹھیک ہے توجہ کر لی ۔یہ حافظ شیرازی ؒ تھے ۔ حضرت تھانوی ﷬ نےایک بیان میں اس واقعے کا ذکر فرمایا ہے ۔ تو بات یہ ہے کہ جو باقی تمام چیزوں سے جاہل ہے سوائے اپنے مقصد کی چیز کے ، وہ لوگوں کی نظروں میں جاہل ہی ہوں گے ۔ تویہاں پر یہ فرمایا کہ جو اپنے نفس پر اس حیثیت سے بہت ظلم کرنے والا ہے کہ اپنے وجود اور توابع وجود کا کوئی اثر وحکم باقی نہیں چھوڑتا اور زیادہ نادان اور جاہل اس اعتبار سے کہا گیا کہ اُس کو اپنے مقصود کا کچھ بھی ادراک نہیں ۔ اور نہ ہی اس کو اتنا علم ہے کہ اپنے مطلوب کے متعلق کچھ معلوم کر سکے،یعنی جو اس کا غیر مطلوب ہے اُس کو اُس سے کوئی سروکار نہیں یعنی اُس کو جاننا نہیں چاہتا اور جس کو جاننا چاہتا ہے اُس کو وہ جان نہیں سکتا۔ اس وجہ سے اس کو جاہل کہا گیا ہے؟ اور اس جہالت کا اعتراف ہی معرفت ہے۔البتہ جس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت زیادہ ہوگی وہ سب سے زیادہ حیرت میں ہوگا ۔

اگر بعض حضرات کی عبارات میں کوئی ایسا لفظ واقع ہو جس سے حق سبحانہ وتعالیٰ کے شان کے بارے میں ظرفیت اور مظروفیت ہونے کا وہم ہوتا ہو تو اس کو میدان عبارت کی تنگی پر محمول کرنا چاہئے اور کلام کے مراد کو علماء اہل سنت کے آراء کے مطابق سمجھنا چاہئے ۔

کیونکہ کیفیات کو اور معارف کو الفاظ میں بیان کرنا ممکن نہیں ہوتا ۔بعض دفعہ ان کے بارے میں بتانا ضروری بھی ہوتا ہے اور پورا بیان کرنا ممکن بھی نہیں ہوتا تو اس لیےاس میں گو کہ معذوری ہے لیکن اس کا ادراک اور اظہار ضروری ہے۔

ت ت ❖

معرفت ❖ عالَم خواہ صغیر ( انسان) ہو یا کبیر (مجموعہ کائنات) یہ سب اسماء و صفات الٰہیہ جل شانہ کے مظاہر ہیں۔ اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے شیون و کمالات ذاتیہ کے آئینے ہیں یعنی جن کے ذریعے سے اللہ تعالیٰ کے شیون اور کمالات کا ظہور ہوتا ہے۔ ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ سبحانہ وتعالیٰ ایک مخفی خزانہ اور پوشیدہ راز تھا اُس نے چاہا کہ اس کے شیون اور کمالات ظاہر ہوجائیں اور اپنے کمالات کی تفصیلات ظاہر فرماۓ تو اُس نے دنیا کو پیدا فرمایا تاکہ اپنے خالق کی پہچان کا ذریعہ بنے اور خلق کی حقیقت واضح ہو جائے ۔ لہٰذادنیا کو اپنے صانعِ بے مثل کے ساتھ اس کے سوا کوئی نسبت نہیں کہ دنیا اُسکی مخلوق ہے اور اُس سے ذات باری تعالیٰ کے پوشیدہ کمالات ظاہر ہوتے ہیں ۔ اور اس نسبت کے علاوہ ہر حکم اتحاد و عینیت ، احاطہ و معیت وغیرہ ، مدہوشی اور عشق کے غلبۂ حال کی اقسام ہیں۔ باہوش کاملین ان کی طرف نہیں جاتے اگر چہ ان میں سے بعض کو راہ سلوک کے دوران ایسے احوال سے گزرنا بھی پڑ جاتا ہے لیکن آخر کار ان سے گزر جاتے ہیں اور علوم شریعت کے مطابق ان پر علوم لدنی وارد ہوتے ہیں ۔ مثلاً ایک نہایت ہوشیار عالِم صاحبِ فنون، جب چاہتا ہے کہ اپنے پوشیدہ کمالات کے خزانےکو برملا ظاہر کرے تو حروف ، اصوات اور آواز سے کام لیتا ہے تاکہ ان حروف و آواز کے پردوں میں ان کمالات کے جلووں کو ظاہر کر کے اپنے فنون کو ظاہر کرے لہٰذا ایسی صورت میں یہ حروف و اصوات اس کے پوشیدہ معنوں کو ظاہر کررہے ہوں گے جو عالِم اپنے ذہن میں رکھتا ہے لیکن اس عالِم موجد کے ساتھ اس کے علاوہ اورکوئی نسبت نہیں کہ یہ عالِم ان کا موجد ہے اور یہ سب اُس کے پوشیدہ کمالات پر دلالت کرنے والے ہیں ۔اس وقت ان حروف و اصوات کو اس عالِم موجد کا عین کہنا یا ان معانی کا جن سے یہ حروف و اصوات بنے ہیں ، عین کہنا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ اور اس طرح احاطہ و معیت کا حکم کرنا بھی اس معاملے میں صحیح نہیں ہوگا ۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ عالِم ان حروف و اصوات کا موجد ہے اور بس ۔جس طرح معنی اور صاحبِ معنی اور حروف اور اصوات کے درمیان دال و مدلول کی نسبت موجود اور متحقق ہے تواس عالِم کے منہ سے جو الفاظ باہر آرہے ہیں ان کا تو لوگوں کو پتا لیکن جو معانی اس عالم کے ذہن میں ہیں ان کا لوگوں کو پتا نہیں ہے۔دوسری بات یہ ہے کہ یہ حروف و اصوات حقیقت ہیں محض اوہام و خیالات نہیں ہیں پس اسی طرح عالَم جو ماسوائے اللہ سے مراد ہے یہ اللہ تعالیٰ کے ارادہ سے وجود میں آیا ہے، وجود ظلی اور کون طبعی کے ساتھ خارج میں موجود ہے ،یہ بھی حقیقت ہے اور اوہام و خیالات نہیں ہیں ۔ اگر کوئی ان کو اوہام خیالات سمجھتا ہوگا تو یہ مذہب بعینہ سو فسطائی مذہب کے مطابق ہوگا جس میں عالَم کو اوہام اور خیالات جانا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ عالَم میں حقیقت کو ثابت کرنا عالَم کو اوہام وخیالات سے نہیں نکالتا اُس صورت میں حقیقت موجود ہو گی نہ کہ عالَم۔ کیونکہ عالَم اس حقیقت مفروضہ کے علاوہ ہے۔

ت ت

❖تنبیہ ❖ عالَم کا اللہ تعالیٰ کےاسماء و صفات کا مظہریت اور مرأتیت ظاہر ہونا اور آئینہ ہونے سے مراد یہ ہے کہ ا ُس سے اللہ تعالیٰ کے ناموں کا اور صفات کا ظہور ہوتاہے۔آئینہ تو ایک ظاہری عکسی صورت دکھا سکتا ہے فی الحقیقت وہ موجود نہیں ہوتا جبکہ عالَم فی الحقیقت موجود ہے جس کا سبب اللہ تعالیٰ کی صفات ہیں ۔ اسم بھی مسمّٰی کی طرح کسی آئینےمیں محدود نہیں ہو سکتا۔ اور صفت بھی اپنے بے مثل موصوف کی طرح کسی مظہر میں مقید نہیں ہو سکتی۔ مثلاً اگر کسی کو رزق مل رہا ہے تو اس سے صفت رازق کا ظہور تو ہورہا ہے رازق ہونا صرف اس خاص رزق پر منحصر نہیں اسی طرح جو رزق دینے کی صفت ہے اس کو بھی ہم کسی رزق کے نظام میں محدود نہیں کرسکتے۔

