Bayanat (Lectures) - بیانات

بیانات

حضرت شیخ سید شبیر احمد صاحب کاکا خیل دامت برکاتہم

ذکر اللہ کی فضیلت و اہمیت

اَلْحَمْدُ ِﷲِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنِ۔اَلصَّلوٰۃُ وَ السَّلاَم ُ عَلیٰ خَاتَمَ النَّبِیینِ۔اَمَّا بَعْدُ فَاَعُوذُ بِاﷲِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ﴿﴾ بِسْمِ اﷲالرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ﴿﴾ فَاذْكُرُوۡنِیۡۤ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَكْفُرُوۡنِ ﴿۱۵۲﴾

بزرگو اور دوستو!

اللہ جل شانہ ہم پر بہت مہربان ہیں ، اور اس کی مہربانی کا صدقہ ہے کہ اس نے ہماری ضرورت کی تمام چیزوں کو بہت زیادہ مہیا فرمایا ہے۔ جس چیز کی ہمیں سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ سب سے زیادہ ہے، اور جس چیز کی ضرورت کم ہے وہ کم ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ جل شانہ ہمیں نوازنا چاہتے ہیں۔ ہمیں عطا فرمانا چاہتے ہیں اور یہ بھی معلوم ہوا کہ:

زیادہ ضروری چیز زیادہ عام ہوتی ہے۔

یہ قانون دنیاوی چیزوں میں بھی ہے اور آخرت کی چیزوں میں بھی ہے۔ دنیاوی چیزوں میں یہ قانون اس طرح دیکھا جاسکتا ہے کہ ہمیں جس چیز کی سب سے زیادہ ضرورت ہے وہ ہوا ہے۔ ہوا کے بغیر ہم چند لمحے بھی زندہ نہیں رہ سکتے۔ تو اللہ جل شانہ نے ہوا کو بہت عام فرما دیا اس پر کسی کا کچھ خرچ نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی شخص اس کو کسی جگہ سے نکالنا بھی چاہے تو اس کا نکالنا مشکل ہے ، اس کا لانا مشکل نہیں ہے۔ اس کے بعد جس چیز کی بہت زیادہ ضرورت ہے وہ پانی ہے۔ اب دیکھ لیں اس وقت اوپر سے پانی برس رہا ہے (بیان کے وقت بارش ہورہی تھی ) کتنا برس رہا ہے ، کوئی حد و حساب نہیں ،پتہ نہیں کتنے بڑے علاقے پر برس رہا ہے۔ اگرخشکی اور پانی کا موازنہ کیا جائے تو خشکی کی مقدار کم ہے اور پانی کی مقدار زیادہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پانی کے نظام کا اللہ تعالیٰ نے ایک سلسلہ بنایا ہوا ہے، سمندر سے پانی بخارات بن کر اڑتا ہے، بادل بن کر چھا جاتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ کی رحمت بن کر برس پڑتا ہے۔ پھر ہم لوگ اس کو استعمال کرتے ہیں اور بہتے بہتے پھر سمندروں میں چلا جاتا ہے۔ پھر وہاں سے دوبارہ اٹھا دیا جاتاہے اور اس طرح یہ نظام چلتا رہتا ہے۔ درختوں کے ساتھ اپنے تعلق کو دیکھیں۔درخت جس چیز کو کھاتی ہے وہ ہمارا فضلہ ہے ، اور جو ہم کھاتے ہیں وہ درختوں کافضلہ ہے۔ اللہ جل شانہ نے درختوں کو ہمارے لئے بنایا ہے اور ہمیں درختوں کے لئے ذریعہ بنا دیا ، اس کے بعد غلے کا نمبر آتا ہے ، اگر آپ موازنہ کریں تو غلہ باقی چیزوں کے مقابلے میں زیادہ پیدا ہوتا ہے۔ جیسے چاول ، گندم ، مکئی اور دوسری چیزیں۔ مطلب یہ ہے کہ پیٹ بھرنے کے لئے اللہ پاک وافر مقدار میں غلہ پیدا فرماتے ہیں ، لہٰذا مہنگا ضرور ہے لیکن باقی چیزوں کے مقابلے میں سستا ہے۔ اگر باقی چیزوں کی طرح یہ بھی مہنگا ہوتا تو شاید لوگ بھوکے مر جاتے۔الغرض جس طرح اللہ پاک نے جسمانی نظام کو قائم رکھنے کے لئے یہ سلسلہ بنایا ہواہے اس طرح روحانی نظام کے لئے جو سب سے زیادہ ِضروری چیز ہے اس کوبھی بہت عام فرمایا ہے۔ اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔ اور وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔

اللہ تعالیٰ کا ذکر کتنا ضروری ہے؟

اس کی اہمیت کاتو اندازہ آپ اس سے لگا لیں کہ آپ ﷺ کا مبارک ارشادہے کہ جو ذکر کرنے والے اور جو نہیں کرنے والا ہے۔ اس کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے۔ یعنی ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے۔ ذاکر آدمی زندہ ہوتا ہے۔ اور جو ذاکر نہیں وہ مردہ ہے۔ اس سے اندازہ کرلیں کہ اللہ جل شانہ نے اس کو ہماری روحانی حیات کے لئے کتنا ضروری قرار دیا۔ پھر اللہ پاک نے اس پر کوئی پابندی بھی نہیں لگائی ، وضو کی پابندی نہیں لگائی ، صرف ایک پابندی لگائی کہ گندی جگہ پر نہ کرو باقی ہر طرح سے اللہ پاک کا نام لیا جاسکتا ہے۔ لیٹے ، کھڑے بیٹھے ہر طرح سے کیا جاسکتا ہے بلکہ عقلمندوں کی جو نشانی بتائی گئی ہے وہ یہ کہ بے شک کائنات کے اندر اوررات دن کا جو الٹ پھیر ہے اس میں عقلمندوں کے لئے بڑی نشانیاں ہیں ، پھر اللہ پاک نے عقلمندوں کی تعریف خود فرمائی کہ عقلمند کون لوگ ہیں ، تو فرمایا کہ عقلمند وہ لوگ ہیں جو کھڑے ، بیٹھے ، لیٹے ہر حالت میں اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے ہیں ، اور کائنات کی پیدائش میں اور جو کچھ اس میں ہے اس پر غور و فکر کرتے ہیں اور ان کے دل سے بے ساختہ یہ بات بلند ہوتی ہے۔ کہ اے اللہ تو نے ان سب چیزوں کو بے فائدہ پیدا نہیں کیا ، پس ہمارے اوپر بھی فضل فرمادیں اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات فرمادے۔ تو عقلمندوں کی نشانی یہ بتائی گئی ہے۔ ذکر کے بارے میں فرمایا ، کہ اللہ تعالیٰ کا ذکر خوب کثرت سے کرو اور صبح شام اللہ تعالیٰ کی تسبیح بیان کرو۔ ساتھ میں یہ بھی فرمایا ، سبحان اللہ کیا عجیب شان ہے ذکر کی ، اللہ پاک فرماتے ہیں ، کہ اگر تم اللہ کو مجلس میں یاد کرو گے ، تو اللہ تعالیٰ اس مجلس سے بہتر مجلس یعنی فرشتوں کی مجلس میں تمہیں یاد کرلیں گے۔ اور یہ بھی فرمایا کہ اگر تم اللہ پاک کو دل میں یاد کرو گے تو اللہ تعالیٰ اپنے آپ کے ساتھ تمہیں یاد کرلیں گے۔ یہ تو حدیث شریف ہے اس کے بارے میں بعض لوگوں کے ذہن میں ہوگا کہ پتہ نہیں ضعیف ہے ، کمزور ہے۔ اس قسم کی باتیں آج کل بہت سننے کو ملتی ہیں۔ لیکن قُران پاک کو تو کوئی ضعیف نہیں کہہ سکتا۔ قُران پاک میں ہے۔

فَاذْكُرُوۡنِیۡۤ اَذْكُرْكُمْ وَاشْكُرُوۡا لِیۡ وَلَا تَكْفُرُوۡنِ"