ت ت

3❖معرفت ❖ تجلی ذاتی ، تجلی صفاتی سے افضل ہے کیونکہ تجلی ذاتی افضل نبی کے لیےمختص ہے لیکن ایک وہ تجلی ذاتی ہے جو خاتم النبئین خودحاصل کرچکے ہیں اور ایک وہ جو ان کے کسی امتی نے آپ ﷺ کے مشرب پر ہونے کی وجہ سے حاصل کی ہے۔ان دو میں بڑا فرق ہے کیونکہ استعدادوں میں اتنا فرق پایا جاتا ہے جو تصور میں نہیں آسکتا۔ دوسری طرف تجلی صفاتی ہے جو غیر افضل ہے لیکن ایک اس سے نبی کا ،جس کی استعداد ظاہر ہے ،حاصل کرنا ہے اور ایک اس سے کسی امتی کا حاصل کرنا ہے ۔پس امتی جو تجلی ذاتی سے لے رہا ہو وہ اتنانہیں ہوسکتا جتنا نبی تجلی صفاتی سے لے گا کیونکہ امتی کے لینے کی استعداد نبی کے مقابلے میں بہت تھوڑی ہے۔ موسیٰ علیہ سلام بے ہوش بھی ہو گئے لیکن اس دور کا بڑے سے بڑا ولی بھی صحابی کے برابر نہیں ہوسکتا ۔ اور بڑے سے بڑا صحابی کسی پیغمبر کے برابر نہیں ہو سکتا۔ یہ الگ بات ہے کہ کسی کو صفات کے ذریعے سے مل رہا ہے اور کسی کو ذات سے مل رہا ہے ۔ مثلاً ایک شخص مدارج طے کرتے کرتے سورج کے قریب پہنچ گیا اور صرف ایک پردہ درمیان میں رہ گیا اور دوسرا آدمی سورج سے بہت دور ہے لیکن سورج اور اُس کے درمیان کوئی پردہ نہیں ،ان دونوں میں کس کو زیادہ قرب ہے ؟ (سمجھانے کے لئے ایک اور مثال بھی دی جاسکتی ہے کہ ایک سورج سے براہ راست استفادہ ہے اور ایک اس کی روشنی سے گرم شدہ چیز سے استفادہ ہے ۔اب اگر کسی کی گرم ہونے کی صلاحیت کم ہو وہ براہ راست روشنی سے کم گرم ہوگا جبکہ دوسرا اس گرم شدہ جسم سے اپنی زیادہ گرم ہونے کی صلاحیت کی وجہ سے زیادہ گرمی لے رہا ہو تو نتیجتاً وہ دوسرا جسم پہلے سے زیادہ گرم ہوگا۔اب نبی کی لینے کی استعداد اور امتی کے لینے کی استعداد کو ذہن میں لایا جاۓ تو سمجھنے میں کوئی مشکل نہیں ہوگا)۔ لہٰذا اس اُمت کے اولیاء میں سے جوکہ "خیر الامم" ہے کوئی ولی اپنے پیغمبر کی افضلیت کے باوجود انبیاء میں سے کسی نبی کے مرتبہ تک نہیں پہنچ سکتا اگر چہ یہ ولی اپنے پیغمبر کی متابعت کی وجہ سے اس مقام سے جس کے ساتھ اس کو افضلیت حاصل ہے ، بہرہ مند بھی ہو چکا ہو۔

(اس سے یہ پتہ چلا کہ ہمیں اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کہ میں محبوب ہوں یا محب ہوں ۔ ہمیں تو اس میں فنا ہونا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ جو تجلی ذاتی میں فنا ہوچکا ہو وہ اس بحث میں پڑے گا کیوں اور تجلی صفاتی والے کو تو بہت ہوشیار ہونے کی ضرورت ہے تو بجاۓ غم میں پڑنے کے وہ ان لوگوں کے پیچھے چلے جو تجلی صفاتی کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے بن چکے ہیں ۔اس پر حضرت نے بات ختم فرمائی ہے تو ہم بھی بات ختم کرتے ہیں)۔

 

لُبِّ لُبَاب

نیت و ہمت کی اہمیت❖ خانہ کعبہ کی زیارت کی مثال سے حضرتۖ نے نیت کی اہمیت بیان کی ہے کہ صحیح چیز کا جاننا بھی ضروری ہے اور اس کے لیےمحنت بھی ہونی چاہیے۔

خوش فہمی سے بچنا ❖ مجذوب حضرات اپنے اندر جب احوال کى تبدىلى محسوس کرتے ہىں تو ان کو اپنے اندر احوال کى تبدىلى سے اس بات کا دھوکہ لگ سکتا ہے کہ وہ اپنے آپ کو محض مجذوب کى بجاۓ مجذوب سالک سمجھىں حالانکہ انہوں نے ابھى سلوک طے نہىں کىا ہوتا تو سلوک طے کىٔے بغىر وہ کىسے مجذوب سالک ہوسکتے ہىں ؟جب تک کوئى مجذوب سلوک طے نہىں کرتا وہ مقام قلب مىں ہوتا ہے جس مىں نفس اور روح دونوں سے متاثر ہوتا ہے۔اىسى حالت مىں اس کا منتہاۓ نظر مقام روح ہے لٖہٰذا اس کا مشہود روح ہوسکتا ہے حق تعالىٰ نہىں ۔اس کے لىٔے اس کو مقام روح تک پہنچنا ہوگا۔

وحدت الشہود اور وحدت الوجود❖ ىہ شہود صرف سمجھانے کے لىٔے ہے ورنہ اللہ تعالىٰ کى ذات وراالورا ہے۔وہ بے مثل اور بے کىف ہے۔عارفىن کے نزدىک قرب و معىت محض علمى کىفىات ہوتى ہىں ۔ان کا حقىقت مىں وجود نہىں ہوتا ۔کہاں مخلوق کہاں خالق ۔چہ نسبت خاک را با عالَم پاک۔بعض اوقات غلبہ حال مىں ،عشق و مستى کى حالت مىں عاشق کو صرف اپنا معشوق ہى نظر آتا ہے باقى کسى اور طرف اس کى نظر جاہى نہىں سکتى ۔اس حالت مىں اگر ماسوا اللہ کا علم بھى نہ رہے تو اس کو وحدت الوجود سکر کے ساتھ کہتے ہىں ۔اس وقت سالک اپنے آپ مىں نہىں ہوتا۔عارفىن ان کو مغلوب الحال سمجھتے ہىں۔ یہ معذور ہوتے ہیں لىکن ىہ ىاد رہے کہ اس قسم کا معذور مقتدا نہىں بن سکتا۔اس حالت سے جب کوئى باہر آتا ہے اور اس کو ماسوا اللہ کا علم بھى ہو لىکن غلبہ عشق کى وجہ سے اس کى نظر صرف اللہ پر ہو تو اس کو وحدت الشہود یا وحدت الوجود بدون سکر کہتے ہىں ۔اس حالت مىں وہ محبوب حقىقى کى محبت سے سرشار ہوکر اس کی مخلوقات کے حقوق کو اس کے لىٔے ادا کرنے کے قابل ہوجاتا ہے۔

مجذوب سالک ❖

حضرت خواجہ نقشبند﷬ نے فرماىا ہے کہ مىں انتہا کو ابتدا ء مىں درج کرتا ہوں ۔اس کا مطلب ىہ ہے کہ پہلے سلوک پہلے طے کراىا جاتا تھا جس کے لىٔے مجاہدہ ضرورى تھا ۔مجاہدہ سے نفس کا تزکىہ ہوتا اور بعد مىں اذکار سے جذب حاصل کرواىا جاتا ۔چونکہ مجاہدہ کے لىٔے بھى وہ لوگ تىار ہوتے ہىں جن کو کچھ جذب حاصل ہو تو جب سالکىن مىں اتنا جذب بھى مفقود ہوگىا کہ مجاہدہ کرسکے تو حضرت خواجہ نقشبن﷬نے جذب کا کسبى طور پر حصول کا راستہ درىافت کرلىا۔

پرانی توجہ کا نیا ادراک❖ روح بدن مىں آنے سے پہلے اللہ تعالىٰ کى طرف متوجہ تھی ۔بدن مىں آکر ىہ بھول گئی اب اگر کسى طرح اس کو اپنا محبوب ىاد دلاىا جاۓ تو وہ توجہ اور انجذاب حاصل ہوسکتا ہے۔مشائخ کی توجہ سے ىہ کىفىت صورتاً حاصل ہوسکتى ہے جبکہ کسب و عمل سے حقىقتاً ،لىکن تھوڑى دىر کے لىٔے، حاصل کى جاسکتی ہے۔ دائمى طور پر صرف ىہ محبوبوں کا حصہ ہے۔