پس تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد رکھوں گا۔ اب اس کو کون ضعیف کہے گا۔ بات بالکل وہی ہے ، وہ حدیث شریف اس آیت کی تشریح ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ جل شانہ اپنے یاد کرنے والوں کو یاد رکھتے ہیں۔ اس میں کوئی دوسری بات نہیں۔ ہاں اس کی تشریح پھر علماء کرام نے مختلف انداز میں کی ہے۔ ایک تو اس حدیث شریف کی روشنی میں تشریح کی کہ اللہ پاک وہاں فرشتوں کی مجلس میں یاد فرماتے ہیں اور اپنے آپ کے ساتھ یاد رکھتے ہیں۔ ایک تشریح یہ ہے کہ اللہ پاک کا یاد کرنا اور یاد رکھنا یہ ہے ، کہ اس کو مخلوق سے یاد کروا دیتے ہیں۔

ذاکرین کولوگ بھی نہیں بھولتے

یہ آپ حضرات نے بھی دیکھا ہوگا کہ جو ذاکرین ہیں لوگ ان کو نہیں بھولتے۔ خواجہ معین الدین چشتی اجمیری(رحمۃ اللہ علیہ)، پتہ نہیں کب تشریف لے گئے ہیں اس دنیا سے ، لیکن کیا لوگ ان کو بھول گئے ہیں؟ اسی طرح حضرت شیخ عبداالقادر جیلانی(رحمۃ اللہ علیہ)، حضرت مجدد الف ثانی(رحمۃ اللہ علیہ) ، حضرت امام غزالی(رحمۃ اللہ علیہ) الغرض ذکر کی لائن سے جو بھی وابستہ ہیں ان کو لوگ بھولے نہیں۔ اللہ جل شانہ ان کو یاد رکھواتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو ذکراللہ ہے یہ خیر کا خزانہ ہے اور ہر طرح کے خیر کا خزانہ ہے۔ اس میں آدمی جتنا چاہے آگے جاسکتا ہے۔مگر کیسے؟ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہمیں ایک مستند ذریعے سے پیغام دیا ہے ، یعنی آپﷺ کے ذریعے سے ، کہ اپنی امت سے کہہ دیں کہ جنت ایک چٹیل میدان ہے ، اگر تم چاہتے ہو کہ اس میں درخت لگ جائیں تو ذکر کرو ، یہ جنت کے درخت ہیں۔

سبحان اللہ
کہنے سے درخت لگتاہے ،
الحمد اللہ
کہنے سے درخت لگتا ہے۔
لا الہ الا اللہ
کہنے سے درخت لگتا ہے۔
اللہ اکبر
کہنے سے درخت لگتا ہے۔

یعنی ذکر اللہ کی کثرت سے جنت کے درجات بلند ہوتے رہتے ہیں۔ اسی وجہ سے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تم نرم نرم بستروں پر ذکر کرنے والوں کو ذکر سے نہ روکو۔ بعض لوگ مالدار ہوتے ہیں ،اللہ نے ان کو مال دیا ہوتا ہے ، اب جن کو مالدار پیدا کیا ہے تو ظاہر ہے ان کے پاس صوفہ سیٹ بھی ہونگے ، اچھے اچھے بیڈ بھی ہونگے ، قالین بھی ہونگے یہ ساری چیزیں ہونگی۔ لیکن اگر وہ اللہ کو نہیں بھولتے ، اللہ کو یاد رکھتے ہیں تو یہ چیزیں ما شاء اللہ ان کے لئے خیر کا ذریعہ بن رہی ہیں۔ مثلاًایک شخص ہے وہ شاکر ہے۔ اللہ پاک نے اس کو گاڑی دی ہے۔ گاڑی میں بیٹھتا ہے تو کہتا ہے اے اللہ تیرا بڑا شکر تو نے میرے لئے بڑی آسانی پیدا فرمائی ہے ، تو بیٹھتے ہی اس نے کما لیا۔ اگر کوئی اس کی عزت کرتا ہے توکہتا ہے اے اللہ تیرا بڑا شکر کہ تو نے مجھے عزت دی ہے ، یہ کہنے پر اس کا کام بن گیا۔ کھانا کھاتا ہے تو کہتا ہے الحمد اللہ ، کھانا بھی اس کا ذکر بن گیا۔ پانی پیتا ہے تب بھی الحمد اللہ ، وہی پانی پینا اس کے لئے ذکر بن گیا۔ بازار میں پھرتا ہے، چوتھا کلمہ پڑھ لیتا ہے۔ تیس لاکھ نیکیاں اس کو مل گئیں ، اس کے لئے بازار جانا خیر کا ذریعہ بن گیا۔ اگر مشکل وقت آگیا تو

انا للہ وانا الہ راجعون

پڑھا تو یہ ذریعہ بن گیا۔ خوشی کا وقت آگیا ، اللہ کا شکر ادا کیا ، یہ بھی ذریعہ بن گیا۔ ہر حال میں مسلمان کی جیت ہی جیت ہے اگر وہ اللہ تعالیٰ کو یاد رکھتا ہے۔ زبان ایک چھوٹا سا عضو ہے۔ اس کو ہلانے میں کوئی زبردستی نہیں ، کوئی پریشانی یا تکلیف نہیں ہوتی ، لیکن آپ کو یہ ہر وقت فائدہ پہنچا سکتا ہے۔ ذکر کرنے کی عادت آپ کو ہر وقت فائدہ پہنچا سکتی ہے۔ آپ کے پاس کسی چیز کی کمی نہیں ہے آپ اپنے درجات خود بلند کرواسکتے ہیں ، اپنے گناہ معاف کرو ا نے ہیں تو استغفار پڑھیں۔ اللہ تعالیٰ کی رحمتوں کو اپنے طرف متوجہ کرانا ہے تو درود شریف پڑھیں۔ اللہ جل شانہ کی رحمت کی نگاہ اپنی طرف متوجہ کرانا ہے ، تو قُران پاک کی تلاوت کریں ، مطلب یہ ہے کہ ہر ہر حالت میں آپ کما سکتے ہیں۔ یہ زندگی آپ کو اللہ پاک نے کمانے کیلئے دی ہے۔ لیکن اس کی قدر بھی تو کیجئے۔ قدر کرنے سے کام بنتا ہے۔ یہ ذکر ہمارے دلوں کے اندر اتر جائے تاکہ ہم ہر موقع پر ذکر کرسکیں۔ جوباتیں میں اس وقت کررہا ہوں یہ معلومات کی حد تک ہیں ، ہوسکتا ہے آپ میں سے بہت سارے لوگوں نے یہ باتیں پہلی بھی سنی ہوں۔تو وجہ کیا ہے ، وقت پر ذکر کیوں یاد نہیں رہتا؟ وقت پر انسان کی زبان سے بے صبری کے الفاظ کیوں نکلتے ہیں، ناشکری کے کلمات کیوں نکلتے ہیں ، موقع پر انسان سے لایعنی گفتگو کیوں ہوتی ہے۔ وقت پر انسان کو ذکر کیوں یاد نہیں آتا۔، و اقعی مسئلہ ہے۔لیکن وہ مسئلہ کیا ہے۔ وہ مسئلہ یہ ہے کہ دل بیمار ہے۔ بیمار دل میں خدا کہاں آتا ہے۔ اس کے لئے انسان کو ایک اور محنت کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ علمی باتیں ہیں ان علمی باتوں پر انسان کو یقین آجائے ،اس پر عمل ہو جائے ، اس پر دوام آجائے ، اس کے اندر ایک اخلاص آجائے اور پھر وہ اخلاص قبول ہوجائے۔ تو سبحان اللہ ، پھر بات بنے گی۔ ہم نے ان لوگوں کو دیکھا ہے جنہوں نے وقت کی قدر کی ہے۔ ایک دفعہ میں ایک عالم صاحب کے ساتھ سفر کر رہا تھا۔ ہم گاڑی میں بیٹھے آپس میں باتیں کررہے تھے اور الحمد اللہ ساری باتیں دین کے متعلق تھیں۔ اچانک حضرت نے تسبیح نکالی اور فرمایا ، بہت باتیں کیں ، چلو اب کچھ کام کرلیتے ہیں۔ آپ تھوڑا سا غور کرلیں یہ کتنا پیارا کلمہ ہے۔ فرمایا بہت باتیں کیں چلو تھوڑا سا کام کرلیتے ہیں۔ آج ذکر کرنے والوں کو لوگ کام کرنے والا سمجھتے ہیں؟ صاف بات کرتا ہوں، نہیں۔ لوگ ان کو کام کرنے والا نہیں سمجھتے۔ حالانکہ وہ تو فرما رہے تھے کہ بہت باتیں کیں چلو اب کچھ کام کرلیں۔تو اس کو کام سمجھنا بہت بڑی بات ہے۔ اس سے بڑی کام کی بات اور کیا ہوگی کہ اللہ جل شانہ کے ہاں آپ یاد ہورہے ہیں۔ ہم دفتروں میں کام کرتے ہیں ، دفترکے باس کے (Good books) میں آنے کیلئے ہم کیا کچھ کرتے ہیں ، آدمی کیا کچھ کرتا ہے ، پتہ نہیں کیاکیا خوش آمدیں اور کیا کیا طریقے لوگوں نے ایجاد کیے ہیں۔ آگے پیچھے ، یہ وہ ، سب کچھ کرتے رہتے ہیں۔ کیوں؟ ان کو پتہ ہوتا ہے کہ میرا (ACR) ان کے پاس ہے۔ میری پروموشن ان کے ہاتھ میں ہے ، اگر میں ایسا نہیں کروں گا تو مشکلا ت پیش آسکتی ہے۔ تو ایک مختصر سا کلمہ اللہ پاک نے ہمیں عنایت کیا ہے۔ فرمایا ہے کہ جنت کے خزانوں میں سے یہ ایک خزانہ اس اُمت کو دیا ہے اور وہ کلمہ ہے،