مجذوب متمکن اورمنتہی مرجوع ❖ جىسا کہ بتاىا گىا کہ نقشبندىہ سلسلہ مىں جذب پہلے حاصل کىا جاتا ہے اور سلوک بعد مىں طے کرنا ہوتا ہے۔اگر استعداد ہو تو بعض مجاذیب جو جذب کے ساتھ ہوش و حواس قائم رکھ سکتے ہوں وہ بھى طالبىن کو نفع پہنچا سکتے ہىں لىکن کمال تک نہىں پہنچا سکتے ہىں کىونکہ ىہ خود ابھی راستے مىں ہوتے ہىں ،کمال تک نہىں پہنچے ہوتے ،ان کو مجاذىب متمکن کہا جاسکتا ہے۔ کمال تک صرف منتہى مرجوع پہنچا سکتے ہىں، جو جذب کے بعد سلوک کے ذرىعے اپنے نفس کا تزکىہ کرواکے نزول حاصل کرچکا ہو البتہ ىہ الگ بات ہے کہ عوام مجاذىب متمکن سے زىادہ متاثر ہوتے ہىں کىونکہ ان کو عوام کے ساتھ حقىقى مناسبت ہوتى ہے جبکہ منتہى مرجوع کو صورتاً ہوتى ہے کىونکہ منتہى مرجوع گو عوام کى حالات کو جانتا ہے اور ان کے ساتھ گھلا ملا بھى ہوتا ہے ،لىکن اس کا دل اللہ کے ساتھ ہوتا ہے اور خلوت در انجمن سے سرشار ہوتا ہے۔ دوسرا ىہ کہ مجذوب حضرات توجہ سے بھى کام لىتے ہىں اور مرجوع متمکن توجہ سے کام نہىں لىتے بلکہ تربىت کرتے ہىں ۔مجاذىب جو تمکىن حاصل کرچکے ہوں، ان کو مندرجہ بالا وجوہات کى بنىاد پر پىر تو نہىں بناىا جاسکتا لىکن وہ عوام کو خواص کے ساتھ ملانے کا کام کرسکتے ہىں ۔وہ تعلىم کرسکتے ہىں، تربىت نہىں ۔مجذوب متمکن اپنى توجہ اور صحبت سے وہ توجہ جو روح کو دنىا مىں آنے سے پہلے حاصل تھى ىاد دلاتے ہىں۔ وہ چونکہ کوئى نئى چىز نہىں ہوتى لہٰذا اس کا حاصل کرنا آسان ہوتا ہے ،جبکہ منتہى مرجوع کى صحبت مىں روح کى فنا کے ساتھ جو توجہ حاصل ہوتى ہے وہ کسبى اور نئى چىز ہوتى ہے اس لئے اس کا حصول مشکل ہوتاہے۔

صرف فناۓ نفس سے مقتدا نہیں بنتے ❖ اگر کسى کو فناۓ نفس حاصل بھى ہولىکن ابھى سکر کى حالت مىں ہو تو ىہ ابھى مقتدا نہىں بن سکتا کىونکہ ان کو دوسروں کى مسائل کا دراک ہى نہىں ہوسکتا ۔جىسے کو ئى ڈاکٹر ىا حکىم اىسا ہو جس کو درد محسوس نہ ہو تو وہ کسى کے درد کا علاج نہىں کرسکتا۔اس وقت اس کا نفس روح کے انوار کى وجہ سے بے ہوش ہوتا ہے اس لئے نفس کے خواہشات اس کو تنگ نہىں کرتے لىکن اس حالت عروج مىں دوسروں کى کىفىات کى صحىح آگاہى نہ ہونے کى وجہ سے اصلاح نہىں کرسکتے۔

مشيخیت کے لیےنزول ضروری ہے ❖ ❖ جب سالک مقام قلب میں یہ اترتے ہیں تواس کی برزخییت کی وجہ سے یہ صحو میں آتے ہیں۔اس کو نزول کہتے ہیں اور اس وقت یہ مشیخت کے اہل ہوجاتے ہیں۔ اس کو ہی منتہی مرجوع کہتے ہیں۔یہ شیخ مقتدا بھی کہلاتاہے ۔اس وقت یہ مقام برزخ ىعنى مقام قلب پر متمکن ہوکر روح کے ذرىعے اوپر سے لىتے ہىں اور نفس کى طرف سے نفس کى تربىت کے لىٔے مرىدوں کو دىتے ہىں ۔ىہ شىخ خود تو مقام تنزىہہ مىں ہوتا ہے لىکن نىچے والوں کے لىٔے تشبىہ کا استعمال کرتا ہے۔ىہ مرىدوں کے نفسانى خواہشات کو اچھى طرح سمجھ رہا ہوتا ہے اور خود اللہ تعالىٰ کے ساتھ اتنا تعلق رکھتا ہے کہ ان سے متاثر نہىں ہوتا ۔یہاں ایک بات سمجھنی ضروری ہے کہ جب تک فناۓ نفس حاصل نہ ہو چاہے کتنا ہی جذب اس کو حاصل ہو اس وقت تک شیخ مقتداء بننے کا خیال بھی شرک فی الطریقت ہے ۔جب فناۓ نفس ہوگا تو پھر اس کا خیال بھی نہیں آۓ گا۔اب اگر یہ حالت سکر میں ہے تو پہنچ تو گیا لیکن دوسروں کی اصلاح کے قابل نہیں اور جب حالت صحو میں آگیا تو اب ذمہ داری اس کو دی جاسکتی ہے اس لیےاس کو مخلوق کی طرف لوٹادیاجاتا ہے تو اس وقت اس کو انکار نہیں کرنا چاہیے۔ایک مثال سے یہ بات سمجھ میں آسکتی ہے کہ کوئی اپنے محبوب کے ساتھ بیٹھا ہو اور محبوب کسی کو بازار بھیج دیں تو اگر اس کے دل میں یہ خیال کہ مجھے بھیج دیا جاتا تو اچھا تھا تو ایسا شخص عاشق نہیں اور جس کو بھیجا جارہا ہے وہ اگر صحیح عاشق ہے تو جاۓ گا تو ضرور کہ محبوب کا حکم ہے لیکن اس کا دل بازار میں نہیں لگے گا۔چاہے گا کہ جلدی سے کام اچھی طرح کرکے محبوب کے پاس آجاۓ اس لیٔےاس حالت تک پہنچنے کے لیےفناۓ نفس کا حصول لازمی ہے۔مشائخ کو چاہیے کہ مجذوب متمکن کو دوسروں کی تربیت پر نہ لگائیں۔اگر ان میں استعداد نظر آۓ تو تعلیم کے کام پر لگاسکتے ہیں۔یہ بھی تب جب ان کی اپنی اصلاح اس سے نہ متاثر ہورہی ہو۔

اجازت تزکیہ نفس کے بغیر نہیں❖ کسی کو اگر تزکیہ نفس کے بغیر اجازت دے دی گئی تو اس کا نفس اس کام کو جس کا وہ عادی ہے اس حد تک داعی بنادے گا کہ دوسرے دینی کاموں کی تنقیص اس سے سرزد ہوسکتی ہے یا وہ کسی کے راۓ کے ساتھ جائز اختلاف کو دین کی دشمنی سمجھ کر اس کی مخالفت پر کمر بستہ کردے ۔اس قسم کے اور کام بھی ہوسکتے ہیں جس میں حد اعتدال سے تجاوز کرسکتا ہے۔اس سے بچنے کے لیےنفس کی اصلاح لازمی ہے جس پر قرآن و حدیث میں بہت زور دیا گیا جیسا کہ فرمایا گیا ہے قد افلح من زکّٰھا ۔