ولا حول ولا قوۃ الا بااللہ العلی العظیم

جو توقعات ہم نے (ACR) سے وابستہ کررکھی ہیں ، بس اس کلمے کے ساتھ آپ سمجھ لیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہیں۔ مطلب یہی ہے کہ انسان اس ڈر سے (Good books)میں آنا چاہتا ہے کہ کہیں مجھے نقصان نہ پہنچ جائے۔ یا اس وجہ سے آتا ہے کہ مجھے فائدہ ہوجائے ، اس سے زیادہ اور کیا ہوسکتا ہیں ۔ یہ دو باتیں ہی ہوسکتی ہیں۔ تو "لا حول والا قوۃ" میں یہ بات بتائی گئی ہے کہ نقصان سے بچانے والی طاقت بھی اللہ ہے اور خیر دینے والی طاقت بھی اللہ کی ہے۔ وہی اونچی شان اور اونچی عظمت والا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ اگر ہمارے دل کے اندر یہ یقین آجائے اور یہ بات بیٹھ جائے تب ہم اس کو کام سمجھیں گے۔ کیونکہ یہ چیز ہمارے سامنے ہوگی کہ سب کچھ لکھا جارہا ہے۔ (ACR) توسال میں ایک دفعہ لکھا جاتاہے۔ یہاں تو روزانہ رپورٹ بن رہی ہے۔ یہاں تو روزانہ ایسی رپورٹ بنتی ہے جس میں ذرا بھر ایک لفظ کا بھی تغافل نہیں ہوتا۔ جو آپ نے کیا ، جو آپ بولے ، وہ سب نوٹ کرلیا گیا۔ آپ کی سب چیزیں نوٹ ہورہی ہیں ، اور یہ ریکارڈ ایسی جگہ جاتاہے جہاں یہ تلف نہیں ہوسکتا۔ جہاں اس کو آگ نہیں لگ سکتی۔ یہ محفوظ ہوتا ہے اتنا محفوظ ہوتا ہے کہ جس وقت میزان پر اعمال تولے جائیں گے تو لوگوں کو یہ اعمال نامہ دے دیا جائے گا کہ پڑھ آپ کا پڑھنا خود ہی کفایت کرے گا آپ خود اس کو پڑھ لیں۔ اس وقت کیا ہوگا ، اس وقت جب اپنے اعمال نامہ کو انسان دیکھے گا تو چیخ اٹھے گا کہ یا اللہ اس میں نہ کوئی چھوٹا عمل باقی ہے نہ کوئی بڑا عمل باقی ہے ، ساری کی ساری چیزیں اس میں موجود ہیں جو میں نے اتھاہ گہرائیوں میں کی تھیں وہ بھی موجود ہے ، جو میں نے لوگوں کے سامنے کی ہیں وہ بھی موجود ہیں۔ جو بڑے کام کیے تھے وہ بھی موجود ہیں جو چھوٹے کام کیے وہ بھی موجود ہیں۔تو سب کا سب ریکارڈ موجود ہے ، اس کو کوئی تلف نہیں کرسکتا۔ ہاں ایک بات ہے ، جس نے ریکارڈ بنایا ہے وہ اس کو تلف کرسکتا ہے۔ اور اس کا طریقہ بھی بتا دیا ہے ، اگر کسی کا غلط ریکارڈ بنا ہے تو وہ تلف کیا جاسکتاہے اگر آپ چاہیں ، اور وہ کیا ہے؟ توبہ اور استغفار۔ توبہ کے ساتھ تمام برائیاں ختم ، کیسے ختم؟ ایسی ختم جیسے کسی نے کی ہی نہ ہوں ، اعمال نامہ ایسے پاک ہوجاتاہے جیسے کسی نے کچھ کیا ہی نہ ہو۔ یہ چیز آپ کے اور ہمارے پاس موجود ہے۔ اب دیکھ لیں کہ سوائے شیطان کے اور کون سی چیز ہے جو ہمیں استغفار سے روکتی ہے ، جو ہمیں توبہ سے روکتی ہے۔ اللہ کے سامنے گڑگڑانے سے اور معافی مانگنے سے آپ کے گذشتہ گناہ معاف ہوسکتے ہیں ، لیکن اس کی توفیق بہت کم ملتی ہے آخر کیوں؟ عقل اس بات کا جواب نہیں دے سکتی۔ ہر کوئی چاہتا ہے کہ میرے گناہ معاف ہوجائیں ، کون ایسا شخص ہے جو نہیں چاہتا کہ میرے گناہ معاف ہوجائیں۔ طریقہ موجود ہے۔ وعدہ کرنے والا سب سے زیادہ وعدہ پورے کرنے والا ہے۔ نہایت مہربان او رنہایت سخی۔ ہمارے مانگنے سے زیادہ عطا کرنے والا ، یہ ساری چیزیں موجود ہیں لیکن ہماری نظر اس طرف نہیں جارہی ، آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے۔ جس وقت توبہ کا حکم آگیا تو ایک شیطان اپنے سر پر خاک ڈالنے لگا کہ ہائے افسوس ہائے افسوس۔ میں صبح سے شام تک لوگوں سے غلطیاں کراؤں گا ، اور آخر میں یہ توبہ کرکے سب کچھ معاف کروالے گا۔ تو دوسرے شیطان نے کہا کوئی پروا نہ کرو ، ہم ان سے ایسی غلطیاں کروائیں گے جس کو یہ گناہ ہی نہیں سمجھیں گے۔ تو پھر توبہ کون کرے گا۔ کیا ایسی صورتحال آج کل نہیں ہے؟ اگر ہم کسی کو اس کی غلطی پر ، مثلاً اس کا پاجامہ ٹخنوں سے نیچے ہے۔ یہ گناہ کبیرہ ہے ، اس میں میری اور آپ کی بات نہیں چلتی۔ یہ تو خدا کا حکم ہے کتابوں میں دیکھ لو ، کبائر گناہ میں یہ لکھا ہوا ہے۔ امام غزالی کی کتاب میں ، اور بہت سارے علماء کرام نے کتابیں لکھی ہیں ، اسمیں جو کبیرہ گناہوں کی تفصیل ہے اس میں لکھا ہے کہ مردوں کے لئے ٹخنوں سے پاجامہ نیچے ہونا گناہ کبیرہ ہے۔ اور عورتوں کے لئے ٹخنوں سے اوپر ہونا گناہ کبیرہ ہے۔ اب آپ اندازہ کرلیں کہ عورتوں کا پاجامہ ٹخنوں سے اوپر جارہا ہے اور مردوں کا پاجامہ نیچے آرہاہے۔ یہ کیا ہے؟ اس میں انسان کو ملتا کیا ہے۔ کچھ بھی نہیں ملتا۔ اب اگر آپ کسی کو کہہ دیں کہ ٹخنوں سے پاجامہ اونچا کرلیں تو وہ آگے سے جواب دیگا ، تمہیں کیا ہے۔ چلیں جی بڑی غلطی ہوگئی آپ سے بات کی ، معافی چاہتے ہیں ، اور کیا کرسکتے ہیں۔ معافی ہی مانگنی پڑے گی۔ آدمی اس بات پر ایسے جز بز ہوجاتاہے جیسے ہم نے اس پر کوئی تلوار چلائی ہو ، اب بتائیں ایسا شخص اس چیز سے توبہ کرے گا۔ نہیں کرے گا۔ ورنہ حکم بالکل واضح ہے۔توبہ کرے گا تو سب کچھ معاف۔ لیکن توبہ کیسے کرے گا۔ وہ تو اس کو غلطی ہی نہیں سمجھ رہا۔ الٹا آپ کو دلائل دینا شروع کردے گا۔ ایک دفعہ میں جرمنی میں کچھ عرب حضرات کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا ، میں نے یہ گناہ کبیرہ والی بات کی تو انہوں نے کہا کہ نہیں جو تکبر کی وجہ سے کرے وہ کبیرہ گناہ ہے۔ میں نے کہا حضرت میں آپ کی بات اس وقت مانتا جب آپ ﷺ نے اس کو بطور شرط بتایا ہوتا کہ اگر تکبر کے ساتھ کیا جائے تو پھر گناہ ہوگا۔ یہاں پر شرط کے طور پر نہیں بلکہ علامت کے طور پر بتایا گیا کہ یہ تکبر کی علامت ہے۔ جب آپﷺ نے اس کو فرما دیا کہ تکبر کی علامت ہے تو تم کون ہوتے ہو کہنے والے کہ میں تکبر کی وجہ سے نہیں کررہا۔ میں نے کہا جو ڈرنے والے تھے ان کے بارے میں بھی سن لیں ، جس صحابی سے یہ بات کہی جارہی تھی اس وقت آپ ﷺ کے ساتھ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی کھڑے تھے۔ جیسے ہی یہ بات آپ ﷺ نے فرمائی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو کپکپی لگ گئی فرمایا ، حضرت کبھی کبھی میرا پاجامہ بھی ٹخنوں سے نیچے ہوجاتا ہے۔ آپﷺ نے فرمایا نہیں تمہیں نہیں کہہ رہا۔ اب اس کی ایک (interpretation) تو وہ لوگ کرتے ہیں کہ ان کو اس لئے فرمایا کہ تمہیں نہیں کہہ رہا کہ ان کا پاجامہ تکبر کی وجہ سے نیچے نہیں تھا لہٰذا ان کو بچادیا۔ اور دوسری طرف آپ دیکھیں کہ ایک امکان کو بھی حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے برداشت نہیں کیا ، فورا ڈر گئے ، اور ڈر کے مارے کہہ دیا کہ کبھی کبھی میرا بھی پاجامہ ٹخنوں سے نیچے ہوجاتا ہے۔ حالانکہ جو اتنا ڈر رہا ہو وہ اس کو باقی رکھے گا؟ جیسے ہی نیچے جائے گا فورا اس کو اٹھا لے گا۔ اگر غلطی سے کوئی چیز سرزد ہوجائے اس پر استمرار نہ ہو ، اصرار نہ ہو ، وہ تو گناہ میں ہی نہیں آتا۔ تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پکڑ کیوں ہوتی۔ اس میں تو یہ دیکھنا چاہیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ڈرے کیوں؟ اس بات کو دیکھنا چاہیے۔ اور ہمیں ان کی یہ پیروی کرنی چاہیے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک چیز کا پتہ لگتا ہے فورا ڈرجاتے ہیں۔ حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ ، راستے پر جارہے ہیں اور کہتے جارہے ہیں ، میں تو منافق ہوگیا ، میں تو منافق ہوگیا۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ راستے میں ملے ، پوچھا کیا کہہ رہے ہو، کیوں کہہ رہے ہو اس طرح۔ تو حضرت حنظلہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ جب میں آپﷺ کی مجلس میں ہوتا ہوں تو اور طرح ہوتا ہوں اور جب باہر آتا ہوں تو اور طرح کا ہوتا ہوں ، کیا یہ نفاق نہیں ہے؟ ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ڈر گئے ، افوہ یہ معاملہ تو واقعی بہت خطرناک ہے۔ یہ تو میرے ساتھ بھی ہوتا ہے۔ یہ تو پھر میں بھی منافق ہوگیا۔ دیکھ لیں ابھی آپﷺ کی طرف سے کوئی فیصلہ نہیں آیا ، لیکن اپنی بات پر کتنے ڈر گئے۔ فورا فیصلہ کیا کہ دونوں آپﷺ کے پاس چلتے ہیں۔ چلے گئے اور آپ ﷺ سے ساری صورتحال عرض کی۔ آپﷺ نے فرمایا ایسی حالت جیسی تمہاری میری مجلس میں ہوتی ہے اگر باہر بھی ہونے لگے ، تو پھر تو فرشتے تمہارے ساتھ بسترو ں میں مصافحے کرنے لگیں۔ لیکن یہ تو گاہے گاہے ہوتا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ آپﷺ کی صحبت کا اثر تھا۔ آپ ﷺ کا قلب اطہر منور ، اس کے سامنے کوئی آگیا سبحان اللہ ، اس کی صفائی تو ہوگئی ، اس وقت توساری ظلمت زائل اور اپنی خرابیاں ظاہر ، آپﷺ کے سامنے کوئی کیسے ظلمت پر ٹھہر سکتا تھا اگر وہ با ایمان تھا۔ تو ایسی صورت میں تو بات الگ ، لیکن جیسے ہی آپ ﷺ سے کوئی ہٹ جاتا ، درمیان میں کوئی پردہ آجاتا تو معاملہ تبدیل۔ کیونکہ وہ روشنی تو پھر نہیں آسکتی ، اس وجہ سے فرق ہوتا۔ اس قدرتی فرق کو ان حضرات نے اپنی کمزوری سمجھا۔ تو آپ ﷺ نے ان کو تسلی دی کہ نہیں ایسی بات نہیں۔ یہ تو اگر آپ کے ساتھ ہر وقت ایسا ہونے لگے پھر تو فرشتے آپ کے ساتھ مصافحہ کرنے لگیں ، کیوں؟ فرشتے نوری مخلوق ہیں۔ جب آپ ﷺ کی برکت سے آپ کا قلب اتنا منور ہوجائے کہ ہر وقت وہ حالت ہونے لگے بس پھر تو فرشتوں کی طرح آپ کا معاملہ ہوگیا۔ بہر حال میں بات کررہا تھا کہ جو ذکر ہے یہ دائمی طور پر تب انسان کو نصیب ہوگا ، جب انسان اپنے دل کو بدل لے۔ اپنے دل کی دنیا کو بدل لے۔ آپ ﷺ نے فرمایا ،

حب الدنیا راس کل خطیۃ

دنیا کی محبت ساری خطاؤں کی جڑ ہے۔ تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ دنیا کی محبت تمام ظلمتوں کا مبداء ہے۔ دنیا کی ہر ہر محبت کے ساتھ کوئی نہ کوئی ظلمت ہے۔ لذتوں کی محبت کے ساتھ الگ ، مال کی محبت کے ساتھ الگ ، بڑائی کی محبت کے ساتھ الگ ، کرسی کے ساتھ الگ ، اس طرح چوہدری بننے کی خواہش کے ساتھ الگ ، غرض ہر چیز کے ساتھ اپنی اپنی ظلمت موجود ہے۔ ان ظلمتوں کو کیسے دفع کیا جاسکتا ہے؟ ان کو ہم کیسے پھاڑ سکتے ہیں۔ ان کو پھاڑنے والی چیز اللہ کی ذات ہے۔ اگر ہم لوگ اللہ جل شانہ کو یاد رکھیں تو اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ ہمیں ان چیزوں کے اندر جو ظلمتیں ہیں وہ نظر آجائیں گی۔ اور ہم محسوس کرنا شروع کردیں گے اور اس کے بارے میں فکر کرنے لگیں گے۔ اصلاح سب سے پہلے احساس سے شروع ہوتی ہے۔ جب تک انسان کو احساس نہیں ہوتا اس وقت تک آپ اس کو لاکھ دفعہ کہہ دیں وہ کوئی نہ کوئی بہانہ بنا دے گا۔ لیکن اگر اس کو احساس ہوگیا تو پھر وہ بھاگے گا اور مطلوبہ جگہ پہنچنے کی کوشش کرے گا۔ لطیفے کے طور پرایک بزرگ نے ایک واقعہ بیان کیا ، یہ واقعات جو ہیں یہ مثالی ہوتے ہیں اصل نہیں ہوتے ، کہتے ہیں کہ ایک خاتون کا بچہ پیدا ہونے والا تھا ، تو اس نے اپنی نانی سے کہا کہ نانی ماں جب وہ وقت آنے لگے تو مجھے جگا دینا ، نانی نے جواب دیا بیٹی اگر وہ وقت آگیا تو پھر تم سب کو جگاتی پھرو گی ، پھر تمہیں کوئی نہیں جگائے گا۔ بالکل یہی بات اگر ایک انسان کو فکر لاحق ہوگئی کہ میرے ساتھ قبر میں کیا ہوگیا ، حشر میں کیا ہوگا ، میزان کا کیا ہوگا ، اللہ جل شانہ کے سامنے کیسے کھڑا ہونگا ، بس اصلاح کا دروازہ کھل گیا۔ اللہ جل شانہ نے قُران پاک میں بشارت دی ہے ، کہ جو شخص اس بات سے ڈرا کہ اس کو اللہ کے سامنے کھڑا ہونا ہے۔ اسے دو جنتیں ملیں گی۔ بعض علماء کرام فرماتے ہیں کہ ایک جنت اس دنیا کا ہے اور ایک اس دنیا کا۔ یہاں پر انسان کو اطمینان مل جائے گا اپنے دین پر ، یہ اس کی جنت ہے۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ جس وقت انسان کو اس بات کی فکر ہوگئی کہ میں نے خدا کے سامنے ایک دن کھڑا ہونا ہے ، بس پھر اس کے بعد وہ خود بخود پہنچے گا ، مثلاً ایک شخص بہت چین کی نیند سو رہا ہے۔ یا ڈائجسٹ پڑھ رہا ہے۔ ریڈیو لگا دیا ، ٹی وی لگا دیا ، چائے منگوا لی چائے پی رہا ہے۔ کوئی پرواہ نہیں۔ اتنے میں ایک شخص آیا اور اسے بتایا کہ جی آپ نے جو بلڈ ٹیسٹ دیا تھا اس میں ہیپٹائٹس سی کی تشخیص ہوئی ہے۔ اب بتائیں اس کا کیا حال ہوگا۔ وہ اسی طرح آرام سے بیٹھ جائے گا۔ آرام سے چائے پیے گا۔ اور آرام سے ٹیک لگاکر ڈائجسٹ پڑھے گا۔ نہیں بلکہ اس کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں گی۔ اس وقت اس کوایک ہی فکر ہوگی کہ ہے کوئی ایسا شخص جس سے میں پوچھوں کہ میرا ہیپٹائٹس سی کیسے ٹھیک ہوگا۔ کہتے ہیں کہ ایک شخص بڑے وہمی تھے۔ جب کہیں دو شخص آپس میں بات کررہے ہوتے تھے تو یہ سمجھتے تھے کہ وہ دونوں میرے بارے میں کوئی بات کررہے ہیں۔ ہوتے ہیں اس طرح جو ہیپٹائٹس سی والے ہونگے وہ اخبار میں اگرکوئی میڈیکل کا آرٹیکل آئے گا ، فورا پڑھے گا کہ ہوسکتا ہے اس میں ہیپٹائٹس کے بارے میں کچھ ہو ، ریڈیو پر اگر کوئی میڈیکل نیوز آئے گی فورا سننے کی کوشش کرے گا کہ ممکن ہے اس بارے میں ہو ، انٹرنیٹ پر بھی اس کو سرچ کر ے گا۔ الغرض اس کی ہر وقت کی فکرکس چیز پر جائے گی ،یہی کہ میرا ہیپٹائٹس سی ٹھیک ہوجائے۔ کیا اس کو آپ (alarm) کریں گے کہ اپنے ہیپٹائٹس سی کا علاج کرو؟ کیا اس کو کہنا پڑے گا۔ نہیں کہنا پڑے گا۔ بلکہ ممکن ہے کہ ڈاکٹر اس کو (anxiety) دور کرنے والی دوائی دے کیونکہ ہوسکتاہے اتنا زیادہ سوچنے سے اس کو مزید نقصان ہورہا ہو۔ وہ اسے کہے گا تسلی رکھو علاج ہوجائے گا۔ اسی طریقے سے ایک انسان کو اس بات کا پتہ چل گیا کہ میں نے اللہ جل شانہ کے سامنے ایک دن کھڑا ہونا ہے اور سوال و جواب بھی ہوگا ،پھر اس وقت میں کیا کروں گا۔ اب اس کو ایک ہی فکر ہوگی کہ ہے کوئی ایسا جو مجھے اس دن کے نقصان سے بچا لے۔ اس وقت ایک آواز اس کے دل میں آئے گی کہ ہاں ہے۔ آیا تھا ، اس کی تعلیمات موجود ہیں۔ وہ ہیں آپﷺ۔انہوں نے طریقہ بتا د یا ہے کہ ا س طریقے سے زندگی گزاروتاکہ وہاں آپ کامیاب ہوجائیں۔ یہاں تک تو بات صاف ہوگئی۔ لیکن یہ کب ہوگا؟ جب یہ کیفیت ہوجائے گی۔ لیکن اس کیفیت تک پہنچنے کے لئے آپ کو کیا کرنا پڑے گا۔ کیسے آپ کو یقین آجائے آخرت پر ، آپ کے دل میں یہ بات کیسے بیٹھے ، یہ بات کیسے اظہر من الشمس ہوجائے۔ اس کے لئے محنت کی ضرورت ہے اور وہ محنت یہ ہوتی ہے اللہ والوں کی مجلسوں میں جانا ، اور اللہ تعالیٰ کو کثرت کے ساتھ یاد کرنا ، موت اور موت کے بعد کی چیزوں کو یاد کرنا۔ ایسے لوگوں کے واقعات پڑھنا جنہوں نے اس طریقے سے زندگی گزاری ہے۔ پھر بات بن سکتی ہے۔ یہاں ہمارے قریب ہی محلے کی دو خواتین تھیں ، انہوں نے

اِھدِ نَا الصِّرَاطَ الۡمُسۡتَقِیۡمَ

کا وظیفہ شروع کیا تھا ، کہ ہمیں اللہ پاک ہدایت دے۔ ماشاﺀ اللہ بہت اچھا وظیفہ ہے۔ سیدھی سیدھی بات ہے کچھ اور درمیان میں نہیں ہے ، اللہ پاک کا دیا ہوا وظیفہ ہے۔ نماز کی ہر رکعت میں پڑھنا پڑتا ہے۔ اگر آدمی تھوڑا سمجھ کر پڑھے تو جلد ہی اس کی برکت نصیب ہوجاتی ہے۔ تو انہوں نے وہ ظیفہ شروع کیا تھا۔ اس وظیفے کی برکت تھی یا جو بھی کچھ تھا