سلوک طے کرنے کے لىٔے دس مقامات کو تفصىل سے طے کرنا ہوتا ہے البتہ جو محبوبىن ہوتے ہىں ان کو اس کا خلاصہ حاصل ہوجاتا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی شان اور اس کے صفات❖ اللہ تعالىٰ ہر روز اىک نئى شان کے ساتھ ہوتے ہىں۔اللہ تعالىٰ کى شان سے اس کے صفات وجود مىں آتے ہىں اور صفت کى پہچان اللہ تعالىٰ کى اس کے لىٔے جو نام ہوتا ہے، اس کے ذرىعے ہوتى ہے۔شان اللہ سے جدا نہىں جبکہ صفات کى اپنى الگ حىثىت ہے جىسے کہ معنىٰ کسى کے ذہن مىں ہے اس سے جو الفاظ پىدا ہوۓ اور لوگوں نے سنے ان کى الگ وجود ہے لىکن معنىٰ اس ذات کے ساتھ ہے اس کا الگ وجود ہے ہى نہىں ۔

دو قسم کے فیض ❖ دو قسم کے فیض بندوں کو اللہ تعالیٰ سے ملتے ہیں ۔پہلی قسم کا تعلق تکوینی امور سے ہے جیسے پیدا کرنا مارنا ،صحت بیماری فتح شکست اور اس طرح اور سے۔دوسری قسم کے فیض کا تعلق تشریعی امور سے ہے جیسے ایمان معرفت مراتب ولایت و نبوت کے کمالات اور اس طرح اور سے۔پہلى قسم کا فىض سب کو صفات الٰہى کے ذرىعے حاصل ہوتا ہے ۔جبکہ دوسرے قسم کا فىض محمدى مشرب کے اولىاء کو شىونات جو شىون(شان کى جمع) سے ہے، اس کے ذرىعے اور باقى سارے انبىاء اور اولىاء کو صفات کے ذرىعے ملتا ہے۔

اسم مربی ، شیون و صفات اور ظل❖ جس اسم سے کسی کو اللہ تعالیٰ کا فیض مل رہا ہو وہ اس کا اسم مربی ہوتا ہے۔اللہ تعالیٰ کا وہ نام جو آپ ﷺ کا رب ہے وہ اللہ تعالیٰ کی شان علم کا ظل یعنی سایہ ہےجو کہ تمام اجمالی اور تفصیلی شیون بشمول شان علم کی قابلیت یعنی جس کے ذریعے سارے شان ظاہر ہورہے ہیں، کے لیےہے ۔اللہ تعالیٰ کی ذات تو بے مثل و بے کیف ہے لہٰذا یہ قابلیت جو حق تعالیٰ اور شان علم کے درمیان برزخ ہے بھی شان علم کے رنگ میں مکشوف ہوتا ہے کیونکہ بے رنگ اورکوئی رنگ مل کر وہی رنگ بنتا ہے اس لئے اس کو ظل کہا گیا اور جن چیزوں کا اس سے ظہور ہورہا ہے ان کو بھی ظل کہنا مناسب ہے کیونکہ ظل کا مظہر ظل ہی ہوسکتا ہے۔محمدی مشرب اولیاء کے لیےفیض ثانی کے اسماۓ مربی اس جامع قابلیت کے ظلال ہیں اور اس کے لیےتفصیلات ہیں جبکہ باقی انبیاٖء اور وہ اولیاء جو ان کے مبارک قدموں پر ہیں، کے اسمائے مربی وہ ہیں جو ذات باری تعالیٰ کی صفات کی قابلیتوں سے وجود میں آۓ ہیں ۔آپ ﷺ کے لیےفیض اول کے وصول کا واسطہ اللہ تعالیٰ کی تمام صفات کے ساتھ متصف ہونے کی قابلیت ہے ۔اسی کو بعض مشائخ نے آپ ﷺ کے لیےفیض دوم کا واسطہ بھی مانا ہے لیکن وہ صفات اور شیون کا فرق نہ جاننے کی وجہ سے ہوگا۔ نیز وہ تمام قابلیتیں جو تمام انبیاء﷩ کے لئے فیوض کے حصول کے واسطے ہیں وہ اس جامع قابلیت کے ظلال ہیں اور تفصیلات کی طرح ہیں ۔اس سے یہ بات پایۂ تحقیق تک پہنچ گئی کہ آپ ﷺ کا رب صفات و شیون کا رب الارباب ہے اور کسی کے لئے بھی دونوں فیوض کے حصول کا واسطہ ہے(یہ بات بھی حقیقت محمدیہ کی طرف جارہی ہے)۔اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کو اللہ تعالیٰ سے جو فیض ملتا ہے اس کے مابین کوئی اضافی حکم نہیں آتا کیونکہ شیون عین ذات ہیں اس لئے تجلی ذاتی آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہوگئی اور آپ کے کامل تابعدار چونکہ آپ ﷺ کی راہ سے فیض حاصل کرتے ہیں وہ بھی اس مقام سے بہرہ مند ہوتے ہیں دوسروں کے لئے چونکہ صفاتی واسطے درمیان میں ہیں اور صفات ذات سے مختلف ہیں اس لئے ان کے ل لئے یہ حجاب بن جاتا ہے اور ان کے لئے تجلی صفاتی ہے۔یہ بھی سمجھ میں آسکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات سے متصف ہونے کی جو قابلیت ہے اس کا کوئی علیحدہ وجود نہیں ۔اگر چہ صفات موجود ہیں نہ کہ ان کی قابلیت لیکن قابلیت اللہ جل شانہ اور صفات کے درمیان برزخ ہے اور برزخ کا رنگ دونوں طرف کے رنگ کا مجموعہ ہوتا ہے اس لئے اللہ تعالیٰ کی ذات کی بے رنگی اور اس کے صفات کے رنگ کے مجموعے نے صفات کا رنگ لے لیا اس طرح یہ بھی صفات کی طرح حائل ہوجاتی ہے۔

صفاتی اور شیونی حجابات ❖ اس سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ کے لئے شہودی فیض یعنی فیض ثانی کے لئے تو حجاب ثابت نہیں ہوا لیکن وجودی فیض یعنی فیض اول کے لئے حجاب ہے کیونکہ آپ ﷺ کے لئے بھی فیض اول صفات کے واسطے سے ہےجس کے لئے برزخی طور پر حجاب کی بات گزر گئی۔اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کا بے حجاب ظہور تجلی شہودی کے منافی نہیں بلکہ تجلی وجودی کے منافی ہے اس سے کوئی یہ مراد نہ لے کہ شیون اور ان کی قابلیتیں جب عقل کی اعتبار سے ہیں تو ان کا وجود ذہنی ثابت ہوا ۔یہی وہ چیز ہے جس سے علم حجاب بنتا ہے۔یعنی علم کا حجاب ہونا لازمی قرار پایا تاکہ وجود کی طرف ذہن نہ جائے۔ خلاصہ کلام ىہ ہے کہ صفاتى حجابات خارجى ہىں وہ قائم رہتے ہىں اس مىں کبھى مکمل معرفت نہىں ہوتى اور شىونى حجابات علمى اور کشفى ہىں ان مىں بعض اوقات باقى سارے حجابات اٹھادىٔے جاتے ہىں تو ان مىں جو علمى حجابات ہوتے ہىں وہ بھى بڑے ثقىل لگتے ہىں اس لىٔے بعض دفعہ بغىر علم کے بھى ذات حق کا مشاہدہ کراىا جاتا ہے۔

عود کا خطرہ کس کو؟❖ جس کسى نے کسى صفت کے ساتھ فنا حاصل کىا ہے اس کى فنا کامل نہىں اگر وہ بشرى صفات کى طرف لوٹے گا تو اس کے لىٔے نفس کے شکار ہونے کا خطرہ موجود ہے۔ اور جو کسى شان مىں فنا حاصل کرے اس کى فنا کامل ہے کىونکہ شان ذات کے ساتھ ہے، جدا نہىں۔ تو اس لىٔے کہا جا سکتا ہے کہ وہ ذات مىں فنا ہوگىا۔وہ اگر ذات مىں کامل فانى ہوگىا تو جب اس کو واپس بشرى صفات کى طرف لاىا جاۓ گا تو بشرى صفات اس کو مردود نہىں بناسکىں گی یعنی وہ نفس کا دوبارہ شکار نہیں بنے گا ، بلکہ اس کو دسرے لوگوں کى تربىت کا اہل بنائىں گی۔