واللہ اعلم باالصواب

انہوں نے مجھ سے انٹرکام پر بات کی ، خواتین کی مجلس میں آئیں تھیں۔کہنے لگیں کہ شاہ صاحب ہم نے یہ وظیفہ شروع کیا ہے اور دونوں کے دل میں یہ بات آرہی ہے کہ آپ سے بیعت کرلیں ، میں نے ان سے کہا کہ اپنے مردوں سے پوچھو ، میں تو اب انکار نہیں کرسکتا کیونکہ آپ لوگوں نے بہت بڑا استخارہ کیا ہے ، اب آپ اپنے مردوں سے پوچھ لیں۔ بہر حال انہوں نے گھر والوں سے بات کی اور بیعت ہوگئیں۔ اب اس میں سے ایک خاتون کا دس دنوں بعد ایک فون آتا ہے۔وہ کسی سیاسی تحریک کے ساتھ وابستہ تھیں۔ فون آیا ، شاہ صاحب ہم پہلے بھی اس تحریک کے ساتھ وابستہ تھیں ، ہمیں تو کچھ نظر نہیں آتا تھا ، اب تو ہمیں غلطیاں ہی غلطیاں نظر آتی ہیں ، اب تو ہمیں نقصان ہی نقصان نظر آتا ہے یہ کیا ہوگیا؟ میں نے جواب دیا اللہ پاک سے آپ لوگوں نے ہدایت مانگی تھی ، اب اللہ پاک آپ لوگوں کو ہدایت دے رہا ہے۔ ہدایت اور کس کو کہتے ہیں ، حق و باطل کے درمیان تمیز کو کہتے ہیں۔ اب آپ کو حق بھی نظر آرہا ہے اور باطل بھی نظر آرہا ہے۔ اب آپ کو فکر ہوگئی ، اب آپ کام کریں۔اب ماشاﺀ اللہ،اللہ پاک ان سے کام لے رہے ہیں اور الحمد اللہ دوسروں کو بھی سمجھا رہی ہیں۔ یہ کیا ہے؟ یہ وہ فکر ہے۔ جب فکر اللہ پاک نے نصیب کردیا راستہ خود بخود نظر آنے لگا۔ اللہ کا خصوصی کرم ہے آپ ذرا مانگیں تو صحیح۔ کوشش تو کریں ، آگے تو ہوجائیں۔ عموماً انسان کے ذہن میں آتاہے اور یہ شیطان ہی ڈالتا ہے کہ کوئی بات نہیں ہم کسی آئیڈیل شخصیت کو ڈھونڈ کر یہ کام کریں گے۔ جس میں یہ ہو اور جس میں وہ ہو ، سوچ بڑی اچھی لیکن نتیجہ بہت برا۔سوچ یقیناً اچھی ہے ، اچھا آدمی تلاش کرنا چاہیے ، لیکن کتنا تلاش کرنا چاہیے اور کتنا اچھا آدمی ہونا چاہیے ، یہ ایک واقعہ میں آپ کو بتا رہا ہوں کوئی مبالغہ کی بات نہیں کررہا۔ مجھ سے فون پر کسی نے پوچھا کہ کیا شیخ عبدالقادر جیلانی (رحمۃ اللہ علیہ) کی طرح آدمی مل سکتا ہے؟ میں نے جواب دیا نہیں۔ آپ تو شیخ عبدالقادر جیلانی(رحمۃ اللہ علیہ) کی بات کررہے ہیں ، مفتی محمود صاحب (رحمۃ اللہ علیہ)جیسا بھی نہیں ملے گا۔ وہ ابھی ابھی ہمارے سامنے ہی گزرے ہیں۔ تو وجہ کیا ہے ،حضورﷺ سے دوری ہورہی ہے۔ لائٹ کم ہورہی ہے۔ ہر اگلا روز پچھلے روز سے زیادہ تاریک ہے۔ ایسی حالت میں جتنے چہرے جتنے روشن ہیں۔ اور جو بچے ہیں ان کو تلاش کرو ، ایسے آئیڈیل کو آپ کیا کریں گے جو نصیب ہی نہ ہو۔ مثلاً ایک آدمی بیمار ہوگیا اس کو کسی نے بتایا کہ امریکہ میں فلاں ڈاکٹر اس کا بڑا ماہر ہے۔ اب آدمی کہتا ہے کہ میں علاج کروں گا تو اس سے کروں گا۔ بات بڑی اچھی ہے۔ لیکن اول کیا آپ کے پاس امریکہ کا ویزا ہے؟ کیا آپ کو ویزا ملے گا۔ کیا آپ کے پاس پیسہ ہے کیا آپ کے پاس اس تک رسائی ہے۔ یہ ساری باتیں پہلے سوچنی ہونگی اس کے بعد علاج کے بارے میں سوچا جائے گا۔ (practical situation) کو دیکھاجاتا ہے۔ (ideal situation) کو نہیں دیکھا جاتا۔ اگر ایک انسان آئیڈیل کی تلاش کرتے کرتے ، (practical situation) کو (loose) کرلے تو اس کو کون ہوشیار کہے گا ، کون عقلمند کہے گا۔ یہی بات ہے کہ ایک انسان کو بیماری کی فکر لاحق ہوجائے تو کبھی بھی وہ امریکہ کے ڈاکٹر پر (rely) نہیں کرے گا۔ اپنے علاج کو اس کے لئے (postpone) نہیں کرے گا۔ کوشش کرے گا یہی پر مجھے کوئی مل جائے تو اس سے میں اپنا علاج شروع کردوں۔ اور جب بہت سیریس ہوتا ہے تو بہت قریبی ، جتنا بھی قریبی ڈاکٹر ہوتا ہے جاکر اس سے علاج شروع کرلیتا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ انسان کو پریکٹیکل ہونا چاہیے۔ دوسرا اللہ پاک سے مانگنا چاہیے کہ اللہ جل شانہ مجھے ایسے لوگوں تک پہنچا دے جہاں میرا کام ہوجائے ، مانگنے سے اللہ پاک دے دیتے ہیں۔ کالج کے زمانے سے پہلے میں بہت پڑھا کرتا تھا ، پڑھائی میری بہت زیادہ تھی۔ میں نے بہت کچھ پڑھا تھا۔ اس میں تصوف کو بھی میں نے بہت پڑھا تھا۔ تصوف میں نے پڑھا تھا ڈائجسٹوں میں۔جس سے میرا ذہن بن گیا تھا کہ تصوف کے لئے مجھے جنگل میں جانا پڑے گا۔ اور اس کے لئے میں نے اپنے آپ کو تیار بھی کرلیا تھا۔ میرے ذہن میں تھا کہ کالج سے فارغ ہوکر جنگل جاؤں گا۔ اب میری سوچ غلط تھی ارادہ صحیح تھا۔ ارادہ اس لئے صحیح تھا کہ میں تو اچھے کام کے لئے جنگل میں جارہا تھا کسی غلط کام کے لئے تو نہیں جارہا تھا ، ارادہ صحیح تھا لیکن سوچ غلط تھی۔ اللہ پاک کی مہربانی کہ اللہ پاک نے جنگل کی بجائے مجھے یونیورسٹی میں وہ شخص دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے سارے اسباب پیدا فرمادیے۔ اور یونیورسٹی میں مجھے وہ شخصیت مل گئی۔ میں نے کبھی اس کے لئے ہاتھ نہیں اٹھائے ، مجھے تو شاید اس وقت اس کا پتہ بھی نہیں تھا۔ لیکن دل کی خواہش تو تھی۔ دل کا تو اللہ جل شانہ کو پتہ ہے۔ تو اللہ جل شانہ نے یہ مہربانی فرمائی کہ غالباً مجھے یاد نہیں کہ کتنے دن میں نے مولانا صاحب کے بغیر گزارے ہونگے۔ یعنی جاتے ہی لوگوں نے مجھے مولانا صاحب سے (introduce) کرا دیا۔ اور میں نے بھی درمیان میں کوئی گڑ بڑ نہیں کی ، جیسے ہی میں نے انہیں دیکھا میں نے فیصلہ کیا بس یہی اصلی جگہ ہے۔ میں نے وہاں بیٹھنا شروع کردیا۔مجھے یہ پتہ نہیں تھا کہ مولانا صاحب پیر ہیں اور نہ کسی نے مجھے کہا تھا کہ یہ پیر ہیں۔مولانا صاحب کی مجلس میں جانا شروع کیا ، وہ گپ شپ میں سب کچھ دیتے تھے۔ گپ شپ ہورہی ہے۔ لطیفے سنائے جارہے ہیں۔ کبھی مٹھائی کھلائی جارہی ہے۔ کبھی کیا ہورہا ہے کبھی کیا ہورہا ہے۔ اسی طریقے سے آہستہ آہستہ سب چیزوں کا پتہ چل گیا۔ حتی کہ غالباً سنہ 1975ﺀ میں سید تسنیم الحق صاحب (رحمۃ اللہ علیہ) نے مجھ سے پوچھا کہ آپ نے مولانا صاحب سے بیعت کی ہے؟ میں نے پوچھا کیا مولانا صاحب بیعت بھی کرتے ہیں۔ تسنیم الحق صاحب کو جھٹکا لگا کہ میں کیا پوچھ رہا ہوں ، انہوں نے پوچھا کہ آپ کو پتہ نہیں ہے کہ مولانا صاحب پیر ہیں اور بیعت بھی کرتے ہیں ، میں نے کہا نہیں مجھے تو نہیں پتہ۔ فرمانے لگے بہت سادہ آدمی ہو ، آپ کو یہ پتہ ہی نہیں کہ مولانا صاحب کون ہیں۔ اسی مولانا صاحب کی برکت ہے کہ یہ یونیورسٹی صحیح ہے۔ ورنہ آپ اس کو دیکھ لیتے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ بگڑی ہوئی حالت میں یہ کیسی تھی ، یہ جو آپ کو اپنے ہاسٹل میں دین کی رونق نظر آرہی ہے ، یہ سب مولانا صاحب کی برکت ہے۔ اس وقت مجھے الحمد اللہ پتہ چل گیا کہ مولانا صاحب تو اس قسم کے ہیں ،لیکن پھر بھی ہمارا لا اُبالی پن جیسا کہ جوانی میں ہوتا ہے۔ آنا جانا تو تھا لیکن پھر بھی کبھی بیعت کا ہم نے نہیں سوچا۔ اب اللہ جل شانہ جب فضل فرماتے ہیں اور ارادے کو قبول فرماتے ہیں تو اس کے پاس بہت سارے طریقے ہیں۔ تو خوابوں کی ایک سیریز شروع ہوگئی۔ ایک خواب اس کے بعد دوسرا خواب ، اس کے بعد تیسرا خواب ، اور (intensity) بڑھتی گئی۔ پہلے نرمی سے سکھایا جارہا ہے۔ پھر اس کے بعد ذرا تھوڑا سا ڈانٹ ڈپٹ کے ساتھ ، کہ بھئی دوسری طرف نہ سوچنا معاملہ خطرناک ہے۔ پھر یہ ڈانٹ ڈپٹ زیادہ ہوگئی کہ بھئی دیر نہ لگاؤ یہ معاملہ گڑ بڑ ہوجائے گا۔ حتی کہ مولانا صاحب نے بھی مجھے (alarm) کردیا ، ایک خواب میں نے مولانا صاحب کو سنایا ، مولانا صاحب نے کہا اب کسی آدمی کا ہاتھ پکڑ لو ورنہ گمراہی کا اندیشہ ہے۔ میں نے کہا کس کا ہاتھ پکڑوں ، فرمایا جس سے آپ کو مناسبت ہو ، جس سے آپ کا جی چاہے ۔ میں نے کہا حضرت اگر آپ سے جی چاہے تو پھر ، فرمایا کہ پھر کسی وقت آجانا۔ اب اتمام حجت ہوگیا تھا۔ حجت تمام ہو گئی۔ اب میرے لئے کوئی گنجائش نہیں رہی اس کے بعد پھر یہ صورتحال بن گئی کہ مجھے اتنی سخت ڈانٹ آگئی کہ اس کے بعد اگر میں نے جاتا تو پھر ضرور شاید کوئی گڑ بڑ ہوجاتی ، پھر میں مولانا صاحب کی طرف بھاگا اور ان سے بیعت کرلی۔ لیکن یہ کام جیسے جاہل لوگ کرتے ہیں میں نے ویسے کیا ، ہوشیار لوگ اس طرح نہیں کرتے۔ ہوشیار لوگ کہتے ہیں کہ اصل کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ اشارہ تو ہوگیا تھا میں نے ڈانٹ کا انتظار کیوں کیا؟ تو بعض دفعہ ایسے ہوجاتاہے کہ اشارہ ہوجاتا ہے ، انسان اشارے کو (skip) کردیتا ہے۔ آدمی چھوڑ دیتا ہے سوچتا ہے یہ کسی اور کے لئے ہے۔ بہر حال میں عرض کررہا تھا کہ مجھے جنگل میں جانا نہیں پڑا ، الحمد اللہ سٹڈی میں بھی کوئی فرق نہیں آیا۔ نہ کسی اور (activity) میں فرق آیا ، سب کچھ اپنے نارمل انداز میں ہوتا رہا۔ بس قبلہ جدا ہوگیا ، اور وہ قبلہ یہ ہوگیا کہ اب ہم اپنا سب کچھ مولانا صاحب کے ساتھ (share) کرتے تھے۔ ہمارا سب کا فوکس ان پر آگیا ، بس اتنی تبدیلی آگئی تھی ، باقی کچھ بھی نہیں تھا۔ تو اللہ جل شانہ کے فضل و کرم سے اور حضرت کی برکت سے اللہ پاک نے یہ فکر عطا فرما دی۔ تو یہ بات کہ انسان اللہ سے مانگے ، اوردل سے مانگے اس کے لئے الفاظ کی ضرورت نہیں ہے۔ دل سے مانگے کہ میری ضرورت ہے۔ میں یہ چاہتا ہوں۔ مجھے یہ مل جائے تو اللہ پاک راستہ بنا دیں گے ۔ اس کے لئے علماء کرام نے کچھ نشانیاں بھی بتائیں ہیں اور وہ نشانیاں اس لئے ضروری ہے کہ یہ دنیا فراڈیوں سے بھری ہوئی ہے۔ ہر لائن کے اندر فراڈی ہیں۔ ڈاکٹروں کے اندر ہیں ، انجنیئروں ، وکیلوں ، تاجروں ، ویزوں کے کاروبار کرنے والوں ، یعنی ہر ہر شعبے کے اندر فراڈیوں کا ایک سلسلہ ہے۔ تو اس لائن میں فراڈیوں سے بچانے کیلئے بتاتے ہیں کہ کچھ نشانیاں ہیں۔ ان میں سے پہلی نشانی یہ ہے کہ اس کو فرض عین علم حاصل ہو ، فرض عین علم اس کو کہتے ہیں کہ چوبیس گھنٹے وہ شریعت کے مطابق گزار سکے۔ اور دوسروں کو بھی گزروا سکے۔ مثلاً میں نماز کیسے پڑھوں ، میں روزہ کیسے رکھوں ، اگر حج کا موقع ہے تو حج کیسے کروں گا۔ زکواۃ کیسے ادا کروں گا۔ گھر میں اور بازار میں کیسا معاملہ ہوناچاہیے۔ مسجد میں کیسا ہونا چاہیے ، اس طرح کی اور دوسری جو ضروری باتیں ہیں اس کا اسے علم حاصل ہو ،یہی وہ چوبیس گھنٹے شریعت کے مطابق زندگی گزارنے کا علم ہے جس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ

طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمۃٍ

مدرسوں میں جو علم پڑھایا جاتا ہے وہ فرض کفایہ ہے۔اس علم کے حاصل کرنے والوں کو ہم سپیشلسٹ کہیں گے۔ ہمیں بوقت ضرورت ان سے (consult) کرنا پڑے گا ، وہ ہمارے کنسلٹنٹس ہیں۔ تو پہلی نشانی یہ کہ اسے فرض عین علم حاصل ہو ، دوسری نشانی اس علم پر اس کو عمل حاصل ہو۔ علم تو بہت سارے لوگوں کو ہے عمل بہت سارے لوگوں کو نہیں ہے۔ تواس علم کے مطابق وہ زندگی گزار رہا ہو۔ تیسری نشانی وہ صاحب صحبت رہا ہواور آپ ﷺ تک اس کے صحبت کا سلسلہ قائم ہو۔ چوتھی نشانی ، وہاں سے اجازت ہو۔ پانچویں نشانی ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھے والوں کی زندگی تبدیل ہوتی نظر آتی ہو۔ چھٹی نشانی ، وہ اصلاح کرتا ہو ، مروت نہ کرتا ہو۔ ساتویں نشانی اس کی مجلس میں بیٹھ کر خدا یا دآجائے۔ یہ موٹی موٹی نشانیاں ہیں ، اگر یہ نشانیاں کسی میں پائی جائیں تو کہتے ہیں کہ پھر اس کے کشف کا انتظار نہ کرو ، پھر کرامت کا انتظار نہ کرو ، یہ بعد کی چیزیں ہیں۔ لوگ آج کل اس میں بھی پھنسے ہوئے ہیں۔ تصوف کی طرف آتے نہیں اور اگر آتے ہیں تو کشف و کرامات میں پھنس جاتے ہیں ، اب اگر آپ کسی ولی اللہ کی ہسٹری کسی اخبار میں پڑھیں تو وہ ایسی لکھی ہوتی ہے کہ فلاں صاحب فلاں جگہ پیدا ہوئے اور وہاں سے علم حاصل کیا اور پھر شیخ کی تلاش میں نکل گئے ، پھر وہاں سے ا ن کو خلافت مل گئی ، پھر اس نے کام شروع کیا اور پھر اس کی یہ کرامت ہوئی اور یہ کشف ہوا اور یہ کرامت اور وہ کرامت آگے پورا آرٹیکل کشف کرامت سے بھرا ہوتا ہے۔ مجھے آپ بتائیں کہ اگر مجھے شیخ عبدالقادر جیلانی کی ایک کروڑ کرامتوں کا پتہ چل جائے تو کیا اس سے مجھے کوئی فائدہ ہوا؟ لیکن اگر مجھے حضرت کی ایک کرامت کا بھی پتہ نہ ہو ، لیکن حضرت کی کسی ایک ترتیب پر میں نے عمل کرلیا ، تو مجھے فائدہ ہوا یا نہیں۔ سو فیصد فائدہ ہوا۔ حالانکہ مجھے حضرت کی کسی کرامت کا بھی پتہ نہ ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں۔ جس کے پیچھے بھی جاؤں گا ہدایت پالو گے۔ آپ کو کتنے صحابہ کی کرامتوں کا پتہ ہے؟ میرے خیال میں بمشکل چند صحابہ کی کرامتوں کا پتہ ہوگا ،اس سے زیادہ کا نہیں ہوگا۔ لیکن ان کی اتباع کا اور ان کے پیچھے چلنے کا آپ ﷺ براہ راست حکم دے رہے ہیں ، اس کا مطلب ہے کہ یہ چیز مطلوب نہیں ہے۔ جب ہم کرامتوں کی بات کرتے ہیں تو مسئلہ کیا ہوتا ہے؟۔ یہ شیطان کا ایک جال ہوتا ہے ، شیطان اس میں الجھا کر یہ سمجھا نے کی کوشش کرتا ہے کہ یہ تیرے بس کی بات نہیں ہے۔ وہ تو بڑے لوگ تھے اونچے لوگ تھے۔ لہٰذا تم جیسے ہو اسی طرح ٹھیک ہو۔ تو وہ بے عملی کی طر ف لے جاتا ہے۔ ادب کے اندر بے ادبی کی طرف لے جاتا ہے۔ حالانکہ ہونا کیا چاہیے تھا ان حضرات نے پوری زندگی اس پر گزاری ہے کہ کسی طرح اس چیز کو قابل عمل بنا دیں۔ اور لوگ کیا کرتے ہیں پوری کوشش کرتے ہیں کہ ان کی زندگی قابل عمل نہ رہے۔ اس چیز کے بارے میں بات کرتے ہیں جو کسی کے اختیار میں نہیں ہے۔ کشف و کرامت کس کے اختیار میں ہے؟ اب بتائیں اس سے ہمیں کیا فائدہ ہوگا۔ اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ ہم کرامات سے انکار نہیں کرتے۔ ہم ان کو حق مانتے ہیں۔ یہ ہمارے عقیدے کا حصہ ہے۔ ہم اس کو حق مانتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کرامات کرامات کا وظیفہ شروع کردیں۔ وظیفہ تو

سبحان اللہ- سبحان اللہ

کا ہوتا ہے۔

لا الہ الاللہ

کا ہوتا ہے۔ عیسائیوں کے ساتھ شیطان نے کیا کیا؟ عیسٰی علیہ السلام کا مقام ان کے لئے اتنا بڑھایا کہ ان کو یہ باور کرایا کہ تمہارا اپنے آپ کو عیسٰی علیہ السلام کا بندہ سمجھنا کافی ہے۔ کفارے کے عقیدے پر یقین رکھو بس تمہارا بیڑا پار ہے۔ باقی چیزیں تو پادری بھی معاف کرسکتا ہے۔ کیا اب وہ باقی عمل پر آئیں گے۔ ظاہر ہے عمل کرنے پر کیوں آئیں گے جب شیطان نے ان کو اتنا زبردست طریقہ بتا دیا ، کہ بس کوئی بات نہیں اب کام تو کچھ بھی نہیں بس یہ مان لو کہ عیسی علیہ السلام اللہ تعالیٰ کا بیٹا ہے۔ اور وہ کفارہ ادا کرچکے ہیں اور باقی ہمارے سارے گناہ معاف ہوچکے ہیں ، اب صرف ان کے ساتھ اپنا رابطہ برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔ اس سے زیادہ کی ضرورت نہیں ہے۔توآج کل کیا یہ کام ہم اپنے بزرگوں سے نہیں کرتے؟کیا آہستہ آہستہ لوگ اس طرف نہیں آرہے۔ بھنگ پی رہے ہونگے ، چرس پی رہے ہونگے ، اور نعرہ کس کا لگا رہے ہونگے ، لی یعنی وہ اتنے بگڑ جاتے ہیں کہ علی بھی پورا نہیں کہتے۔ ظاہر ہے بزرگ ہیں ، ان سے بڑا بزرگ کون ہے۔ تو شیطان نے کیسا ناٹک رچایا ، کہ بس مالا گلے میں ڈالو اور ان کا نام لو بس پھر چرس پیو ، بھنگ پیو ،شراب پیو ، جو کچھ مرضی کرلو ، بس تم بخشے بخشائے ہو۔ کالی کملی والے سرکار ، بس ہمارے لئے وہی کافی ہیں۔ ہمارے دفتر میں ہمارے کچھ دوست آئے تھے ان کے ساتھ ان کا کوئی دوست بھی تھا آکر ہمارے ساتھ بیٹھ گئے تو میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ بھئی آج کل آپ کیا کرتے ہیں؟ کہنے لگے ہمیں کیا کرنا ہے بس کالی کملی والے سرکار کے دامن کے نیچے ہیں ہمارا سب کچھ ٹھیک ہورہا ہے۔ میں نے کہا آپ کا اس سے کیا مطلب ہے۔ جب میں نے یہ پوچھا تو وہ دو نوں دوست اس سے کہنے لگے کہ دلیل سے بات ہوگی یہاں ذرا سنبھل کر بات کرنا۔ اب جواب دو اور تفصیل بیان کرو۔ جب وہ سمجھ گیا کہ معاملہ خطرنا ک ہے تو چپ ہوگیا ، بولا ہی نہیں۔ خدا کے بندے کالی کملی والے سرکار نے فرمایا کیا ہے ، اس کو کیوں بھولتے ہو۔ انہوں نے جو باتیں فرمائیں ہیں کیا وہ نعوذ بااللہ ساری کی ساری ضائع ہوگئیں۔ اور تم جو اپنی طرف سے توقعات لگائے بیٹھے ہو وہ ٹھیک ہیں ۔ آپ ﷺ کی زندگی کا کونسا گوشہ ہم سے چھپا ہوا ہے؟ سب کچھ موجود ہے۔ یہ واحد نبی ہیں جن کی زندگی کا ہر گوشہ ہمارے سامنے ہے۔ کوئی بھی آدمی اس کا (analysis) کرسکتا ہے اور آج بھی لوگ کرتے ہیں۔ یہ کیا چیز ہے؟ یہ اس لئے کہ عمل میں کوئی کمی نہ آئے ، ہمارے لئے سنت کی پیروی آسان ہو۔

اَطِیۡعُوا اللہَ وَاَطِیۡعُوا الرَّسُوۡلَ
پر قیامت تک عمل آسان ہو۔ یہ صرف (theoretical) بات نہ ہو ، بلکہ عملی طو رپر ایسا ممکن ہو۔ دین تو یہ ہے کہ آپ ﷺ کی لائی ہوئی شریعت کو سمجھ کر اس پر عمل کیا جائے اور اس عمل میں اخلاص پیدا کیا جائے پھر اللہ تعالیٰ سے اس کے قبول ہونے کی دعا کی جائے۔ سارے کا سارا (Procedure) اسی کے لئے ہے اللہ جل شانہ ہم سب کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔

وآخر دعوانا ان الحمد اللہ رب العالمین۔