ان دونوں صورتوں کى مثال اىسى ہے کہ جىسے کوئى کسى کى کسى صفت پر عاشق ہوجاۓ تو اس کا عشق صرف اس صفت کى وجہ سے ہے تو ىہ اپنے موصوف سے ممکن ہے جدا ہوجاۓ لىکن اگر کسى صفت کى وجہ سے کسى شخص پر عاشق ہوجاۓ تو اب وہ صفت پر نہىں بلکہ اس شخص کى ذات پر عاشق ہے اس کا معاملہ چونکہ اب ذات کے ساتھ ہے۔ تو اس کا عشق کامل ہے متاثر نہىں ہوگا۔ اسى طرح اگر کوئى اپنے اسم مربى مىں فنا حاصل کرے تو وہ اگر محمدى مشرب ہے تو اس کى فنا کامل ہے جبکہ دوسروں کی فنا کامل نہىں ہے۔

صفات مىں تغىر ہوتاہے اور شىون مىں پختگى اورتمکىن ہے۔توجو صفات کے مشاہدہ مىں ہے اس پر کبھى اىک صفت کى تجلى زىادہ ہوتى ہے کبھى دوسرى صفت کا ۔اور شىون مىں بس اللہ تعالىٰ کى ذات کى طرف ہى توجہ ہوگى۔

اللہ تعالیٰ کی معرفت ❖

اللہ تعالىٰ کى معرفت ہرشخص کو اپنے اپنے مقام کے حساب سے ملتا ہے ۔مثلاً پانى کو کوئى اگر گلاس مىں دىکھے تو اس کو پانى گلاس کى طرح نظر آۓ گا اور کوئى گھڑے مىں دىکھے گا تو اس کو پانى کى شکل گھڑے کى طرح نظر آۓ گى لىکن جس کو صحىح علم ہوگا کہ پانى کى کوئى شکل نہىں تو وہ تو سمجھ رہا ہوگا کہ ىہ اس کى اپنى شکل نہىں۔ ىہ مجھے اس لىٔے اىسا نظر آرہا ہے کہ مىں نے اس کى اىسے ہى حد بندى کى ہے کہ گلاس مىں دىکھا ۔اس طرح اللہ تعالىٰ کى کوئى مثال دى ہى نہىں جاسکتى تو جس کو جس طرح کسى چىز ادراک ہوتا ہے تو اسى طرح اس کو وہ نظر آتا ہے۔جىسے اللہ تعالىٰ کا علم اىسا ہےکہ اس کے لىٔے کوئى مث ال نہىں دى جاسکتى تو جو ابتدا مىں اس کو کسى طرح سمجھتا ہے تو ىہ اس کى کم علمى ہوتى ہے کہ وہ اس کو کوئى نام دىتا ہے ىا اس کو کوئى شکل دے دىتا ہے۔جب وہ اس سے آگے بڑھے گا تو پھراس کو اندازہ ہوگا کہ ىہ چىز تو لا محدود ہے اور اس کى کوئى مثال نہىں ۔تواس سے اس کا تحىر بڑھے گا جب اس علم کو لامحدود س مجھے گا اور اس سے اس کا نزول ہوگا اس کا اپنى کم علمى کا احساس بڑھتا رہے گا جس سے اس کے تحىر مىں اضافہ ہوگا۔ىہى اس کے لىٔے معرفت کا راستہ ہے۔

اگر کوئى شخص اللہ تعالىٰ کى محبت مىں فنا ہوکر سواۓ اللہ کے کسى اور چىز کا اثر محسوس نہ کرے تو اگر اس کو اس کا علم بھى نہ رہے کہ اور بھى کوئى چىز ہے تو ىہ سکر کى حالت ہے اس کو وحدت الوجود کہتے ہىں اور اگر اس کو علم ہے کہ باقى چىزوں کا وجود بھى ہےلىکن کسى اور چىز کا اثر محسوس نہىں کررہا تو ىہ وحدت الشہود فنا کے ساتھ ہے۔اگر اس کو باقى چىزوں کا اثر محسوس ہو لىکن اس کى محبت اتنى کامل ہو کہ اب کسى اور چىز کى طرف عقلى طلب کى نگاہ سے نہىں دىکھتا تو ىہ نزول ہے اور مقام بقا ہے۔

اگر کوئى وحدت الوجود کا قائل ہو کر ہوش و حواس مىں اللہ تعالىٰ کے صفات کى موجودگى کا انکار کر بىٹھے تو ىہ بات بہت خطرناک ہے کىونکہ اللہ پاک کى صفات تو موجود ہىں جب اللہ پاک موجود ہے تو اگر کوئى ىہ کہہ دے کہ ىہ صفات فنا ہو گئىں تو وہ وجود کا انکار بن جاۓ گا تو ىہ زندقہ ہے ۔ ہاں اگر اس کا قائل ہو کہ اصل مىں تو اللہ تعالىٰ کے صفات موجود تو ہىں لىکن انسان کى نظر صرف ذات تک اگر پہنچ کر رک جاۓ اور اس کو اس کى صفات نظر نہىں آئىں تو ىہ شہود بن جاتا ہے کہ اللہ تعالىٰ کے صفات تو موجود ہىں اس پر اىمان ہے لىکن نظر صرف اللہ کى ذات پر ہوتى ہے۔

تجلی ذاتی ، تجلی صفاتی اور ان سے بے شعوری ❖ مشائخ کرام قد س سرہ تعالىٰ کے اىک گروہ نے کہا ہے کہ تجلى ذاتى ، شعور کو زائل کرنے والى اور حواس ظاہرہ کو معطل کرنے والى ہے ۔ ان مىں سے بعض نے اپنے بارے مىں بھى فرماىا کہ وہ اس تجربے سے گزر چکے ہىں کہ اُس تجلى ذاتى کے ظہور کے وقت کافى عرصہ تک بے حس وحرکت پڑے رہے اور لوگوں نے اُن کو مردہ خىا ل کر لىا ۔ اس بات کى حقىقت حضرتؒ ىوں بىان فرماتے ہىں کہ تجلى ذاتی سے بے شعورى ہو بھى سکتى ہے اور بعض کو نہىں بھى ہوتى ۔ جن کو ہوتى ہے وہ ان کى مکمل فنا فى اللہ نہ ہونے کى علامت ہے کىونکہ جو ذات الٰہى مىں مکمل فانى ہوتا ہے وہ تجلى ذاتى سے بے شعور نہىں ہوتا ۔ اگر صاحب تجلى کے وجود کااثر کچھ بھى باقى ہو تو وہ پھرتجلى ذاتى کا تحمل نہىں کرسکے گا۔

جو تجلى کسى پردے مىں ہوتى ہے وہ تجلى ذاتى نہىں ہے بلکہ تجلى صفاتى ہے، کىونکہ تجلى ذات، جو آپ ﷺ کے لئے مخصوص ہے وہ تجلى بے پردہ ہے اور پردہ کى علامت بے شعورى ہے اور بے شعورى، دورى کى وجہ سے ہوتی ہے اور بے پردگى کى دلىل شعور ہے اور شعور کمالِ حضور کى شان ہے اور ىہى ْتجلى ذاتى” محبوبوں کو دائمى طور پر حاصل ہوتى ہے اور محبوں کے لئے برقى کىفىت رکھتى ہے ىعنى کبھى ہوتى ہے کبھى نہىں ہوتى ،جىسے چمک سى گزر جاتى ہے۔ کىونکہ محبوبوں کے ابدان و اجسام نے اُن کی ارواح کا رنگ اختىار کر لىا ہوتاہے اور وہ نسبت اُن مىں کلى طور پر سراىت کر گئى ہوتى ہے جبکہ محبوں مىں ىہ سراىت کہىں کہىں ہوتى ہے ، ہر کسى کو مىسر نہىں ہوتى ۔اس کا مطلب ىہ ہے کہ محبوبىن کےبدن اور روح اىک جىسے ہو جاتے ہىں لہٰذا روح کی صفات حاصل ہونے کى وجہ سے اُن کو بے پردہ تجلى حاصل ہو سکتى ہے ۔

“لی مع اللہ وقت” کی تشریح ❖ حضرتؒ فرماتے ہیں کہ اس حدىث مىں خاص وقت سے مراد وہ برقى تجلى نہىں ہے جو محبوں کو حاصل ہوتی ہے بلکہ اس سے اس تجلى دائمى کے اىک خاص وقت کى خصوصىت مراد ہے جو کبھى کبھى حاصل ہوتى تھى۔ کیونکہ آپﷺ تو تمام مرادوں اور محبوبوں کے بادشاہ ہىں اس لىٔے آپﷺ کى تجلى دائمى ہے ىعنى اُس تجلى کے اندر اىک خاص وقت مىں اىک خاص رنگ آتا ہے ۔ تو اس وجہ سے آپ ﷺ نے فرماىا کہ « لى مع اللہ وقت» وہ اىک خاص قسم کى تجلى ہوتى ہے جو اىک خاص وقت مىں آتى ہے ۔

چند اہم باتیں

❖ اصلاح کی جدید ترتیب ❖ حضرتؒ نے نقشبندى سلسلے کے بارے مىں ارشاد فرماىا ہے کہ اس مىں جذب پہلے اور سلوک بعد مىں طے کراتے ہىں جبکہ پہلے سلاسل مىں سلوک پہلے طے کراتے تھے اور جذب سے تکمىل ہوتى تھى۔جذب پہلے طے کرانے مىں اگر اىک طرف آسانى ہے کہ راستہ مختصر ہوجاتا ہے اور جلدى انسان اپنی منزل تک پہنچ سکتا ہے تو دوسرى طرف اس مىں خطرہ بھى ہے جس کى حضرتؒ نے نشاندہى فرمائى ہے کہ مجذوب جب تمکىن حاصل کرلىں تو عىن ممکن ہے کہ وہ وہى رہ جائىں اور خود کو کامل مجذوب سالک سمجھ کر آگے بڑھنے سے رہ جائىں ۔اس وجہ سے اگر دونوں طرىقوں کو ملاىا جاۓ کہ پہلے سلوک اتنا طے کراىا جاۓ کہ جذب پُر خطر نہ رہے، پھرجذب سے عروج کا سفر طے کراۓ اور پھرسلوک سے نزول کراۓ۔اس کى مثال اىسى ہوگى کہ جىسے جہاز پہلے ٹىکسى کرتا ہے، پھراڑتا ہے، پھراتر کر ٹىکسى کرتا ہے اور اپنی منزل پر پہنچ جاتا ہے۔وىسے بھى سارے سلسلے اب اکھٹے ہو ہى رہے ہىں تو ان کو اىک قاعدہ کے ساتھ اگر اکٹھا کىا جاۓ تو زىادہ فائدہ ہوگا۔اس کى صورت کچھ ىوں بنے گى کہ مجاہدات اور اذکار کے ذرىعے پہلے دوسرےسلاسل کا سلوک حسب حال طے کراىا جاۓ، پھرنقشبندى اذکار و مراقبات کے ذرىعے جذب کو حاصل کىا جاۓ اورآخر مىں آج کل کے دور کے مطابق سلوک طے کراکے نزول کرواىا جاۓ۔ہمارے ہاں پہلے ہى اىسا ہورہا ہے۔اللہ تعالىٰ اس کو تمام سالکىن کے لىٔے نافع بناۓ۔

❖ تبلیغی جماعت کی نشاط ثانیہ❖ ہمارى تبلىغى جماعت کى افادىت کے سب اہل حق قائل ہىں ۔بعض حضرات از راہِ خىر خواہى ان کے بارے مىں اىک فکر رکھتے ہىں کہ بعض اوقات ان مىں جان، مال اور وقت لگانے سے جو اىک کىفىتِ جذب پىدا ہوجاتى ہے جس سے بعض باصلاحىت حضرات صحو مىں آکر مجذوب متمکن بن جاتے ہیں اورلوگوں کى تربىت شروع کرلىتے ہىں۔مزید یہ کہ پھر اپنے ساتھىوں کو مشائخ کرام تک بھی نہىں جانے دىتے ۔ ان کى نىت چاہے کتنى ہى اچھى کىوں نہ ہو لىکن ىہ مجذوب متمکن ہوتے ہىں اور کمال تک کسى کو نہىں پہنچا سکتے ۔زىادہ سے زىادہ اپنى طرح مجذوب بنا لىں گے جن سے پھرىہى بات متوقع ہوسکتى ہے جو وہ اب کررہے ہىں ۔اگر جماعت کے اکابرىن کے ساتھ اتنى بات ہوجاۓ کہ وہ واشگاف انداز مىں جماعت کے ذمہ داروں کو تربىت کرنے سے منع کرىں اور وہ ان مشائخ کرام کے نام ان کو بتادىں جن کو تبلىغى جماعت کے ساتھ مناسبت ہے کہ اىسے لوگوں کى تربىت ان سے کروادى جاۓ اور وہ مشائخ ان کا سلوک طے کرواکے منتہى مرجوع تک پہنچانے کى کوشش کرلىں ۔

❖نقشبندی سلسلے میں ذکرِجہری کا تعارف ❖

آج کل جو ذہنى انتشار ہے اس کى وجہ سے مروجہ نقشبندى سلاسل کو اىک پرىشانى لاحق ہے جس کى وجہ سے لطائف کے دور اور مراقبات مىں بڑى مشکل پىش آرہى ہے اس وجہ سے مشائخ اشعار اور توجہ کے ذرىعے سے لطائف جارى کرواتے ہىں ۔ىہ چونکہ انعکاسى فىض ہوتا ہے اس لىٔے زىادہ دىرپا نہىں ہوتا ۔ دو سرى طرف مرىدىن ، پىر کى توجہ کے منتظر ہوتے ہىں اور خود کچھ نہىں کرتے ۔ اس وجہ سے مرىدىن کى ہمتىں جواب دے جاتى ہ ىں اور ان مىں سے اکثر تعطل کے شکار ہوجاتے ہىں ۔ہمارے ہاں ىہ تجربہ بہت کامىاب رہا کہ پہلے ہم چشتىہ سلسلے کى بارہ تسبىح کراتے ہىں جس کے ساتھ ایک تسبیح اسم ذات کی بھی شامل ہے۔ پھراسم ذات م ناس ب تعداد تک بڑھایا جاتا ہے جس کو پھر ذکر خفى سے بدل دیا جاتا ہے۔ اس کے بعد پھرلطائف کا دور شروع کرواتے ہىں اور سلطان الاذکار سے ہوتے ہوۓمزىد مراقبات تک ان کو بڑھادىتے ہىں۔ اس ترتیب سے مراقبات با آسانى شروع ہوجاتے ہىں۔ آگے پھر نقشبندى طرىقے سے سلوک پورا کرواتے ہىں۔اس کى وجہ ىہ ہے ذکر جہرى سے ىکسوئ ى حاصل ہوتى ہے ۔آدمى باہر کے شور سے منقطع ہوجاتا ہے اور خىالات کا سرىان بھى اتنا نہىں ہوتا جس سے ىکسوئى جلدى حاصل ہوجاتى ہے۔ اگر ان کے ساتھ مجاہدات کا سلسلہ بھى مناسب انداز مىں شروع کىا جاۓ تو ہم خود بخود نئے نظام“ سلوک جذب سلوک”کے ساتھ متعارف ہوسکتے ہىں ۔ خواتىن مىں لسانى ذکر کے بعد براہ راست لطائف کا دور شروع کراتے ہىں ۔مجاہدات کے سلسلے مىں اىک تجربہ عرض ہے کہ اىک دفعہ اىک سالک مجھے بہت پرىشانى کی حالت مىں ملا اور بتاىا کہ مىں نے نقشبندى سلوک سارا طے کرلىا لىکن حالت ىہ ہے کہ مىں نے رمضان شرىف مىں کىبل لگوائی ۔مىں بہت گھبراىا کہ اس کو کىا جواب دوں ۔دل سے اللہ تعالٰى سے دعا کى کہ اس کا حسب حال جواب عطا ہو۔دل مىں جوآىا اس سے وہ عرض کىا اور وہ ىہ کہ آپ نےدل کا سلوک طے کىا ہے ،نفس کا نہىں۔اس کے لىٔے اگر تىار ہو تو پھرآجانا۔ ىہ بات مىں نے اپنے دوستوں کو ٹىلىفون پر بتائى انہوں نے خوشگوار حىرت کا اظہار کىا کہ آپ نے تو ہمارے سوال کا جواب دىا ہے کہ آج کل سلوک طے کرنے سے اصلاح کىوں نہىں ہوتى۔ اب ىہ بھى بتائىں کہ طعام اور منام کا مجاہدہ تو متروک ہے تو مجاہدہ کىسے کراىا جائے ؟عرض کىا کہ کبھى کرا ئے ،کبھى نہىں ۔انہوں نے کہا ىہى تو کاکا صاحب ؒ کا مجاہدہ ہے مىں نے عرض کىا کہ پھرتو اس طریقے سےمسٔلہ حل ہوجا ئے گا ۔ان شاء اللہ۔

❖ اکابر کی گستاخی سے اجتناب❖

تىن قسم کے لوگ ہوتے ہىں ،اىک وہ جو نہ تو وحدت الوجود کى کىفىت حاصل کر چکے ہىں اورنہ ہى اس کو جانتے ہىں ۔

دوسرے وہ جو اس کىفىت کو حاصل کر چکے ہىں اور فى الوقت اس کىفىت سے سرشار ہىں۔ان کو سواۓ اللہ تعالیٰ کے کچھ نظر نہىں آرہا ہے اور وہ ہوش مىں نہىں بلکہ سُکر کى کىفىت مىں ہىں۔تىسرے وہ جو اس کىفىت سے آگے ترقى پاکر وحدت الشہود مىں پہنچ گئے ۔ان کو ىقىن ہے کہ ماسوا اللہ بھى موجود ہىں لىکن وہ ان سے متاثر نہىںہوتے۔ان کا کام صرف اللہ تعالىٰ کى ذات کے ساتھ ہے۔اسى مىں وہ فنا ہىں اور اسی کے ساتھ وہ باقى ہىں۔ىہ کىفىت ىقىناً دوسرى سے افضل ہے۔ان حضرات پر اللہ تعالیٰ کی عظمت اتنی کھلی ہوتی اور مخلوق کا اللہ تعالیٰ کے سامنے کچھ نہ ہونا اتنا واضح ہوچکا ہوتا ہے کہ وہ اس سے اثر لینے کا سوچ بھی نہیں سکتے ۔ایک ہے مخلوق کا نظر سے غائب ہونا وہ تو وحدت الوجود ہے اور دوسرا مخلوق کی عجز کا اس حد تک مشاہد ہوناکہ اس کی طرف خود تو ملتفت نہ ہو لیکن جب خالق اس کی طرف ملتفت کرادے تو اس کی طرف اس کے لئے ملتفت ہونا وحدت الشہود ہے۔ اس کىفىت کو ىہ نام حضرت مجدد الف ثانى ؒنے دىا ہے لىکن اس کا مطلب ىہ نہىں کہ وحدت الوجود کى بات کرنے والے بزرگوں کو ىہ اعلىٰ کىفىت حاصل نہىں تھى ۔ىہى کىفىت ان کو بھى حاصل تھى۔فرق ىہ ہے کہ انہوں نے اس کا نام وحدت الشہود نہىں رکھا تھا بلکہ اس کو بغىر سکر کے وحدت الوجود کہتے تھے اور اس دوسرى کىفىت کو وحدت الوجود سکر کے ساتھ کہتے تھے ۔حضرت ؒ نے ىہ نام مجبوراً رکھا تھا کىونکہ جو پہلى قسم کے لوگ تھے انہوں نے دانستگى ىا نادانستگى مىں وحدت الوجود کى کىفىت کو اىک مقام قرار دىا تھا حالانکہ ىہ اىک حال تھا۔ حال مىں اگر مدہوشى مىں کوئى بات خلافِ شرع زبان سے نکلے تو وہ معذور ہوتا ہے،جبکہ مقام عىن شرع کے مطابق ہونا چاہىٔے ۔اس وجہ سے پہلی قسم کےلوگ طرح طرح کی باطل تاوىلوں مىں پڑ گئے جبکہ بعضوں نے تو اس کو وحدت الوجود کے بجاۓ کثرت الوجود بنادىا ۔حضرت ؒ نے ان لوگوں کى غلط تشرىحات اور غلط فہىوں کا علاج اس نئى اصطلاح کے تعارف کے ساتھ کىا جس مىں ان موشگافىوں کا کہىں ذکر ہى نہىں آسکتا اور محفوظ ہے ۔ جس طرح ظاہری شرىعت کے لىٔے حضرتؒ کى کوششىں بارآور ثابت ہوئىں اور دىن اکبرى پاش پاش ہوگىا، اسى طرح وحدت الوجود کی غلط تشرىحات کو وحدت الشہود کے تعارف کے ذرىعے ختم کرکے ، صحىح طرىقت کى بنىادوں کو مضبوط فرماىا ۔ىہ بات اس لىٔے ضرورى تھى کہ اىک طرف حضرتؒ کى ان کوششوں کو صحىح نظر سے دىکھا جاۓ اور دوسرى طرف ان بزرگوں ،جن کا مقام حضرتؒ کى نگاہوں مىں بہت اونچا تھا جىسا کہ حضرتؒ کے مکتوبات سے پتہ چلتا ہے مثلاً شیخ اکبرؒ ،حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیریؒ اور شیخ عبد القدوس گنگوہی ؒ کے مقام کو بھی لاعلمی کی وجہ سے کم نہ سمجھے۔

❖موجودہ حالات میں وحدت الوجود اور وحدت الشہود❖

اس کتاب کے دىکھنے پر اگر اس بات کا احساس ہو کہ وحدت الوجود اور وحدت الشہود جىسی کیفیات ت و اب لوگوں کو نصىب نہىں کىونکہ لوگ آج کل مجاہدات نہىں کرسکتے ۔اس کی وجہ مصروف زندگى ہے۔اس سے اگر کسی کا دل بىٹھنے لگے اور ماىوسى طارى ہونے لگے تو ماىوس نہىں ہونا چاہىٔے ۔مطالبہ صرف تىن چىزوں کا ہے، ىعنى عقاىد کا صحىح ہونا ، اعمال کا صحىح کرنا اور ان مىں جان پىدا کرنا ىعنى کىفىت احسان کے ساتھ کرنا ۔اس کى دلىل حدىث احسان ہے جس کو حدىث جبرىل بھى کہتے ہىں۔ اس مىں آپ ﷺ سے جبرىل علىہ السلام نے انسانى شکل مىں آکر ىہ تىن سوالات کىٔے تھے کہ اىمان کىا ہے ،اسلام کىا ہے اور احسان کىا ہے۔پہلے سو ال کے جواب مىں عقاىد بىان فرماۓ دوسرے سوال کے جواب مىں اعمال بىان فرماۓ اور تىسرے سوال کے جواب مىں ارش اد فرماىا أن تعبد اللہ كأنك تراه فإن لم تكن تراه فإنہ یراك۔ىعنى تو اللہ تعالىٰ کى اىسى عبادت کر جىسا کہ تو اس کو دىکھ رہا ہے۔اس کىفىت کى برکت سے پھر صحىح معنوں مىں تقوىٰ حاصل ہوجاتا ہے ۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کے ساتھ کىفىت احسان بہت اعلىٰ درجے کی حاصل ہوتی ہے کىونکہ اس مىں باقى چىزوں کو موجود جان کر ان پر نظر نہىں ہوتى ۔نظر صرف اللہ پر ہوتى ہے۔ لىکن آج کل جتنا حاصل ہوسکےاس کا حصول تو ضرورى ہے، ىعنى ىہ کہ نفس قابو میں ہو اور دل اللہ کے ساتھ ہو۔بس اتنى کىفىت احسان کافى ہے۔ باقى وحدت الشہود کى کىفىت آج کل بھى ناىاب نہىں کمىاب ہے۔لوگوں کو اپنے اپنے حالات کے مطابق جتنا مناسب ہوتا ہے، مل جاتا ہے ۔مثلاً بعض حضرات حالت سکر مىں اسباب سے بے نىاز ہوجاتے ہىں اور پھر جب وہ حالت صحو مىں آتے ہىں تو اسباب کى قدر کرتے نظر آتے ہىں ۔ اس لىٔے معىار کو کمزور نہىں کرنا چاہىٔے لىکن عملاً اتنا بھى ہو جتنا کہ کم ازکم ضرورى ہےتو ىہ بھى مقام شکر ہے۔

آخر میں وحدت الوجودو وحدت الشہود ، اصلاح نفس کے ساتھ قلب کی اصلاح کی اہمیت پر اور جذب و مجذوب پر چند عارفانہ غزلیں شامل کی گئی ہیں تاکہ اہل ذوق ان سے اپنے ذوق کے مطابق مستفید ہوسکیں ۔ اللہ تعالیٰ کا بہت شکر ہے کہ اس ناچیز سے حضرت مجدد الف ثانی ؒ کے انتہائی اہم مکتوب کی تشریح کا کام لے لیا ۔اللہ تعالیٰ اس کو ہم سب کے لیٔےٰ نافع بنادے اور حضرت مجدد صاحب ؒ کے مکتوبات سے آج کل جتنا اخذ کیا جاسکتا ہے اس کو اخذ کرنے کی توفیق عطا فرما کر اعلیٰ درجے کی قبولیت سے ہمیں نوازے۔

فالحمد للہ علیٰ ذالک کثیراً کثیراً۔

سید شبیر احمد کاکا خیل

خادم خانقاہ امدادیہ، راولپنڈی

وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی حقیقت

نفس کی کشش سے نکلنا مشکل، دل میں دنیا کی محبت مصیبت

ان کا درست کرنا ضروری ہے بہت ،کہ بدون اس کی ہر حرکت مصیبت

پر ہو کیسے یہ؟ اس پہ سوچنا ہے ، رہنمائی بھی اس میں چاہیئے ہے

جو کہے شیخ اس کو کرنا ہے، پر نتیجے میں بھی عجلت مصیبت

حال سے حال دل کا بنتا ہے، حال سے راہ مقام کا نکلے

حال ہی جال نفس کے توڑے ، ختم نہ ہو بدوں ہمت مصیبت

تار کھینچنے کے نفس کے کثرت سے ہیں ،تب تو وحدت حجاب ان کا ہو

پر وجود سے شہود تلک سفر ہو، صرف نہیں یہ کہ ہے کثرت مصیبت

واسطے اک کےہو سب کو بھول جانا، یہ ہے اک حال وحدت الوجود کا

اُس اک کے واسطے سب کا خیال رکھنا، خیر ہے، نہیں یہ کیفیت مصیبت

کیفیت ہو یہ ، وحدت الوجود کے سکر سے جب کوئی آئے صحو میں

پھر اسے کہنا وحدت الشہود ہے، ہاں، مگر اس سے ہے رجعت مصیبت

تب کیفیت بنے احسان کی صحیح، پھر عبادت ہو محض اس کے واسطے

جینا مرنا بھی اس کے واسطے ہو، نظر آئے اس سے غفلت مصیبت

عشق و ہمت و رہنمائی سے، سارا ڈھانچہ شبیر! ہو اس کا تیار

حال کو حال رہنے دو، اس کا بنانا فلسفہ ،جرأت مصیبت

اصلاحِ نفس وقلب

 

تقاضے نفس کے ہیں موجود ہم میں دل میں اللہ کی محبت بھی ہے

اس محبت پہ ہیں دبیزپردے کیونکہ نفس کی مخالفت بھی ہے

جیسے ہی ہم کوئی بات ایسی سنیں جس میں ہونفس کی کچھ خوراک موجود

نفس کے جذبات بھپر جاتے ہیں چاہئیے اس پہ کچھ محنت بھی ہے

جس وقت ذکر کوئی ایسی کرے جو جگادے اس محبت کو دل میں

جاگ اٹھے اس سے محبت دل میں اس کی سیکھنے کی ضرورت بھی ہے

یہ ذکر بار بار کرنا ہے تاکہ دل میں پہہنچ جاۓ روشنی

چند بار کرنے سے نہیں ہوتا لازم اس پر استقامت بھی ہے

یا کسی کی ہو توجہ حاصل، جس سے وہ پھاڑدے پردے دل کے

پھر رکھے زندہ اس کو ذکر سے تو لازم اس کے لیےہمت بھی ہے

نفس کومارے مجاہدے سے کوئی، پھر تو تھوڑا سا ذکر بھی کافی ہو

ایسا آسان نہیں اُس کے واسطے لازم اس نفس کی تربیت بھی ہے

یا پھر کثرت سے ذکر کرنے سے مراقبات و توجہ سے اپنا

دل بنا دے قلب سلیم بالیقین جس سے بڑھتی روحانیت بھی ہے

اس سے نصیب عقل ایمانی ہو اور نفس ہو تیار مجاہدے واسطے

جس سے حاصل ہو تزکیہ نفس کا جس پہ فلاح کی بشارت بھی ہے

نفس مطمٔن قلب ہو سلیم جس کا، یہ تو شبیر! ہے نُورٌ عَلٰى نُور

پھر دو جہاں کی یقیناً پنہاں اس میں سمجھو کہ سعادت بھی ہے

معرفت الٰہی

کعبہ کی زیارت کے لیے کوئی گر چلے

لیکن اسے معلوم نہ ہو کعبہ ہےکیسے

 

وہ دیکھے کسی اور عمارت کو رستے میں

تو اس کو ہی غلطی سے اگر کعبہ وہ سمجھے

خوش ہو کےکہ کعبہ ہے یہی گھر تو اس کے بعد

کعبہ کی شوق میں ہی وہاں پر اگر رکے

 

محروم ہے کعبے سے پر پتہ نہیں اس کو

وہ بھی رہے محروم جو اعتبار اس پہ کرے

 

دوسرا کوئی کعبے کا گو عازم نہیں ہوا

کعبہ ہے کیسے اس کو ہے معلوم یہ کسی سے

 

یہ دوسرا پہلے سے ہے بہتر نہیں گمراہ

تب رب کو ہیں محبوب یہ سارے علمی سلسلے

 

تیسرے کو ہے معلوم چلے کعبہ کی جانب

رستے میں گوتاحال وہاں تک نہیں پہنچے

 

دوسرے سے یہ بہتر ہے پہنچ جاۓ گا کبھی

اس علم کے گر ساتھ برابر چلتا رہے

 

اور ایک جو جانتا بھی ہے کعبہ اچھی طرح

چل چل کے جوکعبے کا وہ واصل بھی ہوا ہے

 

یہ سب سے ہے بہتر اسے مراد ہے حاصل

اور اس کو بھی جو اس کے پیچھے پیچھے ہو چلے

 

کوئی بھی طلبگار معرفت کا اگر ہو

رستے کا پتہ ہوتو وہ گمراہی سے بچے

 

گمراہ عمل کا جو ہے اس سے رہے بہتر

عالِم جو معرفت کا صحیح راستہ جانے

عالِم اگر اس راہ کا عازم ہوا کبھی

بہتر ہے اس عالِم سے جو اس راہ نہ چلے

 

پہنچا ہوا منزل پہ اسی راہ کا ہے عارف

وہ راہ طریقت کے برکات خوب پاۓ

جذب و سلوک

سفر عشق پہ تنہا نہ جاؤ

کسی چکر میں کہیں آنہ جاؤ

 

عشق میں زور ہے رکتا نہیں ہے

ہڈی پسلی کہیں تڑوا نہ جاؤ

 

اس میں کہیں رہنمائی کے بغیر

غلطیوںمیں خود کو پھنسا نہ جاؤ

 

اپنے چادر کو ذرا دیکھ لینا

اس سے زیادہ پاؤں پھیلا نہ جاؤ

 

سوجھ بوجھ اتنا ضروری ہے اس میں

کسی بہروپ سے دھوکہ کھا نہ جاؤ

 

سلوک شبیر ہے لازم جب تلک

جذب کی کشتی اس پہ تیرا نہ جاؤ

ایک اہم اعلان

الحمد للہ ہماری خانقاہ میں منگل کو عارفانہ کلام پڑھا جاتا ہے، بدھ کو حضرت مجدد صاحبؒ کے مکتوبات شریف کی تعلیم ہوتی ہے ،جمعرات کو دینی مدارس کے اساتذہ اور طلبہ کے لیےتصوف سے متعلق خصوصی درس ہوتا ہے اور ہفتہ کومثنوی شریف کا درس ہوتا ہے۔پیر اور اتوار کو مختلف جگہوں پر بیان ہوتے ہیں ۔یہ دروس tazkia.org پر براہ راست نشر بھی ہوتے ہیں اور نشر ہونے کے فوراً بعد ان کو upload بھی کیا جاتا ہے۔

live ، بیان سننے کے لیےلنک ہے۔

http://tazkia.org/ur/bayanat/audio/live-and-recent-bayanat